اوہنری کی شاہکار مختصرکہانی The Last Leaf کا اُردو ترجمہ
EPAPER
Updated: March 03, 2023, 4:39 PM IST | Shahebaz Khan | Mumbai
اوہنری کی شاہکار مختصرکہانی The Last Leaf کا اُردو ترجمہ
واشنگٹن اسکوائر کے مغربی علاقے میں اینٹوں سے بنی ایک تین منزلہ عمارت میں سُو (سُوڈی) اور جانسی (جوآنا) کا اپنا اسٹوڈیو تھا۔ ایک مین سے تھی اور دوسری کیلیفورنیا سے۔ دونوں برسوں پہلے ایک کیفے میں ملی تھیں۔ مصوری میں دلچسپی نے دونوں میں قربت بڑھا دی تھی، اور اب وہ ساتھ رہتی تھیں۔
نومبر میں ڈاکٹروں نے تیزی سے پھیلنے والی ایک جان لیوا بیماری کو نمونیا کا نام دیا جو اِن دنوں سو اور جانسی کی کالونی میں گھوم رہی تھی۔ اس نے جانسی پر حملہ کردیا اور وہ بستر سے لگ گئی۔ کمزور اور بے جان جسم کے ساتھ وہ کمرے کی چھوٹی سی کھڑکی سے اینٹوں سے بنے سامنے والے گھر کو گھنٹوں گھورتی رہتی۔
ایک صبح جانسی کے چیک اَپ کے بعد ڈاکٹر نے تھرما میٹر کو بغور دیکھتے ہوئے سُو سے اکیلے میں کہا ’’اس کے پاس جینے کیلئے دس میں سے ایک موقع ہے۔ جانسی نے ذہن بنا لیا ہے کہ وہ جلد ہی اس دنیا سے جانے والی ہے۔ اس کی کیا خواہش ہے؟‘‘
’’وہ خلیج نیپلز کی تصویر بنانا چاہتی ہے۔‘‘ سُو نے کہا۔’’ایک ڈاکٹر کے طور پر مَیں اُسے بچانے کی پوری کوشش کروں گا۔ مگر اسے اپنے آپ کو صحت یاب کرنے کی جدوجہد تیز کرنی ہوگی۔ تبھی اس کے پاس بچنے کا پانچ میں سے ایک موقع ہوگا۔‘‘ ڈاکٹر یہ کہہ کر چلا گیا۔
سُو اپنے کمرے میں چلی گئی اور پھوٹ پھوٹ کر رونے لگی۔ اس کا رومال آنسوؤں سے تر ہوگیا۔ کچھ دیر بعد وہ اپنے ڈرائنگ بورڈ کے ساتھ، سیٹی بجاتے ہوئے جانسی کے کمرے میں آئی۔ جانسی کھڑکی کی جانب منہ کئے لیٹی تھی۔ سُو نے سیٹی بجانا بند کردی۔ اسے لگا کہ جانسی سو رہی ہے۔ اس نے اپنے بورڈ کو ترتیب دیا اور ڈرائنگ بنانا شروع کردی۔ وہ ایک خوبصورت گھڑسوار کی تصویر بنارہی تھی کہ اسے ہلکی آواز سنائی دی۔ اس نے دھیان نہیں دیا لیکن یہ آواز پھر آئی۔ وہ تیزی سے اٹھی اور بستر کے پاس گئی۔ جانسی کی آنکھیں کھلی تھیں اور وہ کھڑکی سے باہر دیکھتے ہوئے گنتی گن رہی تھی۔ ’’بارہ۔‘‘ اس نے کہا ، اور تھوڑی دیر بعد ’’گیارہ‘‘؛ اور پھر ’’دس،‘‘ اور ’’نو‘‘؛ اور پھر ’’آٹھ‘‘ اور’’سات۔‘‘
سُو نے کھڑکی سے باہر دیکھا۔ گننے کو کیا تھا؟ وہاں صرف ایک سنسان صحن نظر آتا تھا، اور بیس فٹ کے فاصلے پر اینٹوں کے گھر کا ایک خالی حصہ۔ ایک پرانی آئیوی بیل جس کی جڑیں سڑ گئی تھیں۔ بیل نے تقریباً نصف دیوار کو ڈھک رکھا تھا۔ خزاں کی ٹھنڈی ہواؤں نے بیل کے پتوں کو جھنجھوڑ کر رکھ دیا تھا یہاں تک کہ اس کی شاخیں کنکال بن گئی تھیں۔ شاخوں پر چند پتے ہی رہ گئے تھے۔ چند ٹوٹے پتے اینٹوں سے چمٹے ہوئے تھے۔
’’یہ کیا ہے، جانسی؟‘‘ سُو نے پیار ے پوچھا۔ ’’چھ۔‘‘‘ جانسی نے تقریباً سرگوشی میں کہا۔ ’’وہ اب تیزی سے گر رہے ہیں۔ تین دن پہلے تقریباً سو تھے۔ ان کو گنتے وقت میرے سر میں درد ہوتا تھا۔ لیکن اب یہ آسان ہوگیا ہے۔ یہ لو ایک اور گرگیا۔ اب صرف پانچ باقی ہیں۔‘‘’’پانچ کیا، جانسی؟ اپنی سُو کو بتاؤ۔‘‘
’’پتے۔ آئیوی کی بیل پر۔ جب آخری گرے گا تو مَیں بھی اس دنیا سے چلی جاؤں گی۔ میرا وقت قریب ہے۔ کیا ڈاکٹر نے تمہیں نہیں بتایا؟‘‘’’اوہ! تم بکواس کررہی ہو۔‘‘ سُو نے غصیلے لہجے میں کہا۔ ’’تمہارے ٹھیک ہونے سے پرانی بیل کے پتوں کا کیا تعلق؟ اور تم اس بیل کو بہت پسند کرتی تھی، اب ایسا مت کہو۔ آج صبح ہی ڈاکٹر نے بتایا ہے کہ تم جلد ٹھیک ہوجاؤگی۔‘‘
جانسی نے بیل پر نظریں جمائے ہوئے کہا ’’ایک اور گرگیا۔ اب صرف چار رہ گئے ہیں۔ میں اندھیرا ہونے سے پہلے آخری پتے کو گرتا دیکھنا چاہوں گی۔ اور پھر میں بھی اس دنیا سے چلی جاؤں گی۔‘‘
’’جانسی، ڈیئر!‘‘ سُو نے اس کی طرف جھکتے ہوئے کہا، ’’کیا تم مجھ سے وعدہ کرو گی کہ تم اس وقت تک اپنی آنکھیں بند رکھو گی جب تک میرا کام ختم نہ ہو جائے۔ اور اس دوران کھڑکی سے باہر بالکل نہیں دیکھو گی؟ مجھے کل اپنی یہ تصویر مکمل کرکے دینا ہے۔‘‘
’’کیا تم دوسرے کمرے میں تصویر نہیں بنا سکتیں؟‘‘ جانسی نے سرد لہجے میں پوچھا۔
’’میں یہاں تمہارے ساتھ رہنا چاہتی ہوں۔‘‘ سُو نے جواب دیا۔ ’’اور مَیں نہیں چاہتی کہ تم بیل کے ان فضول پتوں کو دیکھو۔‘‘
’’جیسے ہی تمہارا کام ختم ہوجائے، مجھے بتاؤ۔‘‘ جانسی نے آنکھیں بند کرتے ہوئے کہا۔ ایسا محسوس ہورہا تھا کہ بستر پر کسی نے سفید رنگ کا خوبصورت مجسمہ سلا دیا ہو۔
’’میں آخری پتے کو گرتا ہوا دیکھنا چاہتی ہوں۔ میں انتظار کرتے کرتے بہت تھک گئی ہوں، میں بہت تھک گئی ہوں۔ میں ہر چیز سے آزاد ہونا چاہتی ہوں، اور ان لاچار، تھکے ہوئے پتوں کی طرح گرنا چاہتی ہوں، گہرائی میں، بہت گہرائی میں۔‘‘
’’سونے کی کوشش کرو۔‘‘ سُو نے کہا۔ ’’مجھے اپنی تصویر مکمل کرنے کیلئے بوڑھے بہرمن کی ضرورت ہے تاکہ اسے اپنی تصویر میں بطور ماڈل شامل کرسکوں۔ میں اسے بلانے جارہی ہوں۔ جب تک مَیں واپس نہ آؤں، کوئی حرکت نہیں کرنا۔‘‘
بوڑھا بہرمن ایک پینٹر تھا جو اسی عمارت کے گراؤنڈ فلور پر رہتا تھا۔ اس کی عمر ۶۰؍ سے تجاوز کر گئی تھی۔ وہ ایک لمبی ڈاڑھی والا شخص تھا۔ ایک مصور کے طور پر بہرمن ناکام رہا تھا۔ وہ ہمیشہ ایک شاہکار تصویر بنانے کے بارے میں سوچا کرتا تھالیکن اس نے اب تک اس پر کام نہیں شروع کیا تھا۔ کئی برسوں سے وہ بیکار تھا۔ اس نے کالونی کے اُن نوجوان فنکاروں کیلئے بطور ماڈل خدمات انجام دے کر تھوڑا بہت کمایا تھا جو کسی پیشہ ور ماڈل کی قیمت نہیں ادا کر سکتے تھے۔ وہ ہر وقت اپنے آنے والے شاہکار کے بارے میں باتیں کرتا تھا۔
سُو جب بہرمن کے پاس آئی تو اسے چبوترے پر ایک خالی کینوس نظر آیا جو بہرمن کے شاہکار کی پہلی لکیر کا گزشتہ ۲۵؍ سال سے انتظار کر رہا تھا۔ سُو نے بہرمن کو بطور ماڈل چلنے کیلئے کہا اور اسے یہ بھی بتایا کہ جانسی کس طرح اپنے آپ کو ایک ہلکا پتہ سمجھ رہی ہے جو کسی بھی وقت زندگی کی شاخ سے الگ ہوکر گر جائیگا۔ بوڑھا بہرمن اپنی سرخ آنکھوں سے سُو کو اس طرح دیکھ رہا تھا جیسے دنیا میں اس سے بڑی احمق کوئی اور نہیں ہے۔
یہ بھی پڑھئے: ماچس والی لڑکی (ہینس کرسچین اینڈرسن)
وہ کہنے لگا ’’کیا دنیا میں ایسے بے وقوف لوگ بھی ہیں جو اپنی سانسوں کی تاریں بیل کے گرتے ہوئے پتوں کے ساتھ جوڑتے ہیں؟ میں نے ایسی بات کبھی نہیں سنی۔ تم پاگل ہوگئی ہو، اور میں تمہارے لئے ماڈل بھی نہیں بنوں گا۔‘‘ ’’وہ بہت بیمار اور کمزور ہے۔‘‘ سُو نے کہا، ’’اور اس کے دماغ پر بخار کا شدید اثر ہوا ہے۔ اس کی خواہشات عجیب ہیں۔ ٹھیک ہے اگر تم میرے لئے ماڈل نہیں بننا چاہتے۔ تم ایک ناکام پینٹر ہو۔‘‘ سُو نے بہرمن کی باتوں کا برا مانتے ہوئے کہا، اور وہاں سے جانے لگی۔’’لڑکی! تم بالکل بے وقوف ہو۔ چلو چلتے ہیں۔ میں تمہارے لئے ماڈل بن جاتا ہوں۔ مگر یاد رکھنا میں ایک دن شاہکار بناؤں گا، لیکن اسے دیکھنے کیلئے دنیا میں کوئی نہیں رہے گا، سب چلے جائیں گے۔‘‘ بہرمن نے چیختے ہوئے کہا۔
جب دونوں اوپر گئے تو جانسی سو رہی تھی۔ سُو نے کھڑکی کا پردہ کھینچ دیا اور بہرمن کو دوسرے کمرے کی طرف چلنے کا اشارہ کیا کہ کہیں جانسی جاگ نہ جائے۔
دوسرے کمرے کی کھڑکی سے دونوں نے ڈرتے ہوئے باہر بیل کی طرف دیکھا۔ پھر چند لمحوں کیلئے دونوں نے ایک دوسرے کو دیکھا لیکن کسی نے کچھ نہیں کہا۔ باہر بارش کے ساتھ ہلکی برفباری بھی ہورہی تھی۔ طوفاں کا سا سماں تھا۔ ہوائیں تیز تھیں۔ بہرمن ماڈل کے طور پر ایک کنارے بیٹھ گیا اور سُو اسے دیکھ کر اپنی تصویر مکمل کرنے لگی۔
اگلی صبح جب سُو نیند سے بیدار ہوئی تو اس نے جانسی کو پھیکی اور کھلی آنکھوں سے کھڑکی کے پردے کو گھورتا ہوا پایا۔ ’’اسے ہٹاؤ ؛ مَیں دیکھنا چاہتی ہوں۔‘‘ اس نے آہستگی سے کہا۔
تھکی ہاری سُو نے اس کی بات مان لی۔ اس نے پردہ ہٹادیا۔
لیکن رات بھر جاری رہنے والی بارش اور ہوا کے تیز جھونکوں کے بعد بھی اینٹوں کی دیوار پر پڑی آئیوی بیل کا ایک پتہ شاخ پر تھا۔ پوری بیل کا یہ آخری پتہ تھا۔ تنے کے قریب اس کا رنگ گہرا سبز تھا۔ پتے کے کنارے دانے دار زرد رنگ کے تھے۔ یہ پتہ بڑی بہادری سے شاخ سے چمٹا ہوا تھا اور زمین سے کوئی بیس فٹ اونچائی پر تھا۔‘‘
’’یہ آخری ہے!‘‘ جانسی نے کہا۔ ’’میں نے سوچا کہ رات کو یہ ضرور گرگیا ہوگا کیونکہ میں نے تیز ہواؤں کی آواز سنی تھی۔ تاہم، آج یہ پتہ ضرور گرجائے گا، اور اس کے گرتے ہی میں بھی مر جاؤں گی۔‘‘
’’ڈیئر، ڈیئر!‘‘ سُو نے اپنا چہرہ ایک بوسیدہ تکیے سے ٹکاتے ہوئے کہا، ’’اپنے بارے میں نہیں تو میرے بارے میں سوچو۔ تمہارے جانے کے بعد میں کیا کروں گی؟‘‘
لیکن جانسی نے کوئی جواب نہیں دیا۔
دنیا کی سب سے تنہا شے روح ہے۔ جسم سے نکلنے کے بعد وہ اپنے پراسرار لمبے سفر پر تنہا نکل جاتی ہے۔
دن ڈھل گیا۔ شام آگئی لیکن آئیوی کا واحد پتہ دیوار کے ساتھ لگی بیل کے تنے سے چمٹا رہا۔ پھر، رات آتے ہی ہوا تیز ہوگئی۔ بارش کی بوندیں کھڑکیوں کے شیشوں سے ٹکرا کر نیچے گرجاتیں۔ بارش اور ہواؤں کا زور کم ہوا تو جانسی نے سُو کو بڑی بے رحمی سے پردہ ہٹانے کا حکم دیا۔ سُو نے ڈرتے ڈرتے پردہ ہٹادیا۔ لیکن آئیوی کا پتہ اب تک اپنی جگہ پر تھا۔ سُو نے سکون کا سانس لیا۔ جانسی لیٹے ہوئے اسے دیر تک دیکھتی رہی۔ پھر اس نے سُو کو بلایا جو چکن کا شوربہ بنانے لگی تھی۔
’’میں ایک بری لڑکی ہوں، سُوڈی،‘‘ جانسی نے کہا۔ ’’کسی نادیدہ چیز نے اس آخری پتے کو شاخ سے اس لئے چمٹا دیا ہے کہ مجھے بتاسکے میں کتنی ناامید اور خدا کی قدرت سے مایوس تھی۔ اس طرح مرنا گناہ ہے۔ اب تم میرے لئے تھوڑا سا شوربہ لے آؤ، اور تھوڑا سا دودھ بھی، اور ہاں ؛ پہلے میرے لئے آئینہ لاؤ تاکہ میں خود کو دیکھ سکوں اور پھر میرے تکیوں کو درست کردو تاکہ میں تمہیں کھانا پکاتے ہوئے دیکھ سکوں۔‘‘
پھر ایک گھنٹے بعد جانسی نے کہا:’’سُوڈی، کسی دن میں خلیج نیپلز کو ضرور پینٹ کروں گی۔‘‘
دوسرے دن دوپہر کو ڈاکٹر آیا۔ اس نے جانسی کا چیک اَپ کیا اور پھر سُو کو الگ لے جاکر کہا :’’اب اس کے بچنے کے امکانات روشن ہوگئے ہیں۔ لیکن مجھے اَب ایک دوسرا کیس دیکھنا ہے۔ نچلے منزلے پر بہرمن نام کا ایک بوڑھا پینٹر ہے جس پر نمونیہ کا شدید حملہ ہوا ہے۔ اُس کے بچنے کی کوئی اُمید نہیں ہے۔ لیکن اسے آج اسپتال لے جایا جارہا ہے تاکہ اسے بچانے کی ہرممکن کوشش کی جاسکے۔‘‘
اگلے دن ڈاکٹر نے سُو سے کہا: ’’جانسی خطرے سے باہر ہے۔ تم جیت گئیں۔ اب اسے اچھی غذا دو اور اس کی اچھی طرح دیکھ بھال کرو۔ وہ ٹھیک ہوجائے گی۔‘‘
اس دوپہر سُو، جانسی کے پاس اس کے بیڈ پر آکر لیٹ گئی۔ جانسی بستر پر نیم دراز نیلے رنگ کا اُونی اسکارف بُن رہی تھی۔ ’’مجھے تم سے کچھ کہنا ہے۔‘‘ سُو نے کہا’’مسٹر بہرمن کا آج نمونیہ کے باعث اسپتال میں انتقال ہو گیا۔ وہ دو دن سے بیمار تھے۔ پہلے دن کی صبح چوکیدار نے انہیں ان کے کمرے میں درد کی حالت میں بے بس پایا۔ ان کے جوتے اور کپڑے ٹھنڈے گیلے پانی سے بھیگے ہوئے تھے۔ لوگوں کو اس بارے میں کچھ نہیں معلوم کہ وہ اتنی سرد طوفانی رات میں کہاں گئے تھے۔ کچھ دیر بعد انہیں ایک لالٹین ملی، جو اس وقت تک روشن تھی، قریب ہی ایک سیڑھی تھی اور کچھ پینٹ برش اور پیلٹ، جن پر سبز اور زرد رنگ لگے ہوئے تھے۔‘‘ جانسی خاموشی سے سُو کی بات سن رہی تھی۔
سُو نے پھر کہنا شروع کیا: ’’ اب کھڑکی سے باہر دیکھو، ڈیئر! دیوار پر آئیوی کا آخری پتہ غور سے دیکھو۔ کیا تم نے یہ نہیں سوچا کہ جب ہوا چلتی ہے تو یہ پتہ پھڑپھڑاتا کیوں نہیں ہے؟ اور نہ ہی ہلتا ہے؟ جانسی! یہ بہرمن کا شاہکار ہے۔ اس رات جب آخری پتہ گرگیا تو، اس نے ٹھیک اسی جگہ پر یہ پتہ پینٹ کردیا تھا۔‘‘