Inquilab Logo

انِل بسواس نے اپنے گیتوں کے ذریعے آزادی کے متوالوں میں جوش پیدا کیا تھا

Updated: July 07, 2020, 2:08 PM IST | Mumbai

ہندوستانی سنیما کی دنیا میں انِل بسواس کو ایک ایسے موسیقار کے طور پر یاد کیا جاتا ہے جنہوں نے مکیش اور طلعت محمود سمیت کئی گلوکاروں کو کامیابی کی بلندیوں پر پہنچایا

anilbiswas.photo:inquilab
انل بسواس۔تصویر:انقلاب

ہندوستانی سنیما کی دنیا میں انِل بسواس کو ایک ایسے موسیقار کے طور پر یاد کیا جاتا ہے جنہوں نے مکیش اور طلعت محمود سمیت کئی گلوکاروں کو کامیابی کی بلندیوں پر پہنچایا۔ مکیش کے رشتہ دار موتی لال کے کہنے پر انِل نے مکیش کو اپنی ایک فلم میں گانے کا موقع دیا تھا لیکن انہیں مکیش کی آواز پسند نہیں آئی۔ بعد میں انہوں نے وہی  گانا اپنی آواز میں گا کر دکھایا۔
 اس پر مکیش نے انِل سے کہا ’’دادا بتائیے کہ آپ جیسا گانا بھلا کون گاسکتا ہے۔ اگر آپ ہی گاتے رہیں گے تو بھلا ہم جیسے لوگوں کو کس طرح موقع ملے گا۔‘‘ مکیش کی اس بات نے انِل کو سوچنے کیلئے مجبور کر دیا اور انہیں رات بھر نیند نہیں آئی۔ اگلے دن انہوں نے اپنی فلم ’پہلی نظر‘ میں مکیش کو بطور گلوکار منتخب کرلیا ۔
 انِل بسواس کی پیدائش ۷؍جولائی ۱۹۱۴ء کو مشرقی بنگال کے وارسال(اب بنگلہ دیش) میں ہوئی تھی۔ بچپن سے ہی ان کا رجحان گیت سنگیت کی طرف تھا۔ محض ۱۴؍سال کی عمر سے انہوں نے کنسرٹ میں حصہ لینا شروع کر دیا تھا جہاں وہ طبلہ بجایا کرتے تھے۔ ۱۹۳۰ء میں ہندوستان  اپنی آزادی کے  عروج پر تھا۔ ملک کو آزاد کرانے کیلئے جو مہم چھیڑی گئی تھی، اس میں  انِل بھی شامل ہو گئے۔  اس کیلئے انہوں نے اپنی نظموں کا سہارا لیا۔ نظموں کے ذریعے انِل ہم وطنوں میں بیداری پیدا کیا کرتے تھے۔ اس کی وجہ سے انہیں جیل بھی جانا پڑا۔  ۱۹۳۰ء میں وہ کلکتہ کے رنگ محل تھیٹر  سے جڑ گئےجہاں وہ بطور اداکار، گلوکار اور موسیقار  کام کرتے تھے۔ ۱۹۳۲ء تا ۱۹۳۴ء انِل تھیٹر سے جڑے  رہے۔ اس دوران انہوں نے کئی ڈراموں میں اداکاری بھی کی۔
 رنگ محل تھیٹر کے ساتھ ہی انِل ہندوستان ریکارڈنگ کمپنی سے بھی وابستہ ہو گئے۔ ۱۹۳۵ء میں اپنے خوابوں کو نئی شکل دینے کیلئے وہ کلکتہ سے ممبئی آ گئے۔ ۱۹۳۵ء میں ریلیز ہونے والی فلم ’دھرم کی دیوي‘سے بطور میوزک ڈائریکٹر انہوں نے اپنے فلمی کریئر کا آغاز کیا تھا۔ ساتھ ہی فلم میں انہوں نے اداکاری بھی کی تھی۔
 ۱۹۳۷ءمیں محبوب خان کی فلم ’جاگیردار‘  ان کے فلمی کریئر کی اہم فلم ثابت ہوئی جس کی کامیابی کے بعد بطور میوزک ڈائریکٹر وہ فلم انڈسٹری میں اپنی شناخت بنانے میں کامیاب ہو گئے۔ ۱۹۴۲ء میں انِل ’بامبے ٹاکیز‘ میں ۲؍ہزار ۵۰۰؍ روپے ماہانہ تنخواہ پر کام کرنے لگے تھی۔
 ۱۹۴۳ء میں انِل کو بامبے ٹاکیز  میں فلم ’قسمت‘ کیلئے موسیقی ترتیب دینے کا موقع ملا۔ یوں تو ’قسمت‘ میں ان کی موسیقی سے  سجے تمام نغمے  مقبول ہوئے لیکن ’آج ہمالیہ کی چوٹی سے پھر ہم نے للکارا ہے،  دور ہٹو اے دنیا والو ہندوستان ہمارا ہے‘ گیت نے آزادی کے دیوانوں میں ایک نیا جوش بھر دیا۔
 اپنے گیتوں کو انِل نے غلامی کے خلاف آواز بلند کرنے کے ہتھیار کے طور پر استعمال کیا اور ان گیتوں نے انگریزوں کے خلاف  ہندستانیوں کی جدوجہد کو ایک نئی سمت دی۔یہ گیت اس قدر مقبول ہوئے کہ فلم کے اختتام پر سامعین کی فرمائش پر اسے سنیما ہال میں دوبارہ سنایا جانے لگا۔  اس کے ساتھ ہی ’قسمت‘ نے باکس آفس کے سارے ریکارڈ توڑ دیئے۔ اس فلم نے کلکتہ کے ایک سینما ہال میں مسلسل تقریباً ۴؍ سال تک چلنے کا ریکارڈ بنایا۔
 ۱۹۴۶ء میں انِل نے بامبے ٹاکیز کو الوداع کہہ دیا اور وہ آزاد موسیقار کے طور پر کام کرنے لگے۔ آزاد موسیقار کے طور پر انِل کو سب سے پہلے ۱۹۴۷ء میں میں ریلیز ہونے والی فلم ’بھوک‘ میں موسیقی ترتیب دینے کا موقع ملا۔ رنگ محل تھیٹر کے بینر تلے بنی اس فلم میں گلو کار ہ گيتادت کی آواز میں انِل کا گیت ’آنکھوں میں اشک لب پہ رہے ہائے‘ سامعین میں بہت مقبول ہوا۔ ۱۹۴۷ء ہی میں انِل کی ایک اور سپر ہٹ فلم ریلیز ہوئی تھی ’نيّا‘۔ زہرہ بائی کی آواز میں انِل کی موسیقی   والے گیت ’ساون بھادو نین همارےاي ملن کی بہار رے‘ کی سامعین نے خوب پزیرائی کی۔
 ۱۹۴۸ء میں ریلیز ہونے والی فلم ’انوکھا پیار‘  انِل کے فلمی کریئر کے ساتھ ساتھ ذاتی زندگی میں اہم فلم ثابت ہوئی۔ فلم کی موسیقی تو ہٹ ہوئی، ساتھ  ہی فلم کے  دوران ان کا رجحان گلوکارہ مینا کپور کی جانب ہو گیا،  بعد میں انِل اور مینا کپور نے شادی کر لی۔ ۶۰ء کے عشرے میں انِل بسواس نے فلم انڈسٹری سے تقریباً کنارہ کشی کر لی اور ممبئی سے دہلی چلے گئے۔ اس دوران انہوں نے ’سوتیلا بھائی‘ اور ’چھوٹی چھوٹی باتیں‘ جیسی فلموں میں کام کیا،  تاہم یہ فلمیں باکس آفس پر کامیاب نہیں رہیں لیکن اس فلم کی  موسیقی سامعین کو بہت پسند آئی۔  اس کے ساتھ ہی فلم کو قومی ایوارڈ سے بھی نوازا  گیا۔ 
 ۱۹۶۳ء میں انِل دہلی پرسار بھارتی میں بطور ڈائریکٹر کام کرنے لگے اور ۱۹۷۵ء تک وہاں رہے۔ ۱۹۸۶ء میں موسیقی کے میدان میں ان کے قابل  قدر تعاون  کے پیش نظر  انہیں سنگیت ناٹک اکیڈمی ایوارڈ سے نوازا گیا۔
 اپنے گیتوں سے تقریباً ۳؍ عشرے تک سامعین کے دل جیتنے والا یہ عظیم موسیقار ۳۱؍ مئی ۲۰۰۳ء کو اس دنیا کو الوداع کہہ گیا۔

متعلقہ خبریں

This website uses cookie or similar technologies, to enhance your browsing experience and provide personalised recommendations. By continuing to use our website, you agree to our Privacy Policy and Cookie Policy. OK