Inquilab Logo

اداکاری اور گلوکاری سے قبل چائلڈ آرٹسٹ کے طور پر نورجہاں مشہور ہوچکی تھیں

Updated: January 03, 2021, 1:05 PM IST | Anees Amrohi

فلم ’خاندان‘ کے ذریعہ ہندوستانی فلموں کو ایک ایسی اداکارہ نصیب ہوئی جو پنجابی لب ولہجے کے ساتھ پردے پر شلوار قمیص کا فیشن لے کر آئی تھی۔ اس سے قبل ہیروئنیں ساڑی یا گھاگھرا چولی کا استعمال کرتی تھیں۔ نورجہاں کو نئے لب ولہجہ اور نئے لباس میں فلم بینوں نے بہت پسند کیا۔ انہوں نے ہیروئن کے طور پر اُس وقت فلموں میں اپنا جلوہ دکھایا جب زبیدہ، دیویکا رانی اور سلوچنا وغیرہ کی دھوم تھی۔یہ تینوں بہت بولڈ تھیں۔ ایسے میں نورجہاں نے اپنی شناخت قائم کی

Noor Jahan
نور جہاں

دُنیا میں نورجہاں نام کی دو عورتوں نے بہت شہرت حاصل کی ہے۔ ایک تو ملکۂ ہندوستان نورجہاں جو بادشاہ جہانگیر کی بیگم تھیں اور دوسری ملکۂ  ترنم نورجہاں جو اپنی اداکاری اور آواز کی جادوگری کیلئے مشہور تھیں۔
 گلوکارہ و اداکارہ نورجہاں ۲۱؍ستمبر ۱۹۲۶ء کو صوبہ پنجاب کے ایک چھوٹے سے گائوں کسور میں پیدا ہوئیں۔ ان کا خاندان کافی بڑا تھا، یہ دس بھائی بہن تھے۔انہیں بچپن ہی سے موسیقی کی تعلیم دی گئی تھی جو اُن کے خون میں رچ بس گئی تھی۔ جب دُوسرے بچے کھیل کود میں مصروف ہوتے تھے، تب وہ ماسٹر غلام حیدر سے موسیقی اور گائیکی کی تعلیم حاصل کر رہی ہوتی تھیں۔ یہی وجہ ہے کہ نورجہاں کو گلوکاری سے جنون کی حد تک لگائو تھا۔ انہوں نے زندگی میں بہت سے سمجھوتے بھی کئے مگر جہاں گائیکی سے منہ موڑ لینے کی بات آئی تو انہوں نے سب کچھ تیاگ دیا۔ صرف ۶؍ برس کی عمر میں انہوں نے فلمساز کے ڈی مہرہ کی فلم’غیبی گولہ‘ میں چائلڈ آرٹسٹ کے طور پر کام کیا۔ یہ فلم ۱۹۳۵ء میں ریلیز ہوئی جو مدن تھیٹر نے بنائی تھی۔ اُسی برس نورجہاں کی دو فلمیں، ’مصر کا ستارہ‘ اور ’آزادی‘ بھی نمائش کیلئے پیش ہوئیں۔ ۱۹۳۶ء میں فلم ’شیلا‘ اور ’ناری راج‘، ۱۹۳۷ء میں ’مسٹر ۴۲۰، فخر اسلام،کس کی پیاری‘، ۱۹۳۸ء میں ہیر سیال، ۱۹۳۹ء میں ’گل بکائولی، سسی پنو‘، ۱۹۴۰ء میں ’یملا جٹ‘ اور ۱۹۴۱ء میں فلم’چودھری‘ ریلیز ہوئی۔ ان تمام فلموں میں بے بی نورجہاں نے فلمی پردے پر اپنی ایک خاص پہچان بنائی تھی۔
 ان کا پیدائشی نام اللہ وسائی تھا اور سیٹھ دل سکھ کرنانی نے ان کو نورجہاں کا نام دیا تھا۔ نورجہاں بچپن ہی میں استاد فضل حسین کی شاگرد ہو گئی تھیں۔ اُستاد بہت بوڑھے ہو گئے تھےلہٰذا انہوں نے اپنے ایک ہونہار شاگرد اُستاد غلام حیدر سے کہا کہ اب تم اللہ وسائی اور عیدن، دونوں بہنوں کو موسیقی کی تعلیم دو گے۔اس طرح نواب بیگم، عیدن بیگم اور اللہ وسائی پرمشتمل تھیٹر چند دنوں میں ہی پنجاب میل کے نام سے مشہور ہو گیا تھا۔ تھیٹر کے مالک سیٹھ دل سکھ کرنانی نے ایک دن کہا کہ آپ سب لوگ آج سے اللہ وسائی کو نورجہاں کہا کریں گے۔ سیٹھ نے نورجہاں کا ہاتھ دیکھ کر یہ بھی کہا کہ اس کی شہرت  ایک دن ساتویں آسمان تک پہنچے گی۔ نورجہاں کی ایک بہن عیدن اور پانچ بھائی تھے۔ ان کے والد کا نام مدد علی عرف مدّا، اور ماں کا نام فتح بی بی تھا۔۱۹۴۲ء میں نورجہاں کی ایک ایسی فلم کی نمائش ہوئی جس نے بے بی نورجہاں کو بحیثیت ہیروئن فلم نگری میں متعارف کرایا۔ پنچولی پکچرس کے بینر تلے بنی اس فلم کا نام تھا ’خاندان‘ جس کے ہدایتکار شوکت حسین رضوی تھے۔ اس فلم کی موسیقی غلام حیدر نے ترتیب دی تھی اور نورجہاں کے مقابل غلام محمد نے مرکزی کردار ادا کیا تھا۔ منورما، اجمل، بے بی اختر اور ابراہیم وغیرہ اس فلم ’خاندان‘ کے دیگر اہم کردار تھے۔ فلم کی نمائش کے وقت ان کی عمر صرف ۱۳؍برس تھی۔
 فلم ’خاندان‘ کے ذریعہ ہندوستانی فلموں کو ایک ایسی اداکارہ نصیب ہوئی جو پنجابی لب ولہجے کے ساتھ پردے پر شلوار قمیص کا فیشن بھی لے کر آئی تھی۔ حالانکہ اس سے قبل ہیروئنیں ساڑی یا گھاگھرا چولی کا استعمال کیا کرتی تھیں۔ ان  کو نئے لب ولہجہ اور نئے لباس میں فلم بینوں نے بہت پسند کیا۔ نورجہاں نے ہیروئن کے طور پر اُس وقت فلموں میں اپنا جلوہ دکھایا جب زبیدہ، دیویکا رانی اور سلوچنا وغیرہ  کی دھوم ہوتی تھی۔ یہ تینوں بہت بولڈ تھیں۔ ایسے  میں نورجہاں نے اپنی شناخت قائم کی۔ دوسری طرف شعبۂ گلوکاری میں امیربائی کرناٹکی، زہرہ بائی امبالے والی اور خورشید جیسی گلوکارائوں کی موجودگی میں اپنے لئے مقام بنایا۔
 فلم ’خاندان‘ کے بعد اگلے ہی برس۱۹۴۳ء میں نورجہاں کی فلم ’نوکر‘ آئی جس میں چندر موہن، شوبھنا سمرتھ اور یعقوب وغیرہ دیگر اداکار تھے۔ دوسری فلم ’دُہائی‘ تھی جس میں شانتا آپٹے، کمار، انصاری اور مرزا مشرف تھے۔ تیسری فلم ’نادان‘ تھی جس میں مسعود، مایا دیوی، جلو بائی، مراد، نذیر اور جانی بابو تھے۔۱۹۴۴ء میں فلم ’دوست‘ اور ’لال حویلی‘، دو فلمیں منظرعام پر آئیں جن کے ہدایتکار شوکت حسین رضوی اور کے بی لال تھے۔ ان فلموں میں موتی لال اور سریندر جیسے منجھے ہوئے اداکاروں نے مرکزی کردار ادا کئے تھے۔۱۹۴۵ء میں ان کی زندگی میں ایک نیا دور آیا۔ اس سال ان کی ۴؍ فلمیں ریلیز ہوئیں۔’’بڑی ماں،بھائی جان، ولیج گرل‘اور ’زینت‘۔ فلم ’بڑی ماں‘ میں نورجہاں کے ساتھ لتا منگیشکر نے بھی بے بی لتا کے نام سے ایک اہم کردار ادا کیا تھا۔ فلم ’زینت‘ کیلئے نورجہاں نے موسیقار میر صاحب حفیظ خان اور رفیق غزنوی کی ترتیب شدہ دُھن پر پہلا فلمی نغمہ صدابند کرایا تھا جس کے بول تھے ’’بلبلو مت رو یہاں، آنسو بہانا ہے منع‘‘ اسی فلم سے نورجہاں نے ہندی فلموں کی اوّلین قوالی کو بھی اپنی آواز بخشی جس کے بول تھے ’’آہیں نہ بھریں، شکوے نہ کئے، کچھ بھی نہ زباں سے کام لیا۔‘‘
 شوکت حسین رضوی کی ہدایت میں بنی فلم’زینت‘ نے اپنے نغموں کی مقبولیت کے سبب کامیابی کے نئے ریکارڈ قائم کئے اور نورجہاں کو بطور ایک کامیاب اداکارہ اور گلوکارہ عوام میں مقبولیت حاصل ہوئی۔ فلم’زینت‘ کے ساتھ ہی ہدایتکار امرناتھ اور موسیقار شیام سندر کی فلم ’ولیج گرل‘ بھی نورجہاں کے لافانی نغموں کی وجہ سے مقبولیت حاصل کر سکی۔ ۱۹۴۵ء میں نمائش ہوئی ان چار فلموں کے بعد نورجہاں ہندوستانی فلموں کی سب سے زیادہ کامیاب اداکارہ گلوکارہ کہلانے لگیں۔ نورجہاں کی آواز نے ملک کے گوشے گوشے میں دھوم مچا دی تھی۔
 ۱۹۴۶ء میں عظیم ہدایتکار محبوب خان اور موسیقار اعظم نوشاد کے ساتھ فلم ’انمول گھڑی‘ میں کام کرنے کا موقع ملا۔ محبوب خان نے اس فلم کے ذریعہ اپنے زمانے کے تین مقبول ترین اداکاروں کو ایک ساتھ پیش کیا تھا جو نامور گلوکار بھی تھے۔ نورجہاں، سریندر اور ثریا۔ تکونی محبت کی کہانی پر مبنی اس فلم کے لاجواب نغموں کی مقبولیت کے سبب فلم ’انمول گھڑی‘ اپنے وقت کی سب سے بڑی ہٹ فلم ثابت ہوئی۔ اس فلم کے نغموں کی ریکارڈتوڑ فروخت نے نورجہاں کو ملکۂ ترنم اور نوشاد کو موسیقار اعظم بنا دیا۔ ’’جواں ہے محبت حسیں ہے زمانہ، میرے بچپن کے ساتھی مجھے بھول نہ جانا، آجا میری برباد محبت کے سہارے، آواز دے کہاں ہے، دُنیا مری جواں ہے‘‘ جیسے نورجہاں کے گائے ہوئے یہ نغمے آج سات دہائیوں کے بعد بھی اپنی تازگی برقرار رکھے ہوئے ہیں۔
 ۱۹۴۷ء میں نورجہاں کی آخری دو فلمیں منظرعام پر آئیں، جن میں کام کرتے ہوئے انہوں نے  اپنے فن کا لوہا منوا لیا اور اس کے بعد ملکۂ ترنم اپنے لاکھوں مداحوں اور پرستاروں کو چھوڑکر پاکستان ہجرت کر گئیں۔ دلیپ کمار کے ساتھ نورجہاں کی اکلوتی فلم ’جگنو‘ شوکت آرٹ پروڈکشن کے بینر سے شوکت حسین رضوی کی ہدایت میں موسیقار فیروز نظامی کی موسیقی سے سجی ہوئی تھی۔ محمد رفیع اور نورجہاں کا گایا دوگانا ’’یہاں بدلہ وفا کا بے وفائی کے سوا کیا ہے‘‘ نورجہاں کے مقبول ترین گانوں میں سے ایک ہے۔ اس فلم میں گلوکار محمد رفیع نے ایک چھوٹا سا کردار بھی ادا کیا تھا۔دوسری فلم’مرزا صاحباں‘ تھی جس کے ہدایتکار امرناتھ اور موسیقار پنڈت امرناتھ تھے۔ مرزا صاحباں اپنے نغموں کی مقبولیت کے اعتبار سے زبردست کامیاب فلم تھی لیکن افسوس بٹوارے نے ملکۂ ترنم کو سرحدوں کے اُس پار پہنچا دیا۔
 ’’آواز دے کہاں ہے‘‘ جیسے صدابہار نغمے کے علاوہ بے شمار سریلے نغموں کو آواز دے کر ملکۂ ترنم نورجہاں تقسیم ہند کے بعد لاہور چلی گئیں۔ حالانکہ ان دنوں وہ گلوکارہ کے علاوہ اداکارہ کے طور پر بھی بے حد مقبول تھیں۔ وہاں جانے سے پہلے انہوں نے شوکت حسین رضوی سے شادی کرلی تھی۔بمبئی سے لاہور جانے کے بعد کچھ دنوں تک دونوں میں کافی بہتر تعلق رہا مگر آہستہ آہستہ دونوں ایک دوسرے سے اختلاف کرنے لگے اور اداکار اعجاز دُرّانی کی وجہ سے  معاملہ بہت آگے بڑھ گیا۔ شوکت حسین رضوی سے نورجہاںکو دو بیٹے اور ایک بیٹی پیدا ہوئے اور بعد میں ۱۹۵۹ء میں دونوں میں طلاق ہو گیا۔ نورجہاں نے دوسری شادی  اعجاز درانی سے کی، جن سے نورجہاںکو تین بیٹیاں پیدا ہوئیں مگر یہ دوسری شادی بھی ناکام ہو گئی۔ پھر وہ اپنے بچوں کے ساتھ اکیلی ہی  رہنے لگیں۔  ملک کی آزادی کے دس گیارہ برس بعد تک نورجہاں گلوکاری اور اداکاری، دونوں میں اپنا سکہ چلاتی رہیں مگر بدلتے حالات اور رجحانات کی وجہ سے انہوں نے دھیرے دھیرے اداکاری چھوڑکر گلوکاری ہی میں اپنے آپ کو بنائے رکھا۔ ۱۹۶۰ء میں فلم’سلمیٰ‘ کے گانے ’یہ زندگی ہے یا کسی کا انتظار‘ سے ایک بار پھر ان کی آواز کی دھوم مچ گئی۔ اس کے بعد  لاہور کے ہر ریکارڈنگ اسٹوڈیو میں نورجہاں ہی نظر آتی تھیں۔ ان کے گائے ہوئے نغمے ہٹ ہوتے چلے گئے اور خورشید انور، رشید اَترے، اے حمید، نثار بزمی، وزیر علی، ناشاد، خلیل احمد اور بشیر احمد جیسے موسیقاروں نے اپنی ہر فلم میں نورجہاں کی آواز کا استعمال کیا۔ آج بھی ’زندگی ہے یاکسی کا انتظار‘... ’نگاہیں ملاکر بدل جانے والے‘.... ’ارے او بے مروت‘....،’ مجھ سے پہلی سی محبت‘ جیسے اُن کے گائے ہوئے گیت لوگ بہت عقیدت سے سنتے ہیں۔فلمی نغموں کے علاوہ نورجہاں نے اردو کے نئے اور پُرانے کئی مشہور شاعروں کی غزلیں بھی ریکارڈ کرائی ہیں۔ اس کے ساتھ ہی انہوں نے پنجابی گیتوں کو بھی ایک نئے انداز سے متعارف کرایا ہے۔مشہور گیت ’’لال مری پت رکھیو بھلا جھولے لالن‘‘ اور ’’دلدار صدقے، لکھوار صدقے‘‘ آج بھی پورے پنجاب میں جھوم جھوم کر گائے جاتے ہیں۔
 بلبل ہند اور بھارت رتن جیسے اعزاز سے نوازی جانے والی عظیم گلوکارہ لتا منگیشکر بھی شروع  ہی سے  ملکہ ترنم نورجہاں کو اپنی بڑی بہن اور استاد کی حیثیت سے مانتی رہی ہیں۔  نورجہاں نے ہندوستان میں رہتے ہوئے ہیروئن کے بطور صرف ۶۹؍فلموں میں اداکاری کے جوہر دِکھائے، جن میں تقریباً ۱۲؍خاموش فلمیں تھیں۔ ۵۵؍فلمیں بمبئی میں، ۸؍کلکتہ میں، ۵؍لاہور میں اور ایک رنگون میں بنی۔ انہوں نے تقریباً ۱۲۷؍نغمے ہندوستانی فلموں کیلئے صدابند کئے لیکن آج ۶۴؍برس بعد بھی ان کے نغمے  ایک انمول  خزانہ ہیں جو برسہا برس تک اس عظیم گلوکارہ کے فن کو خراج تحسین پیش کرتا رہے گا۔۲۳؍دسمبر ۲۰۰۰ء کو ماہ رمضان  میں نورجہاں نے کراچی شہر میں آخری سانس لی اور اپنے خالق حقیقی سے جا ملیں۔ نورجہاں جیسی شخصیت صدیوں میں پیدا ہوتی ہے۔ بیسویں صدی کو قدرت کا ایک عظیم عطیہ نورجہاں کی آواز کا وہ آہنگ ہے جو ایک شعلے کی مانند بلند رہا۔ اُن کی آواز کی خوبصورتی، اُس کی فنی نزاکتوں اور حقیقی سُروں کی ادائیگی کو اُن کے بعد آنے والا کوئی بھی فنکار چھو تک نہیں سکا۔ انہوں نے ۶۵؍ برس تک دُنیا کو اپنی آواز کا دیوانہ بنائے رکھا۔

متعلقہ خبریں

This website uses cookie or similar technologies, to enhance your browsing experience and provide personalised recommendations. By continuing to use our website, you agree to our Privacy Policy and Cookie Policy. OK