Inquilab Logo

دادا صاحب پھالکے کو ہندوستانی فلم کا جنم داتا قرار دیا جاتا ہے

Updated: April 05, 2020, 11:54 AM IST | Anees Amrohi

ہندوستانی سنیما کے اس جنم داتا کی زندگی کے آخری چند برس بڑی کسمپرسی میں گزرے۔ فلمساز اورہدایتکار پنڈت کیدار شرما کے مطابق اپنی زندگی کے آخری دنوں میں وہ دو وقت کی روٹی کی خاطر چھوٹی موٹی ملازمتوں کیلئے اسٹوڈیو کے باہر دَر دَر بھٹک رہے تھے اور ستم ظریفی یہ کہ اسٹڈیو کے مالکان انہیں جھڑک کر بھگا دیا کرتے تھے

Dada Sahab Phalke - Pic : INN
دادا صاحب پھالکے ۔ تصویر : آئی این این

ہندوستان میں ہرسال سیکڑوں فیچر اور دستاویزی فلمیں بنتی ہیں۔ اُن میں سے اوسطاً ۱۲۔۱۰؍ فلمیں ایسی ہوتی ہیں جو کروڑوں لوگ دیکھتے ہیں اور ایسی فلموں سے ہزاروں کروڑ روپوں کا منافع ہمارے فلمساز اور مرکزی و صوبائی حکومتیں کماتی ہیں۔ فلمسازی آج کے دَور میں ہمارے ملک میں ایک بڑی انڈسٹری کے طور پر مضبوط ہو چکی ہے۔یہ بات الگ ہے کہ آج تک اس بزنس کو حکومت ہند نے انڈسٹری کا درجہ نہیں دیا ہے، حالانکہ ہر برس حکومت ہند کل فلمی خدمات کے اعتراف میں ایک بہت بڑا ایوارڈ کسی فلمی شخصیت کو پیش کرکے نوازتی ہے۔ یہ مشہور و معروف ایوارڈ دادا صاحب پھالکے  سے منسوب ہے۔ ہندوستان کے کروڑوں فلم شائقین شاید اس بات سے ناواقف ہوں گے کہ آخر یہ دادا صاحب پھالکے کون تھے اور انہوں نے ایسا کیا کارنامہ انجام دیا تھا جس کی وجہ سے یہ اتنا بڑا اعزاز اُن سے منسوب کیا گیا ہے۔دراصل دادا صاحب پھالکے کو ہندوستانی سنیما  کا جنم داتا قرار دیا جاتا ہے۔ اُن کی زندگی اور جدوجہد کے بارے میں فلم شائقین کیلئے جاننا دلچسپی سے خالی نہ ہوگا۔
 ۳۰؍اپریل ۱۸۷۰ء کو دھنڈی راج گووِند پھالکے کا جنم مہاراشٹر صوبہ کے ناسک شہر سے اُنتیس کلومیٹر کے فاصلے پر ایک قصبے تریمبکشور کے ایک برہمن خاندان میں ہوا تھا۔ اُن کے والد کا نام داجی شاستری پھالکے تھا جو بمبئی کے ولسن کالج میں سنسکرت پڑھاتے تھے۔ آبائی وطن میں ہی پھالکے کی ابتدائی تعلیم ہوئی۔ اس کے علاوہ اپنے مخصوص خاندانی پس منظر کی وجہ سے ویدوں، پُرانوں، اُپنشدوں اور شاستروں کی بھی اچھی خاصی معلومات اُن کو حاصل ہو گئی تھی، جو بعد میں دیومالائی قسم کی فلمسازی میں اُن کے بہت کام آئی۔ اُس کے بعد وہ اپنے والد کے پاس بمبئی چلے گئے اور ۱۵؍برس کی عمر میں ۱۸۸۵ء میں انہوںنے بمبئی کے جےجے اسکول آف آرٹس میں داخلہ لے لیا۔
 ۱۸۸۷ء میں بڑودہ کے کلابھون میں داخلے کے ساتھ ہی انہیں اپنے بڑے بھائی کے ساتھ رہائش اختیار کرنی پڑی۔ اُن دنوں کلابھون کے کرتا دھرتا پروفیسر گجّر تھے جنہیں  باصلاحیت فنکاروں کو تلاش کرنے کا بڑا شوق تھا۔ انہوںنے پھالکے کی صلاحیتوں کو پہچان کر کلابھون کے فوٹوگرافک اسٹوڈیو کی ذمہ داری اُن کو سونپ دی۔ اس کا پورا فائدہ پھالکے نے اُٹھایا اور وہاں کے کتب خانے سے بھی اُن کو فیض حاصل ہوا۔ دادا صاحب پھالکے کی عمر اُس وقت تقریباً ۴۰؍ برس کی ہوگی  جب فائن پرنٹنگ کا ان کا کاروبار بالکل ختم ہو گیا۔ بے دِلی کے عالم میں وہ ۱۹۱۰ء میں ایک دن اپنے چند دوستوں کے ساتھ کرسمس شو دیکھنے گئے۔ وہاں اس دن خصوصی طور پر امریکہ کی ایک فلم ’لائف آف کرائسٹ‘ دکھائی گئی۔ پھالکے کیلئے اس طرح کی فلم دیکھنے کا یہ پہلا موقع تھا۔ وہ اس کرشمے سے اتنا متاثر ہوئے کہ انہوںنے اُسی وقت دل میں یہ ٹھان لیا کہ وہ بھی اسی طرز پر رامائن اور مہابھارت کی کہانیوں اور کرداروں پر فلمیں بنائیںگے۔ وہ خود برہمن تھے۔ ان کے والد نے ان کو بمبئی کے جے جے  اسکول آف آرٹس میں تخلیقی فن کی تعلیم دلواکر اُن کا حوصلہ بڑھایا تھا۔ وہاں انہوںنے مصوّری کے علاوہ اسٹیج کی سجاوٹ اور تھوڑی بہت جادوگری بھی سیکھی تھی۔ اس کے بعد بڑودہ کے کلابھون  میں انہوںنے نہ صرف فوٹوگرافی کی تعلیم حاصل کی بلکہ فوٹوگرافی میں استعمال ہونے والے کیمیکل بنانے کیلئے بھی کئی تجربے کئے۔ یہ سب فنکاری بعد میں فلمسازی کے لئے ان کے بہت کام آئی۔
 اُن ہی دنوں کتابوں کی ایک دُکان میں دادا صاحب پھالکے کو ایک انگریزی کتاب ’دی اے بی سی آف سنیماٹوگرافی‘  (The A B C of Cinematography) حاصل ہو گئی، مگر وہ ان کی زیادہ مدد نہ کر سکی۔ پھر بھی انہوںنے اس کو بار بار پڑھنے اور سمجھنے کی کوشش کی اور اس طرح بہت سی تکنیکی باتیں اُن کی سمجھ میں آگئیں اور فلمسازی کا اُن کا شوق شدّت اختیار کرتا گیا۔
 بڑودہ سے واپسی پر ان کی شادی ہو گئی اور آئندہ چند برسوں تک زندگی گزارنے کیلئے پھالکے کو فوٹوگرافی اور ناٹک کمپنیوں کیلئے مناظر کی تصویرکشی کرنے کا کام کرنا پڑا۔۱۹۰۰ء میں ان کی دوسری شادی سرسوتی بائی نام کی ایک خاتون سے ہوئی جن سے اُن کے چھ لڑکے اور تین لڑکیاں پیدا ہوئیں۔ اُن کی پہلی بیوی اور بیٹا چیچک کی بیماری سے مرچکے تھے۔ ۱۹۰۳ء میں انہوںنے حکومت ہند کے شعبۂ آثار قدیمہ میں فوٹوگرافر اور ڈرافٹ مین کی حیثیت سے ملازمت اختیار کر لی۔ اسی دوران وہ اپنے شوق کی تسکین کیلئے تصویروں  کے ہاف ٹون بلاک بنانے کا کام بھی کرتے رہے۔ ایک بار مشہور مصوّر راجہ روی ورما کی تصویروں کے ہاف ٹون بلاک بنانے پر ان کو بمبئی کی ایک نمائش میں چاندی کا تمغہ بھی انعام میں ملا۔
 اس کے بعد انہوںنے ’پھالکے اِنگریونگ اینڈ پرنٹنگ ورکس‘ کے نام سے بلاک بنانے اور پرنٹنگ کا کام شروع کر دیا۔ اس کامیابی کے بعد انہوںنے’لکشمی آرٹ پرنٹنگ ورکس‘ کے نام سے فائن پرنٹنگ کا کام بھی شروع کر دیا۔ ان سب کامیابیوں سے حوصلہ پاکر وہ تین کلر میں چھپائی کی غرض سے جدید مشینیں خریدنے کیلئے ۱۹۰۹ء میں جرمنی بھی گئے۔ اس کے بعد ایک سال تک دادا صاحب پھالکے لگاتار مختلف سنیما گھروں کے چکر لگاتےرہے اور اس نئی نئی ایجاد کی تکنیکی باریکیوں کا جائزہ لیتے رہے۔ انہوںنےپانچ ڈالر کی قیمت سے ایک کیمرہ بھی خریدا جس سے وہ مختلف مواقع کی تصویریں بھی اُتارتے رہے۔ ان سب کاموں میں ان کی بیوی  سرسوتی بائی نے بھی ان کو پورا تعاون دیا۔ اگلے ایک برس میں لگاتار بیس بیس گھنٹے کام کرتے ہوئے انہوںنے ایک ڈاکیومینٹری فلم ’مٹر کے بیج کا وکاس‘  یعنی ارتقاء کی تخلیق کی۔ اس کیلئے انہوںنے ایک گملے میں مٹر کا ایک بیج بویا اور ہر دن کے حساب سے ایک تصویر اُتارتے چلے گئے۔ بعد میں سب تصویروں کو جوڑکر انہوںنے یہ دستاویزی فلم تیار کی تھی۔ 
 اس فلم کی بنیاد پر انہیں کچھ قرضہ مل گیا اور کچھ پیسہ انہوںنے اپنی لائف بیمہ پالیسی کو رہن رکھ کر حاصل کیا، اس طرح یکم فروری ۱۹۱۲ء میں پھالکے فلمسازی سے متعلق جانکاری حاصل کرنے اور اِس کیلئے ساز و سامان خریدنے انگلینڈ چلے گئے۔اس سفر کے دو ماہ بعد جب دادا صاحب پھالکے انگلینڈ سے واپس آئے تو ان کے پاس وِلیم سَن کیمرہ، ایک پروجیکٹر، ایک پرنٹنگ مشین اور فلمسازی سے متعلق وہاں کی تکنیکی جانکاری اور تجربہ بھی ساتھ تھا۔ وہ ہندوستان کے پہلے ’فارن ریٹرن‘ فلمی ٹیکنیشین بھی بن گئے۔ ہندوستان واپس آکر انہوںنے مزید پونجی حاصل کرنے کیلئے بیوی کے گہنے گروی رکھے اور اس طرح انہوں نے ہندوستان کی پہلی خاموش فیچر فلم ’راجہ ہریش چند‘ کا کام شروع کر دیا۔اس فلم کیلئے سب کچھ اُنہی کو کرنا تھا۔ لوگوں کو اداکاری سکھانا، اسکرپٹ لکھنا، کیمرہ چلانا اور پروڈکشن کرنا۔ خوبصورت ہیرو ہیروئنوں کی جگہ تیسرے درجے کے اسٹیج اداکار اور طوائفیں ہی دستیاب تھیں۔ ہیروئن کے کردار کے لئے کوئی عورت تیار نہ تھی۔ یہاں تک کہ ایک طوائف نے بھی حقارت سے اس فلم میں کام کرنے سے انکار کر دیا لہٰذا بعد میں ہوٹل کے ایک باورچی کا معاون اے سالُنکے نام کا ایک مرد یہ نسوانی کردار ادا کرنے کیلئے تیار ہو گیا۔ برسات کا موسم ختم ہوتے  ہی دادا صاحب پھالکے نے دادر کے مین روڈ پر واقع متھرا بھون میں اپنا اسٹوڈیو بنایا اور سیٹ تیار کراکے فلمسازی کا کام شروع کر دیا۔
 فلم ’راجہ ہریش چند‘ پہلی بار چند مخصوص لوگوں کو ۲۱؍اپریل ۱۹۱۳ء کو بمبئی کے اولمپیا سنیما میں دکھائی گئی اور ۳؍مئی ۱۹۱۳ء کو یہ فلم بمبئی کے کارونیشن تھیٹر میں عام لوگوں کیلئے نمائش کیلئے پیش کی گئی تھی۔ اس فلم کی لمبائی ۳۷۰۰؍فٹ تھی جو چار ریلوں کے ذریعہ لگ بھگ سوا گھنٹے میں دکھائی گئی۔ اس فلم کو بنانے میں دادا صاحب پھالکے کو تقریباً آٹھ ماہ کا وقت لگا تھا۔ پہلی بار یہ فلم ۲۳؍دن تک ایک ہی سنیما ہال میں لگاتار چل کر کامیابی حاصل کر چکی تھی۔ہندوستانی سنیما کے اس  جنم داتا نے اپنی زندگی کے آخری چند برس بڑی کسمپرسی کے عالم میں گزارے۔ اُن کے آخری دِنوں کا ایک واقعہ جو فلمساز وہدایتکار پنڈت کیدار شرما نے ایک بار سنایا، وہ یہ تھا کہ ایک دِن بمبئی کے رنجیت اسٹوڈیو کے باہر دادا صاحب پھالکے  کھڑے تھے۔ کیدار شرما جب اسٹوڈیو سے باہر نکلے تب پھالکے نے  کہا کہ کیا وہ اپنے اسٹوڈیو میں اُن کو کوئی بھی چھوٹا موٹاکام دِلوا سکتے ہیں؟ کیدار شرما نے ان کو اسٹوڈیو کے مالک چندو لال شاہ کے پاس بھیج دیا۔ بعد میں معلوم ہوا کہ سیٹھ چندولاللعل شاہ نے نہ صرف انہیں کام دینے سے انکار کر دیا بلکہ چو کیدار سے کہہ کر اسٹوڈیو کے باہر نکلوا دیا۔ بعد میں اس منظر کو گرودت نے اپنی فلم ’کاغذ کے پھول‘ میں بڑی خوبصورتی کے ساتھ پیش کیا تھا، اور رشی کیش مکرجی نے بھی اپنی فلم ’گڈی‘ میں اس  کی طرف اشارہ کیا تھا۔ بعد میں چندولال شاہ کے بارے میں بھی سنا گیا کہ وہ اپنے آخری دنوں میں اپنے ہی اسٹوڈیو کے باہر اپنی بنائی ہوئی فلموں کے فوٹو اور پوسٹر بیچتے ہوئے پائے گئے۔
 ۱۹۷۰ء میں دادا صاحب پھالکے ایوارڈ حکومت ہند نے قائم کیا تھااورپہلا ایوارڈ حاصل کرنے والی ایک خاتون اداکارہ دیویکا رانی تھیں۔  ان کے ۱۰۰؍ویں جنم دن پر ۳۰؍اپریل ۱۹۷۱ء کو ایک خصوصی ڈاک ٹکٹ بھی جاری کیا گیا۔ بمبئی میں دادر علاقے کی ایک سڑک کا نام بھی اُن  سے منسوب کیاگیا ہے۔پھالکے نے اپنی زندگی کے ۶۴؍ویں برس میں اپنی اکلوتی متکلم اور آخری فلم ’گنگاوِترن‘ ۱۹۳۷ء  میں بنائی تھی۔ کل ملاکر انہوںنے تقریباً ۲۰؍ فیچر اور ۹۷؍ دستاویزی فلمیں بنائیں مگر ان کی مالی حالت ہمیشہ خستہ ہی رہی۔
 ۷۱؍برس کی عمر میں ۱۶؍فروری ۱۹۴۴ء میں دادا صاحب پھالکے کا انتقال ہو گیا۔ انہوںنے اپنی عمر کے آخری کئی برس گمنامی میں ہی گزارے مگر یہ بھی ایک حقیقت ہے کہ جب بھی ہندوستانی سنیما کی بات ہوگی، دادا صاحب پھالکے کے نام کے بغیر مکمل نہ ہو سکے گی۔

متعلقہ خبریں

This website uses cookie or similar technologies, to enhance your browsing experience and provide personalised recommendations. By continuing to use our website, you agree to our Privacy Policy and Cookie Policy. OK