Inquilab Logo

للتا پوار نے چائلڈ آرٹسٹ کے طو رپر اپنے کریئر کا آغاز کیا تھا

Updated: July 05, 2020, 9:55 AM IST | Anees Amrohi

ایک وقت ایسا بھی آیا جب ایک فلم کی شوٹنگ کے دوران وہ زخمی ہوگئیں اور پھر تین سال تک بستر پر پڑی رہیں۔ اس کی وجہ سے ایک ایک کرکے ان کے سارے کنٹریکٹ ختم ہوگئے اور سارے قریبی لوگ دور ہوگئے ۔ جب وہ صحت یاب ہوئیں تو ان کی عمر ۲۸؍ سال ہی تھی لیکن انہوں نے کیریکٹر رول کرنا شروع کردیا اور پھر اپنی ایک نئی پہچان بنائی

Lalita Pawar - Pic : INN
للتا پوار ۔ تصویر : آئی این این

ہندوستانی سنیما کی تاریخ میں ایسی مثالیں بہت کم ملتی ہیں جب کسی اداکار یا اداکارہ کو ان کے ذریعہ ادا کئے گئے کرداروں کی وجہ سے پہچان ملی ہو، للتا پوار ایک ایسا ہی نام ہے۔ ہمارے سماج میں جب بھی کسی ساس کا ذکر آتا ہے تو نہ چاہتے ہوئے بھی للتا پوار کا کرخت چہرہ آنکھوں کے سامنے آجاتا ہے۔ یہ اُن کی اداکارانہ کامیابی کی اتنی بڑی دلیل ہے جس کے سامنے بڑے بڑے ایوارڈ بھی چھوٹےپڑ جاتے ہیں۔للتا پوار ۱۹۱۶ء میں مہاراشٹر کے ایک متوسط خاندان میں پیدا ہوئیں۔ اُس زمانے میں لڑکیوں کا اسکول جانے کا عام رواج نہیں تھا، لہٰذا انہوںنے باقاعدہ اسکولی تعلیم حاصل نہیں کی۔ فلموں سے انہیں کوئی دلچسپی نہیں تھی، وہ تو صرف اپنے گائوں میں رام لیلا دیکھا کرتی تھیں۔
 یہ بات ۱۹۲۴ء کی ہے۔ ایک ۸؍ برس کی بچّی، جس کو والدین امبیکا سگونی کہتے تھے، چھٹیاں منانے پونے گئی تھی۔ وہیں امبریش سینما میں ہندوستان  کی پہلی خاموش فلم دیکھتے ہوئے وہ حیران و پریشان سی، مختلف سوچوں میں گم تھی۔ جیسے ہی فلم شروع ہوئی، پردے پر ٹائٹل نظر آئے، تو اسکرین کے پاس ہی سازندے آکر بیٹھ گئے۔ وہ موقع  بے موقع ساز بجا رہے تھے۔ وہ حیران تھی کہ اتنے بہت سے گونگے آدمی کہاں سے اکٹھے کئے گئے ہیں۔ وہ اُن گونگے لوگوں کو دیکھنے کیلئے اسٹیج کے پیچھے جانا چاہتی تھی، جیساکہ وہ رام لیلا دیکھ کر کیا کرتی تھی لیکن وہاں تو کوئی بھی نہ تھا۔ اس نے آپریٹر سے پوچھا کہ وہ گونگے کون تھے جو رام لیلا میں کام کر رہے تھے؟ آپریٹر نے اُسے بتایا کہ پاروَتی مندر کی پہاڑیوں تلے بنے ’تریوینی اسٹوڈیو‘ میں کبھی جاکر دیکھو تو پتا چلے کہ فلم کیسے بنتی ہے؟ بیٹی کے تجسس کو دیکھتے ہوئے اس کے والد اُسے شوٹنگ دکھانے کیلئے لے گئے تاکہ یہ بات اُس بچّی کی سمجھ میں آجائے کہ فلم میں سچ مچ کے لوگ اسٹیج پر نہیں ہوتے بلکہ ان کی تصویریں ہوتی ہیں۔ وہاں لڑکی نے حیران حیران نظروں سے دیکھا کہ ساری کمپنی بڑے بڑے ستونوں پر کھڑی تھی اور چھت بنانے کے لئے کپڑا لگا رکھا تھا۔ دیواروں اور کھڑکیوں وغیرہ کو مختلف قسم کے رنگ وروغن سے سجا رکھا تھا۔ تھوڑی ہی دیر میں شوٹنگ میں بھگدڑ مچ گئی لیکن یہ لڑکی دیوار پر لٹک کر شوٹنگ دیکھ رہی تھی۔لاٹھی کا حملہ..... خون بہہ رہا ہے.... جب ہوش آتا ہے تو کمپنی کے ڈائیریکٹر اور پارٹنر نانا صاحب سرپوتدار نے پوچھا..... ’’کیا تم فلموںمیں کام کرنا پسند کروگی؟‘‘ اس طرح سے بطور چائلڈ آرٹسٹ اُس بچّی کا فلمی کریئر شروع ہو گیا۔ تنخواہ تھی ۱۸؍ روپے مہینہ۔ بعد میں یہ چھوٹی سی، بھولی سی لڑکی ہندوستانی فلموں کی تیز طرار ساس، چغل خور موسی یا چاچی اور لڑاکو بوا کے کرداروں میں مقبول ہوئی۔ اُس کا نام تھا للتا پوار۔
 کچھ دنوں کے بعد للتا پوار ہیروئین کے رول کرنے لگی تھیں۔ آرین کمپنی کی تقریباً بیس فلموں میں، انہوںنے کام کیا، جن میں ’آریہ مہیلا، پتت اُدّھار، راجہ ہریش چندر، شمشیر بہادر اورچتر سندری‘ خاص طور پر پسند کی گئیں۔ چوتھی دہائی میں ہندی فلموں کے ٹائیٹلز انگریزی میں ہوا کرتے تھے۔ للتا پوار نے ’سانگ آف لائف، گلانٹ ہارٹ اور سویٹ اینجلا‘ وغیرہ فلموں میں کام کیا۔ کچھ ہی عرصے کے بعد انہوںنے کولہاپور کے ایک ہیرو گنپت بھائی کی پارٹنرشپ میں ایک خاموش فلم ’کیلاش‘ پروڈیوس کی۔ اس فلم کی لاگت کم کرنے کی غرض سے انہوںنے اس فلم میں ہیروئین، ویمپ اور ماں وغیرہ کے کئی کردار ایک ساتھ ادا کئے تھے۔
 ۱۹۳۵ء میں للتا پوار نے ایک فلم ’ہمت مرداں‘ بنائی۔ یہ اُن کی پہلی متکلم فلم تھی۔ ٹارزن ٹائپ کی کہانی پر بنی اس فلم کو خوب پسند کیا گیا۔ اُن دنوں اس قسم کی فلمیں بہت پسند کی جاتی تھیں اور بھاری بھرکم مہنگے کاسٹیومز کی ضرورت بھی نہ پڑتی تھی۔ ۱۵؍ دن میں صرف ۵۰؍ ہزار روپے کی لاگت میں فلم بن جاتی تھی۔ خاموش فلموں سے متکلم فلموں میں آنا للتا پوار کیلئے کوئی مشکل کام نہیں تھا کیونکہ خاموش فلموں میں بھی مکالمے تو ادا کرنے ہی پڑتے تھے۔
 ۱۹۳۶ء میں انہوں نے ایک اور فلم ’دنیاکیا ہے‘ بنائی۔ یہ فلم ٹالسٹائے کی کہانی ’ری سرکشن‘ پر بنائی گئی تھی۔ اس فلم نے زبردست کامیابی حاصل کی اور لوگوں نے اس فلم میںللتا پوار کی اداکاری کو بہت پسند کیا۔ اس فلم میں ڈرامائی اور جذباتی اداکاری سے ان کی ذاتی پہچان بن گئی اور بطور اداکارہ لوگ انہیں جاننے لگے۔ اس کے بعد للتا پوار نے جذباتی کردار ادا کرنے میں زیادہ دلچسپی لی اور ’امرت، نیتا جی پالکر‘ وغیرہ فلموں میںان کی تاثر انگیز اداکاری کی مثال دی جانے لگی۔ انہوںنے ایک سحر طراز، نازک اندام حسینہ کا رول بھی کیا تھا۔ چند فلموں میں گھڑسواری بھی کی۔ ہر قسم کا لباس بھی پہنا، جس میں جینز بھی شامل ہے۔ یہ الگ بات ہے کہ اُن دنوں جینز کو بھی پینٹ کہا جاتا تھا اور اس کا کوئی آرٹسٹک نام نہیں تھا۔ یہ۱۹۴۵ء کے آس پاس کی بات ہے۔
 ڈائریکٹر چندر رائو کدم کی ایک فلم میں للتا پوار نے کوشش کرکے بھگوان کو ایک رول دلوایا تھا لیکن شوٹنگ کے دوسرے ہی دن بھگوان دیر سے پہنچے۔ اُن کی ایک آنکھ پر پٹّی بندھی تھی۔ شوٹنگ پر آتے وقت وہ ایک سڑک حادثے کا شکار ہو گئے تھے۔ تمام آرٹسٹ شوٹنگ کے لئے لوکیشن پر جا چکے تھے۔ اس لئے کدم صاحب نے بھگوان سے گھر واپس لوٹ جانے کو کہا۔ اس کا مطلب تھا بھگوان کی ایک دن کی تنخواہ کا نقصان۔ اس لئے للتا پوار نے کدم صاحب سے درخواست کی کہ وہ بھگوان کو اپنے ساتھ لوکیشن پر لے جائیں تاکہ اُن کی حاضری تو لگ جائے۔ بھگوان نے اُن کی اس بات کا بڑا احسان مانا اور بعد میں یہی بھگوان ڈائریکٹر کدم کے اسسٹنٹ بن گئے۔ کچھ ہی عرصہ بعد بھگوان نے کدم کیلئے ایک فلم’جنگِ آزادی‘ کی ہدایتکاری بھی کی۔ اس پُرانے احسان کے بدلے میں بھگوان نے للتا پوار سے خواہش ظاہر کی کہ وہ اُن کی فلم ’جنگِ آزادی‘ میں ضرور کام کریں۔ اگرچہ للتا پوار اُن دنوں کولہاپور میں مصروف تھیں، لیکن پھر بھی وہ دو روز کیلئے اُس فلم کی شوٹنگ پر پہنچ گئیں۔
 ’جنگ آزادی‘کی شوٹنگ ہے۔ ایک سین میں بھگوان کو للتاپوار کو تھپڑ مارنا ہے۔ بھگوان نے اتنی زور سے تھپڑ مارا کہ تڑاخ کی آواز آتی ہے اور للتاپوار بیہوش ہو جاتی ہیں۔ چانٹا اتنی زور سے پڑا تھا کہ آدھا چہرہ سُنّ ہو گیا اور منہ سے فوری طور پر خون بہنے لگا۔ اس فلم کی شوٹنگ دور دراز ایک گائوں میں چل رہی تھی۔ فوری طور پر طبّی امداد ملنا آسان نہیں تھا۔ اگلے دن اُن کو بمبئی لایا گیا اور اسپتال میں ڈاکٹر کو دکھایا گیا۔ہیروئن بستر پر پڑی ہے۔ اس نامور ہیروئن کو نوٹس ملتا ہے کہ ’’پکچر رُک نہیں سکتی، اسلئے دوسری ہیروئن لے رہا ہوں۔‘‘ اس کے ساتھ ہی باقی فلمسازوں نے بھی رول کینسل کر دئیے۔ ایک تو بیماری اور اوپر سے یہ مشکل آن پڑی۔ ایسے حالات میں امریک بھائی نے اُن کو بہت سہارا دیا۔
 تین سال سے بھی زیادہ دنوں تک وہ بستر پر لیٹی رہیں۔ اُن کی آنکھیں باہر کو نکل آئی تھیں، چہرہ بھیانک سا لگنے لگا تھا۔ درد کی شدت سے تڑپ اٹھتی تھی۔ نتیجے کے طور پر اُن کے ہاتھ کے تمام کانٹریکٹ جاتے رہے۔ وہ تین برس بڑے جان لیوا تھے۔ پھر حالات آہستہ آہستہ نارمل ہونے لگے اور للتا پوار نے دوبارہ فلموں میں کام کرنا شروع کر دیا۔’گرہستی‘ اُن کی پہلی فلم تھی جو انہوںنے بیماری کے بعد مکمل کرائی۔ اگرچہ للتا پوار کی عمر اُس وقت صرف اٹھائیس برس تھی لیکن اُنہیں مجبوراً کریکٹر رول کی طرف آنا پڑا۔ اس کے علاوہ کوئی چارہ نہیں تھا۔ انہوںنے جان بوجھ کر اپنی امیج بدل لی اور سفید ساڑی پہننی شروع کر دی۔ بند گلے کا لمبی بانہوں والا بلائوز تاکہ لوگ للتا پوار کو زیادہ عمر کی عورت والے رول میں مناسب سمجھنے لگیں۔ آخر کو انہیں کام تو کرنا ہی تھا، کچھ اور وہ کر نہیں سکتی تھیں۔

متعلقہ خبریں

This website uses cookie or similar technologies, to enhance your browsing experience and provide personalised recommendations. By continuing to use our website, you agree to our Privacy Policy and Cookie Policy. OK