Inquilab Logo

مینا کماری کو آنکھوں سے بھی اپنی بات کہنے کا ہنر معلوم تھا

Updated: March 29, 2020, 8:44 AM IST | Anees Amrohi

ان میں دو خاص باتیں تھیں، بولتی ہوئی آنکھیں ا ور آواز میں ایک خاص قسم کی کھنک۔ یہ دونوں ہی باتیں ان کی ہمعصر اداکارائوںکو حاصل نہیں تھیں۔ کمال امروہی کے ساتھ رہتے ہوئے ان کی جذباتی اداکاری میں ایک خاص قسم کا نکھار آیا۔ ان کی مکالموں کی ادائیگی اور بغیر مکالموں کے آنکھوں سے جذبات ادا کرنے میں انہوںنے کمال حاصل کیا تھا

Meena Kumari - Pic : INN
مینا کماری ۔ تصویر : آئی این این

فلم ’بیجو باورا‘ کی کامیابی کے ساتھ ہی میناکماری کی شہرت بڑھ گئی۔ پھر جیسے ہی میناکماری کی کمائی ہوئی رقم گھر میں آنے لگی اور گھر کی حالت سدھرتی گئی، ویسے ہی ان کے والد علی بخش نے میناکماری کی کمائی ہوئی دولت سے عیاشی شروع کر دی۔ بعد میں انہوں نے میناکماری کی ایک ملازمہ فردوس سےشادی بھی کر لی۔ میناکماری کیلئے  جب یہ سب برداشت کرنا مشکل ہو گیا تو اُنہوںنے کمال امروہی کے گھر جانے کا فیصلہ کر لیا۔اس کے بعد مینا کماری اور کمال امروہی بارہ برس تک ساتھ رہے۔ اس درمیان میناکماری نے بہت سی فلموں میں کامیابی حاصل کی۔ میناکماری میں دو خاص باتیں تھیں، ایک تو ان کی بولتی ہوئی آنکھیں،  دوسرے ان کی آواز میں ایک خاص قسم کی کھنک۔ یہ دونوں ہی باتیں ان کی ہمعصر اداکارائوں میں کسی کو حاصل نہیں تھیں۔ کمال امروہی کے ساتھ رہتے ہوئے میناکماری کی جذباتی اداکاری میں ایک خاص قسم کا نکھار آیا۔ ان کی مکالموں کی ادائیگی اور بغیر مکالموں کے آنکھوں سے جذبات ادا کرنے میں انہوںنے کمال حاصل کیا۔ ۱۹۵۳ء میں کمال امروہی نے اپنا ذاتی ادارہ ’محل پکچرس پرائیویٹ لمیٹڈ‘ قائم کیا اور پہلی فلم ’دائرہ‘ شروع کی۔ ’دائرہ‘ میں میناکماری نے ایک یادگار کردار ادا کیا۔ یہ فلم باکس آفس پر بھلے ہی ناکام رہی مگر فلمی نقادوں نے  لکھا کہ یہ فلم کمال امروہی نے اپنے وقت سے تیس سال پہلے ہی بنا دی ہے۔ ایک طرح سے ’دائرہ‘ ہندوستانی فلمی تاریخ کی پہلی آرٹ فلم تھی۔ ۱۹۵۴ء میں جب فلم فیئر ایوارڈ شروع کئے گئے تو میناکماری کو بہترین اداکارہ کا پہلا ایوارڈ فلم ’بیجو باورا‘ کیلئے دیا گیا اور اگلے ہی سال پھر فلم ’پرنیتا‘ کیلئے انہیں بہترین اداکارہ کے فلم فیئر ایوارڈ سے نوازا گیا۔ ۱۹۶۲ء میں ریلیز ہوئی فلم ’صاحب، بیوی اور غلام‘کیلئے مینا کماری کو ایک بار پھر فلم فیئر ایوارڈ ملا۔ اس کے بعد ۱۹۶۷ء کی فلم ’پھول اور پتھر‘ کیلئے بھی میناکماری کو بہترین اداکارہ کا فلم فیئر ایوارڈ دیا گیا۔
 ’دائرہ‘ کی ناکامی کے بعد کمال  نے فلم ’دل اپنا پریت پرائی‘ کی کہانی تحریر کی اور کشور ساہو کو اس فلم کی ہدایت سونپی۔ پروڈیوسر خود کمال امروہی تھے اور ہیروئن مینا کماری۔ یہ فلم ۱۹۶۰ء میں نمائش کیلئے پیش کی گئی اور کامیاب رہی۔ اس کامیابی سے متاثر ہوکر ۱۹۶۰ء ہی میں مینا کے ساتھ کمال امروہی نے ’پاکیزہ‘ شروع کی۔ یہ فلم  دونوں کا ایک حسین خواب تھا۔ مینا کو اس فلم سے ایک خاص لگائو تھا مگر اس فلم کے ساتھ کئی حادثے ہوئے۔ ایک بار مدھیہ پردیش میں لوکیشن تلاش کرتے ہوئے میناکماری اور کمال امروہی کو ڈاکوئوں نے پکڑ لیا۔ ڈاکو جب ان دونوں کو اپنے سردار کے پاس لے گئے اور ان کو پتہ چلا کہ وہ ایک مشہور اداکارہ میناکماری کو پکڑ لائے ہیں تو ان کے سردار نے میناکماری اور کمال امروہی کی بہت مہمان نوازی کی اور پھر ان دونوں کو بحفاظت شہر واپس پہنچا دیا۔ ایک بار اسٹوڈیو میں زبردست آگ لگ گئی اور سارا کاسٹیوم جل کر خاک ہو گیا۔  ایک بار مینا کا ملازم گھر کی تجوری توڑکر بہت بڑی رقم اور زیورات لے کر فرار ہو گیا۔ ایک بار ایک ندی میں شوٹنگ کے دوران ہاتھیوں نے اودھم مچا دیا تھا۔
  مینا کماری ایک بہت نرم دل اور حساس آرٹسٹ تھیں اور ہر کسی کیلئے اپنے دل میں نرم گوشہ رکھتی تھیں۔ یہی وجہ تھی کہ کمال امروہی نے اپنےسیکریٹری باقر علی کو مقرر کیا کہ میناکماری کے میک اپ روم میں کسی کو داخلے کی اجازت نہ دی جائے۔ باقر علی ہر دم مینا کماری کی نگرانی رکھنے لگے۔ایک بار کا ذکر ہے کہ اُن کی کسی فلم کا پریمیئر تھا۔ وہاں سہراب مودی نے مہاراشٹر کے گورنر سے میناکماری کا تعارف کراتے ہوئے کہا  کہ یہ فلمی دنیا کی عظیم اور مقبول اداکارہ میناکماری ہیں اور یہ ان کے شوہر کمال امروہی۔ اس تعارف پر کمال امروہوی کی انا کو بہت ٹھیس پہنچی اور انہوںنے فوراً کہا ’’جی نہیں، میں کمال امروہی ہوں اور یہ میری بیوی مشہور اداکارہ میناکماری ہیں۔‘‘ 
 اُنہی دنوں میناکماری کی زندگی کا ایک بہت بڑا کلائمکس نمودار ہوا۔ شاعر، فلمساز وہدایتکار گلزار نئے نئے دہلی سے بمبئی فلمی دنیا میں قسمت آزمائی کیلئے آئے تھے۔ ہدایتکار بمل رائے کے اسسٹنٹ ہونے کے بعد وہ کسی فلم کیلئے بات کرنےکیلئے فلم ’پنجرے کے پنچھی‘ کے سیٹ پر فلمستان اسٹوڈیو پہنچے اور میناکماری کو میک اپ روم میں ہی اپنی شاعری سنانے لگے۔ میناکماری چونکہ خود بھی شاعری کرتی تھیں اور نازؔ تخلص رکھتی تھیں،اسلئے اچھی شاعری انہیں متاثر کرتی تھی۔ گلزار کی شاعری سے میناکماری متاثر تھیں اور گلزار کو زندگی کی دوڑ میں آگے بڑھنے کیلئے ایک مضبوط سہارے کی تلاش بھی تھی جو انہیں میناکماری کے روپ میں مل گیا تھا۔ میناکماری کے میک اپ روم میں گلزار کی موجودگی باقر علی کو بہت ناگوار ہوئی اور انہوں نے میناکماری سے کہا کہ اس شخص کو میک اپ روم سے باہر نکالو، صاحب کا حکم ہے۔ میناکماری نے اس حکم کو اپنی توہین سمجھا اور باقرعلی سے جھگڑا کر بیٹھیں۔ باقرعلی کمال امروہی کے منہ چڑھے سیکریٹری تھے، لہٰذا بات بڑھنے پر باقرعلی نے میناکماری کے گال پر ایک تھپڑ رسید کر دیا۔ میناکماری فوراً وہاں سے آنسو بہاتی ہوئی اپنی بہن مدھو اور بہنوئی مزاحیہ اداکار محمود کے گھر چلی گئیں اور پھر کبھی لوٹ کر اپنے چندن (کمال امروہی) کے گھر نہ آئیں۔اُسی رات کمال محمود کے گھر مینا کماری سے ملاقات کیلئے گئے اور مینا کماری کو سمجھایا کہ ’’منجو، تم گھر چلو، تمہارا مجھ سے کوئی جھگڑا نہیں ہے۔‘‘ مگر  وہ گھر جانے کو راضی نہیں ہوئیں۔ تب  انہوںنے واپس جاتے ہوئے پھر کہا کہ ’’میرے گھر کے دروازے تمہارے لئے ہمیشہ کھلے ہیں، جب تم چاہو، چلی آنا۔‘‘
 کمال چاہتے تھے کہ مینا خود گھر چھوڑ کر گئی ہیں، لہٰذا اُن کو خود ہی واپس آجانا چاہئے۔ میناکماری سوچتی تھیں کہ کمال آئیں اور اپنے سیکریٹری کی حرکت پر معافی مانگیں، تب وہ ان کے گھر جائیں۔ خودداری دونوں کے درمیان دیوار بن گئی اور’پاکیزہ‘ ڈبوں میں بند ہو گئی۔ میناکماری کا ایک حسین خواب ادھورا رہ گیا۔ کافی عرصہ بعد ایک پارٹی میں جب مینا کماری کی ملاقات کمال امروہی سے ہوئی تو مینا نے پوچھا۔ ’پاکیزہ کا کیا حال ہے؟‘ کمال نے جواب دیا کہ ’’جب تم آئوگی، پاکیزہ بھی مکمل ہو جائے گی۔‘‘
 اس درمیان گلزار کے بعد دھرمیندر کے ساتھ مینا کماری کے تعلقات کو کافی ہوا دی گئی اور جب ۱۹۶۵ء میں فلم’کاجل‘ ریلیز ہوئی اور اس میںمیناکماری کی جذباتی اداکاری لوگوں نے دیکھی تو اِن افواہوں کو اور بھی ہوا لگی۔ حالانکہ ’کاجل‘ سے پہلے میناکماری نے دھرمیندر کے ساتھ فلم ’میںبھی لڑکی ہوں‘ میں کام کیا تھا۔ ’کاجل‘ کے بعد دھرمیندر کے ساتھ میناکی لگاتار ’پورنیما‘(۱۹۶۶ء)، ’پھول اور پتھر‘ (۱۹۶۶ء)،’چندن کا پلنا‘(۱۹۶۷ء) اور ’منجھلی دیدی‘ (۱۹۶۸ء) فلمیں بھی ریلیز ہوئیں۔
 دھرمیندر کے بعد ساون کمار ٹاک کے ساتھ میناکماری کا نام جوڑا گیا۔ میناکماری کی آخری فلم ساون کمار ٹاک کی ’گومتی کے کنارے‘ تھی مگر یہ فلم بُری طرح ناکام ہو گئی تھی۔اِسی دوران سنیل دت اور نرگس نے ’پاکیزہ‘ فلم کے رشز پرنٹ دیکھے اور کمال امروہی سے درخواست کی کہ وہ اس فلم کو ضرور مکمل کرائیں۔ ۱۹۷۰ء میں سنیل دت اور نرگس ہی کی کوششوں سے مینا کماری اور کمال امروہی میں ملاقاتیں شروع ہوئیں، اور میناکماری کے راضی ہوتے ہی فلم ’پاکیزہ‘ کا کام شروع ہو گیا۔ دو سال کی محنت کے بعد میناکماری نے اس فلم کو مکمل کرایا۔ حالانکہ اس وقت میناکماری کی طبیعت بہت خراب تھی۔ مئے نوشی کی کثرت نے ان کے جگر کو خراب کر دیا تھا اور وہ مستقل بیمار رہنے لگی تھیں۔ شوٹنگ کے دوران ہی کئی بار وہ بیہوش ہوکر گر بھی گئیں مگر انہوںنے اپنے اور اپنے شوہر کے خواب کو شرمندۂ تعبیر کر ہی دیا۔ ابھی تک وہ کمال کے گھر نہیں آئی تھیں۔
 ۱۳؍فروری ۱۹۷۲ء کو فلم ’پاکیزہ‘ ریلیز ہوئی تو میناکماری بہت بیمار تھیں۔ مجھے یاد ہے کہ ریلیز کے پہلے ہفتے میں فلم نے لوگوں کو مایوس کیا تھا مگر اس کی موسیقی اور گیت لوگوں نے پسند کئے تھے۔ دراصل اس زمانے میں ماردھاڑ اور شور وغل والی ایکشن فلموں نے ناظرین کے مزاج کو یکسر بدل دیا تھا۔ اس کے مقابلے میں ’پاکیزہ‘ ایک صاف ستھری مسلم سوشل اور خاص تہذیب اور ماحول کو اجاگر کرنے والی فلم تھی۔ دوسرے ہفتہ میں لوگوں نے اس فلم کو پسند کرنا شروع کر دیا  ورتیسرے ہفتے میں فلم نے رش لینا شروع کیا۔ جو لوگ یہ کہتے ہیں کہ فلم ’پاکیزہ‘ میناکماری کی موت کی وجہ سے کامیاب ہوئی، وہ غلطی کرتے ہیں، کیونکہ میناکماری کا انتقال ۳۱؍مارچ ۱۹۷۲ء کو ’پاکیزہ‘ کی نمائش کے  ۴۶؍دن بعد ہوا تھا۔ اس وقت یہ فلم ہندوستان میں ہر جگہ ہائوس فل جا رہی تھی۔
 میناکماری نے کبھی کمال امروہی سے طلاق نہیں لی۔ وہ اکثر اپنی طبیعت زیادہ خراب ہونے پر کمال   ہی کو بلاتی تھیں اور اُنہوں نے اپنی آخری سانس بھی کمال امروہی کی گود میں اور اُن کے نکاح میں رہتے ہوئے ہی لی۔ وہ ایک شادی شدہ سہاگن کے طور پر مرنا چاہتی تھیں۔

متعلقہ خبریں

This website uses cookie or similar technologies, to enhance your browsing experience and provide personalised recommendations. By continuing to use our website, you agree to our Privacy Policy and Cookie Policy. OK