Inquilab Logo

محمد رفیع : فلمی سفر کے آخری ۱۰؍ سال بھی سپرہٹ گیتوں سےتابندہ رہے

Updated: July 31, 2020, 10:46 AM IST | Manzur Ahmed Hashmi | Mumbai

ایک تحقیق کے مطابق اس عشرہ میں رفیع صاحب کے تقریباً ۹۰۰؍ گانے ریکارڈ ہوئے تھے جن میں کم وبیش ۴۵۰؍ گانے سپرہٹ ثابت ہوئے تھے اور وہ آل ٹائم گریٹ سنگر رہیں گے

Mohammed Rafi - PIC : INN
محمد رفیع ۔ تصویر : آئی این این

فلمی دنیا کی ایک ایسی عظیم شخصیت جس نے نہ صرف فلمی موسیقی کو بلندیوں تک پہنچادیا بلکہ اس کی تاریخ ہی بدل کر رکھ دی۔ جی ہاں بات ہورہی ہے جناب محمد رفیع صاحب کی جو آج ہی کے دن ۴۰؍ سال قبل اپنے خالق حقیقی سے جاملے۔ حیرت انگیز طورپر آج بھی ان کے نغمے تروتازہ لگتے ہیں۔ یہاں تک کہ نئی نسل کے نوجوان بھی ان کے گرویدہ ہیں اوریہی ایک صفت رفیع صاحب کو ہمیشہ زندہ رکھے گی۔ رفیع صاحب کے آخری دس سال کس طرح گزرے یہ موضوع ہمیشہ سرخیوں میں رہا۔ عام طورپر یہ رجحان پایاجاتا ہے کہ اس دوران رفیع صاحب کچھ ’ڈِپریشن‘کا شکار ہوئے تھے جس کا اظہار انہوںنے کئی بار اپنے دیرینہ دوست اور محسن نوشاد علی صاحب سے بھی کیا تھا۔
 ۲۷؍ ستمبر ۱۹۶۹ء کو ریلیز ہونے والی ایک فلم ’’آرادھنا ‘‘ کے بعد بے شک کشور کمار ایک مصروف پلے بیک سنگر بن گئے تھے لیکن ان کی یہ اچانک کامیابی محض ’کمرشیلی‘تھی۔رفیع صاحب کی گلوکاری کا انداز  اپنی جگہ جوں کا توں برقرار رہا۔ نہ کبھی انہوں نے اپنی گائیکی کے اسٹائل کو بدلنے کی کوشش کی اورنہ کوئی دوسرے ہتھکنڈے استعمال کئے اورنہ کسی فلمساز یا سنگیت کار کے گھروں کے چلر لگائے بلکہ خود کشور کمار نے کئی مرتبہ خود ان کے لئے بنائے ہوئے گانے یہ کہہ کر ریکارڈنگ سے معذرت کرلی کہ ان گانوں کو صرف رفیع صاحب ہی مجھ سے بہتر گاسکتے ہیں۔ اس کی کئی مثالیں موجود ہیں تفصیل کی ضرورت نہیں۔ 
  ’’ٹائمز آف انڈیا ‘‘ والوں نے بھی ان دونوں سنگرس کولے کر مقابلہ کا ایک دلچسپ سلسلہ شروع کیا تھا، جس کے لئے قارئین کی رائے طلب کی جاتی تھی۔ چنانچہ کچھ لوگ رفیع صاحب اور کچھ کشور کمار کے حق میں ووٹ دینے لگے۔ یہ ریفرنڈم ایک عرصہ تک شائع ہوتا رہا۔ لیکن کوئی قطعی فیصلہ نہ ہوسکا۔ تب ایک دن خودکشور کمار ٹائمز آف انڈیا کے دفتر پہنچ گئے اوراس کی اشاعت یہ کہہ کر ختم کرادی کہ میرا موازنہ رفیع صاحب سے ہوہی نہیں سکتا۔ کیا میں ’ اودنیا کے رکھ والے ‘ ،’من ترپت ہری درشن کو ‘یا ’مدھوبن میں رادھیکا ناچے رے ‘گاسکتا ہوں؟ حقیقت یہ ہے کہ ان دس برسوں میں رفیع صاحب کے بیشمار سپرہٹ نغمے وقتاً فوقتاً اپنی موجودگی کا احساس دلاتے رہے۔
  اگر ہم فلمی دنیا کے سب سے مستند اور مشہورزمانہ ایوارڈ کہلائے جانے والے ’’ فلم فیئر ایوارڈ‘‘ کوبھی معیاری تسلیم کریں تو اس دور کے ان گنت فلموں کے نام لئے جاسکتے ہیں جن کے گانے نہ صرف اس ایوارڈ کے لئے نامزد اور منتخب ہوئے تھے بلکہ جن موسیقاروں اور نغمہ نگاروں کو اس کا مستحق قراردیا گیا تھا ان میں سے بیشتر گانے رفیع صاحب نے ہی گائے تھے۔ برسبیل تذکرہ نامناسب نہ ہوگا کہ ۱۹۵۰ء سے شروع ہونے والے اس ایوارڈ پربھی رفتہ رفتہ انگلیاں اٹھنے لگی تھیں۔ خاص طورپر ۱۹۶۱ء کے ایوارڈ فنکشن کے بعد شائقین موسیقی کافی مایوس اور برہم ہوئے تھے، جب فلم ’مغل اعظم‘ کے موسیقار نوشاد علی کو اس سے محروم رکھ کر فلم ’’دل اپنا اور پریت پرائی ‘‘ کو اس ایوارڈ سے نوازا گیا۔ یہاں رفیع صاحب کے ان گانوں کی مختصر تفصیل پیش ہے جو نہ صرف اس ایوارڈ کیلئے نامزد ہوئے تھے بلکہ ان میں سے بیشتر گانوں کے موسیقار او رنغمہ نگار حضرات ، اس ایوارڈ کیلئے منتخب بھی ہوئے تھے۔
  اس کا سلسلہ فلم ’جینے کی راہ‘ کے مشہورومعروف نغمہ ’’ آنے سے اس کے آئے بہار‘‘ سے شروع ہوتا ہے جو ۱۹۷۰ء میں اس ایوارڈ کے لئے نامزد ہوا تھا لیکن ایوارڈ آنند بخشی صاحب کی جھولی میں ڈال دیا گیاتھا۔ دیگر نامزد ہونے والے گانے اور فلمیں جن میں رفیع صاحب کے کئی گانے شامل تھے، اس طرح ہیں:کھلونا ، دوراستے (۱۹۷۰ء ) کارواں، انداز (۱۹۷۱ء)، فلم نینا کاگیت ’ ہم کو تو جان سے پیاری  (۱۹۷۳ء)،ایک اور گیت ’ اچھا ہی ہوا دل ٹوٹ گیا‘ ۔   ۱۹۷۸ء کا ایوارڈ فنکشن تورفیع صاحب کے نام رہا۔ ’’کیا ہوا تیرا وعدہ‘‘ کو نہ صرف فلم فیئر ایوارڈ بلکہ نیشنل فلم ایوارڈ سے بھی نوازا گیا  اوراسی سال ’’آدمی مسافر ہے ‘‘ کیلئے آنند بخشی اور ’’پرد ہ ہے پردہ‘‘ کیلئے لکشمی کانت پیارے لال اس ایوارڈ کیلئے منتخب ہوئے۔ ۱۹۸۰ء میں بھی ’’چلورے ڈولی اٹھاؤ کہار‘‘ اور ’’سرگم‘‘ کے تمام گانے نامزد ہوئے تھے۔ اور فلم ’’سرگم ‘‘ کیلئے تو لکشمی کانت پیارے لال کو فلم فیئر ایوارڈ حاصل ہوا تھاجس کے سبھی گانے رفیع صاحب نے گائے تھے۔
 رفیع صاحب کے انتقال کے بعد بھی ۱۹۸۱ء میں جو گانے نامزد ہوئے تھے۔ اس کی تفصیل اس طرح ہے: دردِ دل دردِ جگر، میں نے پوچھا چاند سے ، سلامت رہے دوستانہ ہمارا اور فلم آشا کے گانے۔ فلم قرض کیلئے پھر ایک بار لکشمی پیارے کی جوڑی کو   ایوارڈ ملا تھا۔ ان سب کے علاوہ اس دور میں رفیع صاحب کو ملکی اور غیرملکی جو اعزازات حاصل ہوئے اس کی فہرست بھی بہت طویل ہے۔ ایک تحقیق کے مطابق اس عشرہ میں رفیع صاحب کے تقریباً ۹۰۰؍ گانے ریکارڈ ہوئے تھے جن میں کم وبیش ۴۵۰؍ گانے سپرہٹ ثابت ہوئے تھے۔ قارئین کی معلومات کیلئے یہاں کچھ مقبول عام گانوں کے مکھڑے پیش ہیں:
  پوچھے جو کوئی مجھ سے ، نفرت کی دنیا کو، تم مجھے یوں بھلا نہ پاؤ گے، میں اک راجہ ہوں، جب بھی یہ دل اداس، مجھے عشق ہے تجھی سے، اتنا تو یاد ہے مجھے، رت ہے ملن کی ، مجھے تیری محبت کا سہارا وغیرہ (۱۹۷۱ء) ،بڑے ہونا ہیں یہ ، اک نا اک دن، نہ توزمیں کیلئے ، نظر آتی نہیں منزل، گوریا کہاں ترا دیس رے، پتہ پتہ بوٹا بوٹا وغیرہ (۱۹۷۲ء)، بڑی دور سے آتے ہیں، تم جو مل گئے ہو، تیرے نام کا دیوانہ ، آج موسم بڑا، یہ مانا میری جاں وغیرہ(۱۹۷۳ء) ، تیری گلیوں میں ، اپنی آنکھوں میں بساکر، یہ دنیا نہیں جاگیر کسی کی ، وعدہ کرلے ساجنا، آرات جات ہے چپکے سے (۱۹۷۴ء)، میں جٹ یملا، چھڑی رے چھڑی، کہیں ایک معصوم (۱۹۷۵ء)، سارے شہر میں آپ سا ، آجا تیری یادآئی، تیرے عشق کا مجھ پہ اور فلم لیلیٰ مجنوں کے تمام نغمے (۱۹۷۹ء)، دور رہ کر نہ کروبات ، چاند میرا دل ، جوڑے میں گجرا، مطلب نکل گیا ہے تو، آج میرے یارکی شادی، او میری محبوبہ ، سائیں ناتھ ترے ہزاروں ہاتھ (۱۹۷۷ء) ۔ چل مسافر تیری منزل، جب آتی ہوگی یاد میری وغیرہ (۱۹۷۸ء ) ۔ 
   اس سال رفیع صاحب کے گانے کم آنے کی ایک وجہ یہ بھی تھی کہ  ۱۹۷۱ء کے بعد ۱۹۷۷ء میں پھر ایک بار حج بیت اللہ کے لئے چلے گئے تھے جس کی وجہ سے وہ کئی گانے ریکارڈنہ کرواسکے۔ اس کے بعد دوست بن کے آئے ہو، اس عشق ومحبت کی ، تیرے ہاتھوں میں پہنا کے چوڑیاں، اٹھارہ برس کی تو ، بانہوں میں تیری مستی کے گھیرے وغیرہ (۱۹۷۹ء)،تو اس طرح سے میری زندگی میں، دھک دھک سے دھڑکنا، موسم سہانے آگئے، سمٹی ہوئی یہ گھڑیاں، مجھے چھورہی ہے ، تو ہی وہ حسیں ہے ، تونے مجھے بلایا ، پل دوپل کا ساتھ ہمارا وغیرہ (۱۹۸۰ء) ۔ اسی سال ۱۶؍ جنوری کو رفیع صاحب کی فلم ’’آس پاس ‘‘بھی آئی تھی جس میں انہوںنے اپنی زندگی کا آخری گانا ’’شہر میں چرچا ہے ‘‘ ریکارڈ کروایاتھا۔ 
 رفیع صاحب کے انتقال کے بعد جو فلمیں ریلیز  ہوئیں ان میں بھی کئی مقبول نغمے موجود تھے مثلاً تیرے سوا نہ کسی کا بنوں گا ، یہ تو اللہ کو خبر، پوچھونہ یارکیا ہوا، جس کے لئے سب کو چھوڑا، محبت رنگ لائے گی (۱۹۸۱ء)، ناگن ساروپ ہے تیرا، کہانیاں سناتی ہیں، جنم جنم کا ساتھ ہے ، بھیگی بھیگی رُت ہے ، میرے دیش پریمیو۔ ۱۹۸۳ء تا ۱۹۸۹ء کے دوران بھی کچھ گانے فلموں میں آتے رہے جیسے پیار میں مٹنا ہی پڑتا ہے (۱۹۸۳ء)۔ گنگا بن جاؤں (۱۹۸۴ء ) ۔ ہوش کے ساحل پہ (۱۹۸۶ء)۔ کیا ہوا یاد نہیں (۱۹۸۷ء)۔ رفیع صاحب کا آخری نغمہ ’’پھول کا شباب کیا‘‘ فلم ’’ فرض کی جنگ‘‘ میں شامل تھا جو ۱۷؍ مارچ ۱۹۸۹ء کو ریلیز ہوئی تھی۔ اس کے میوزک ڈائریکٹر بپی  لہری اور نغمہ نگار انجان تھے۔ یہ تھا مختصر جائزہ ان ۱۰؍ برسوں کا جس سے بخوبی اندازہ ہوسکتا ہے کہ محمد رفیع صاحب حقیقت میں ایک آل ٹائم گریٹ پلے بیک سنگر ہیں اور ان شاء اللہ رہیں گے

متعلقہ خبریں

This website uses cookie or similar technologies, to enhance your browsing experience and provide personalised recommendations. By continuing to use our website, you agree to our Privacy Policy and Cookie Policy. OK