Inquilab Logo

میں اردوکو اپنےکامیاب کریئرکا سب سےاہم جزومانتا ہوں

Updated: February 17, 2020, 11:43 AM IST | Azhar Mirza

دفتر انقلاب میں آنے والے بالی ووڈ کے ہدایتکار مدثرعزیزنے کہا:میرے والد فلموں کےمخالف تھے اورمیری ’اسٹرگل ‘کی کہانی تھوڑی الگ ہے

فلمی ہدایتکار مدثر عزیز۔ تصویر: انقلاب
فلمی ہدایتکار مدثر عزیز۔ تصویر: انقلاب

مدثر عزیز کی کہانی بھی کسی فلمی کہانی کی طرح ہے، بچہ دوسروں سے پیچھے نہ رہے اس لئے ان کے والدین نے انہیں انگریزی میڈیم سے تعلیم دلوائی، اردو سے دانستہ قریب نہ جانے دیا کہ مدثر انگریزی میں دسترس حاصل کرلیں، لیکن اس بچے کو اردو سے عشق ہوا اور اس نے خود ہی اردو سیکھنی شروع کی ،نوجوانی کو پہنچے تو والد کی خواہش پر انجینئرنگ کی مگربجائے عمارتیں بنانے کے فلمیں بنانے کی ٹھان لی ، کئی سالوں کی محنت اور کریئر میں نشیب و فراز دیکھنے کے بعد آج ان کے کریئر کی گاڑی کامیابی کی پٹری پر دوڑنے لگی ہے ۔دفترانقلاب میں ان سے جو گفتگو ہوئی اسے یہاں پیش کیا جارہا ہے:
سوال: آپ ہندی فلم انڈسٹری میں اب اپنا ایک مقام بناچکے ہیں، لیکن کامیابی ،شہرت اور شناخت سے قبل کی آپ کہانی کیا ہے؟
جواب: عموماً فلم انڈسٹری سے وابستہ افراد کی جدوجہد کی کہانی آپ سنتے ہیں تو معلوم یہ ہوتا ہے کہ ان کا تعلق چھوٹے شہروں سے ہوتا ہے۔ لوگ بتاتے ہیں کہ میں چھوٹے سے شہر سے ممبئی آیا اور اسے اپنے لئے ایسا پایا۔  میری ’اسٹرگل ‘کی کہانی تھوڑی الگ ہے۔ میں ممبئی میں ہی پیدا ہوا،اور وہ علاقہ قلابہ ہے، ساؤتھ ممبئی کے اس حصے کو شہر کا اَفلوینٹ علاقہ سمجھا جاتا ہے۔ میری جو جدوجہد تھی وہ ذاتی تھی۔ میرے والد صاحب فلموں کے سخت خلاف تھے۔ یہ کم ہی لوگ جانتے ہیں کہ میں انجینئر ہوں۔ والد صاحب بہت ہی نظم و ضبط والے شخص تھے اور ان کا ماننا تھا کہ انجینئر اور میڈیسین کے علاوہ تیسری کوئی اور چیز پڑھائی نہیں ہوتی۔ اس چکر میں نے اپنی کنسٹرکشن انجینئرنگ کی ڈگری صابو صدیق کالج سے مکمل کی۔ اس کے بعد میں نے والد صاحب سے اپنی دیرینہ خواہش کا اظہار کیا کہ میںفلمیں بنا نا چاہتا ہوں اور کہانیاں لکھنا چاہتا ہوں۔ تو ان کا جو ردعمل آیا وہ یہ تھا کہ ’’تم ایسا پیشہ چن رہے ہو جس کی نہ اس دنیا میں پوچھ ہے نہ اس دنیا میں‘‘ پھر انہوں نے کہا کہ ’’وہاں کون تمہارے لئے بانہیں پھیلائے کھڑا ہے کہ آؤ اور فلمیں بناؤ۔تمہیں جتنا آسان یہ لگ رہا ہے اتنا یہ ہوگا نہیں‘‘ اور بیشک والدصاحب کی  یہ بات سچ بھی ثابت ہوئی ۔ کیونکہ انجینئرنگ کی ڈگری ہاتھ میں لے کر بھی میں محض ایک اپرنٹس ہی رہا،سب سے پہلے میںسدھیر مشرا(فلم ساز و ہدایت کار) کے پاس پہنچا جو میرے استاد بھی ہیں اور میں نے ان سے بہت کچھ سیکھا بھی ہے۔ تو ان کے یہاں مجھے اپنی پہلی نوکری ملی ۔ تنخواہ تھی چار ہزار روپے ماہانہ ۔ ۰۳۔۲۰۰۲ء میں میری شروعات ہوئی، اس وقت یہ رقم کچھ زیادہ نہیں تھی۔
سوال: یوں آپ فلم انڈسٹری سے تو وابستہ ہوگئے مگر کیا آپ نے کچھ طے کیا تھا کہ مجھے یہ کرنا ہے؟جیسے کہ اداکاری، ہدایت کاری یا اسکرپٹ رائٹنگ کرنی ہے؟
جواب: اس معاملے میں ، میں نے بہت پہلے سے ذہن میں یہ بات نقش کرلی تھی کہ میں لکھنا چاہتا ہوں اور میں فلمیں بناناچاہتا ہوں۔ اس کے دو بڑے مزیدار واقعہ ہیں۔ دراصل ایک فلم آئی تھی۔ اس وقت میری عمر بارہ سال تھی ۔ اس فلم کا نام تھا جو جیتا وہی سکندر۔ مجھے یاد ہے کہ میں گھر گیا اور میں نے اپنی امی سے پہلی بار کہا کہ میں سنجے لال سنگھ جو اس فلم میں عامر خان کا کردار تھا وہ بننا چاہتا ہوں۔ پھر جیسے جیسے عقل آنے لگی تو یہ معلوم ہوا کہ سنجے لال شرما تو کوئی حقیقت ہے نہیں۔ پھر یہ سمجھ میں آیا کہ عامر خان جو کررہے ہیں وہ خود بھی اپنی مرضی سے نہیں کررہے ہیں۔ وہ کوئی ان سے کہہ رہا تب وہ کررہے ہیں۔ پھر یہ سمجھ آئی کہ یہ جو احساس سینماگھر میں مجھے ہوا ہے تو اس احساس کے پیچھے کوئی ایک شخص ذمہ دار ہے(فلم ڈائریکٹر) تو میں وہ شخص بن جانا چاہتا ہوں جو کسی اور کو یہ احساس کراسکے۔ تو وہاں سے یہ بات شروع ہوئی۔ دوسرا مزیدار واقعہ اسی حوالے سے یوں ہے کہ سدھیر بھائی کے ساتھ تین سال کام کرنے کے بعد( یہ چنبیلی سے لے کر ہزاروں خواہشیں ایسی تک کا زمانہ تھا، اگر سدھیر بھائی کی فلموںمیں اسے گنا جائے تو) ۔ اس کے بعد جب میں بھٹ صاحب (مہیش بھٹ)کے پاس پہنچا تو اس وقت بال میرے پکے نہیں تھے۔ میں نے ان سے کہا کہ میں لکھنا چاہتا ہوں اور فلمیں بنانا چاہتا ہوں تو مجھے رکھ لینے کے بعد ایک دن بھٹ صاحب نے ایک دن مجھ سے پوچھا کہ یار ایسا تو نہیں کہ تم بیچ میں گھوم کر کہوگے کہ مجھے ایکٹربننا ہے۔ میں نے کہا نہیں،نہیں ۔ میں نے طے کرلیا ہے کہ میںرائٹر اور ڈائریکٹر ہی کے طور پر کام کروں گا۔ 
سوال: بہرحال ڈائریکٹر کے طور پر ناکامی سے شروعات ہوئی مگر پھر بعد میں ’ہیپی بھاگ جائے گی‘، ’ ہیپی پھر بھاگ جائے گی‘ اور اب حال ہی میں آپ کی فلم ’پتی پتنی اور وہ‘ کو زبردست کامیابی ملی۔لہٰذا اپنے اب تک کے کریئر کے دوران کامیابی ناکامی، اتار چڑھاؤ دیکھا ہے کبھی مایوس ہوئے؟
جواب: بالکل لگا۔ اس لئے کیونکہ یہ جو پیشہ ہے یہ ایک نہایت ہی جذباتی پیشہ ہے۔ ہوتا یہ ہے کہ اداکار ایک وقت میں کئی فلمیں کرسکتا ہے اور کرتا ہے ۔ جبکہ ہدایت کار ایک ہی وقت میں دو یا تین فلم ڈائریکٹ نہیں کررہے ہوتے ہیں۔ اس لئے ہدایت کار کے جذبات ایک فلم سے پوری طرح سے وابستہ ہوجاتے ہیں لہٰذا جب فلم نہیں چلتی تو اس سے ذاتی طور پر تکلیف کا احساس ہوتا ہے ۔ میرے والد ہمیشہ ایک نصیحت کرتے تھے کہ چونی اگر اس کمرے میں گری ہے تو اسے شہرمیں ڈھونڈنے سے نہیں ملے گی اسے کمرے میں ہی ڈھونڈنی ہوگی۔ تو یہ بات ہے کہ ناکامی کے بعد بھی اگر کامیابی کا کوئی راستہ ہے اور کوئی صورت بنتی ہے تو اسی پیشے میں انہیں لوگوں کے بیچ میں ہے۔
سوال: آپ انگریزی میڈیم سے تعلیم یافتہ ہیں تو پھر اردو سے آپ کا تعلق کیسے بنا؟
جواب: میرے والد اور والدہ دونوںکی تعلیم اردو ذریعہ تعلیم سے ہوئی۔ وہ جس دور میں اورنگ آباد سے نکل مکانی کرکے جب ممبئی آئے تو انہیں ایسا لگا تھا کہ بمبئی میں اس زمانے میں انگریزی نہ بولے جانے پر انسان کو کسی قدر کمتر سمجھا جاتا ہے ۔اس وقت چلن شروع ہوا تھا کہ بچہ کا انگریزی میڈیم سے پڑھنا ضروری ہے۔ اب تو خیر سے لوگ سمجھ گئے ہیں کہ زندگی میں آگے کیسے بڑھنا ہے۔ خیر مجھے تو والدین نے انگریزی میڈیم میں داخلہ کرادیا۔  وہ مجھے راغب کرنا چاہتے تھے انگریزی کی طرف اور میں اردو کی طرف کھنچاچلا گیا۔ اردو سے میرا ایک ہی تعلق تھا اور وہ تھا انقلاب کا ہمارے گھر آنا۔اب وہ آیا کرتا تھا والد اور والدہ کیلئے، کیونکہ میرے والد بہت ہی شوق سے پورا اخبار پڑھا کرتے تھے۔ اس کا کچھ اثر میری زندگی دو طرح سے پڑا،ایک تو اردو زبان سے عشق ہوا، ایک بار جس کو اس کا نشہ ہوجاتا ہے وہ پھر ختم ہونے کا نام نہیں لیتا۔ اردو میں وہ کشش ہے۔ تو انقلاب پڑھتے پڑھتے اردو سیکھی۔ دوسرا یہ کہ انقلاب کے جو آخری صفحات پر جو بے حد ہی کمپرہینسو طریقے سے فلموں کے اشتہارات آیا کرتے تھے اس سے مجھے اردو سیکھنے کا شوق ہوا۔ 
سوال: آپ کی تعلیم کانوینٹ اورانگریزی میڈیم  سے ہوئی  پھر اخبار بینی اور اردو لکھنا پڑھنا کیسے سیکھا؟
جواب: بچپن میں تلاوت کلام کیلئے جو عربی سیکھی تھی اس سے بڑی آسانی ہوئی، اس سے بنیادی انڈراسٹینڈنگ پڑھنے کی آجاتی ہے اور اخبار پڑھنے کے شوق سے میں نے ہجے لگالگاکر پڑھنا شروع کیا۔ کئی بار میرے ساتھ ایسا بھی ہوتا تھا کہ میں غلطی کرتا اور اس کا احساس مجھے بعد میں ہوتا ۔ میں اردو لکھنے میں املا کی غلطیاں بھی کرتا جو بعد میں مجھے پتہ چلتا کہ غلطی کہاں ہوئی  ہے۔ اس طرح میں نے اپنے آپ کو اردو سکھائی ہے ۔ اب تو الحمدللہ روانی کے ساتھ اردو پڑھ لیتا ہوں، لکھ لیتا ہوں ، حتی کہ اپنے گانے بھی اردو میں ہی لکھتا ہوں۔ 
سوال: آپ کے تخلیقی کام میں اردو کتنی کارآمد ثابت ہوئی ؟
جواب: جی بہت کام آئی۔ میری فلم ہیپی بھاگ جائے گی میں مزاح کا جو بڑا پہلو ہے وہ اردو مکالمے ہیں جو پیوش بھائی(پیوش مشرا) کے ہیں۔ اس میں کئی الفاظ بالکل پہلی بار استعمال کئے گئے ہیں ۔ مثلاً قیلولہ کو لیجئے۔ مجھے اپنے گیتوں میں اردو سے بڑی مدد ملی ۔ پتی پتنی اور وہ حالانکہ ہندی بھاشی کرداروں پر مشتمل ہے تاہم اس میں فہیم رضوی نامی ایک کردار ہے جس کیلئے مجھے اردو سے بڑی مدد ملی۔ اردومیرے آج یہاں آنے کی بہت بڑی وجہ ہے۔n

متعلقہ خبریں

This website uses cookie or similar technologies, to enhance your browsing experience and provide personalised recommendations. By continuing to use our website, you agree to our Privacy Policy and Cookie Policy. OK