Inquilab Logo

وی شانتا رام نے فلم انڈسٹری میں زمین سے آسمان تک کا سفر طے کیا تھا

Updated: October 18, 2020, 11:07 AM IST | Anees Amrohi

محض ۱۲؍برس کی عمر میں ایک ناٹک کمپنی سے اپنے کریئر کا آغاز کرنے والے وی شانتا رام نےڈانس اور گانا سیکھا ، لڑکیوں کی طرح بال بڑھائے اور ساڑی پہن کر اداکاری کی۔ ’پربھات فلم کمپنی‘ سے ’راج کمل کلامندر‘ تک کے سفر میں انہوں نے انڈسٹری کو کئی کامیاب فلمیں دیں جس کی وجہ سے انہوں نے دولت و شہرت بھی خوب کمائی

v shanta ram
وی شانتا رام

کولہاپور کے ایک عام سے خاندان میں شانتا رام راجہ رام وڈکندرے کا جنم ہوا تھا۔ ان کی زندگی کے شروعاتی چند برس کچھ خاص نہیں تھے۔ عام بچوں کی طرح وہ بھی اسکول جانے لگے، جہاں زبان کے علاوہ مصوری میں ان کی خاص دلچسپی تھی۔ تعلیم حاصل کرنے کے مقابلے وہ اس کوشش میں رہتے تھے کہ کسی طرح اسکول کے جلسوں میں کئے جانے والے کسی ناٹک میں ان کو کردار مل جائے اور آخرکار اپنے دو خالہ زاد بھائیوں بابو رائو اور بھال جی پنڈارکر کے ساتھ ان کو بھی ایک ناٹک میں قلعے کے باہر پہرہ دینے والے سنتری کا کردار مل گیا۔ اِس کے بعد تو نقل اُتارنے کا اُن کا شوق بڑھتا ہی چلا گیا۔ پھر ایک دن شانتارام کے ذوق وشوق کو دیکھتے ہوئے اس زمانے کے مشہور گلوکار، اداکار گووند رائو ہیمبے نے ان کے والد سے کہا کہ شانتارام کو ناٹک کمپنی میں بھرتی کروا دیا جائے۔اس طرح صرف ۱۲؍برس کے شانتارام گندھرو ناٹک کمپنی میں بھرتی کرا دیئے گئے۔
 یہاں سے وی شانتارام کی زندگی کے ایک نئے دور کا آغاز ہوا۔ ڈانس اور گانا بھی انہوںنے سیکھا، لڑکیوں کی طرح بال بھی بڑھانے پڑے مگر کچھ ہی دنوں بعد اِن سب باتوں سے شانتارام کا من اُچاٹ ہو گیا۔ ساڑی پہن کر ناچنا انہیں گوارا نہ ہوا اور وہ گھر لوٹ آئے۔ اپنے لمبے بال کٹواکر پھر سے پرانے انگریزی ہائی اسکول کے درجہ چہارم میں جاکر بیٹھ گئے۔ جیسے تیسے پاس ہوتے ہوئے جب میٹرک میں پہنچے تو سنسکرت میں فیل ہو گئے اور یہیں سے ان کی اسکولی تعلیم کا سلسلہ منقطع ہو گیا۔
 بابورائو پینٹر کی فلم کمپنی کے بارے میں وہ سن چکے تھے۔ بس، ایک دن جاکر اُسی میں بھرتی ہو گئےاور بغیر معاوضہ چھوٹے موٹے کام کرنے لگے۔ اداکاری کیلئے ان کی صلاحیتوں اورلگن کو دیکھتے ہوئے بابورائو پینٹر نے ۱۹۲۱ء میں فلم ’سریکھا ہَرن‘میں بھگوان شری کرشن کا کردار وی شانتارام سے ادا کرایا۔ اس کے بعد۱۹۳۲ء میں بابو رائو پینٹر کی  دوسری کامیاب فلم’سنگھ گڑھ‘ میں شانتارام نے ’شیلیندر ماما‘ کا کردار ادا کیا۔ اس کے بعد تو اداکاری کا سلسلہ ہی شروع ہو گیا۔ شانتارام مختلف قسم کے کردار ادا کرتے ہوئے کامیابی کی نئی منزلیں سَر کرنے لگے۔ اگلے کچھ ہی برسوں میں انہوںنے ’کرشن اوتار، ستی پدمنی، شہالاشہ، سادکاری، پاش، رانا ہمیر، مایا بازار، گج گوری، بھگت پرہلاد، مرلی والا، رانی صاحب‘ اور ’دیش پانڈے‘ وغیرہ کئی خاموش فلموں میں اداکاری کی۔
 ۱۹۲۶ء میں بابورائو پینٹر نے شانتارام کو فلم ’نیتاجی پالکر‘کی ہدایتکاری کی ذمہ داری سونپی۔ اس فلم کے فوراً بعد ہی شانتارام نے کمپنی کو الوداع کہہ دیااور اپنے کئی ساتھیوں کے ساتھ مل کر سیٹھ سیتارام کلکرنی کی نگرانی میں یکم جون ۱۹۲۹ء کو ہندوستانی فلم انڈسٹری کی بنیاد کہی جانے والی ’پربھات فلم کمپنی‘ کی بنیاد کولہاپور میں ڈالی اور اسی سال تین ہزار روپے کی رقم سے پہلی فلم ’گوپال کرشن‘ شروع کی گئی۔ فوٹوگرافر دھیبر، آرٹ ڈائریکٹر فتح لال، داملے اور ان کے ساتھ شانتارام کی ہدایت نے فلم کو کامیاب بنا دیا۔ اسی کے ساتھ پربھات فلم کمپنی کی گاڑی چل نکلی۔ اگلے ہی سال۱۹۳۰ء میں شانتارام نے ’خونی خنجر، چندر سین اور بجربٹو‘ جیسی کامیاب فلموں میں اداکاری بھی کی اور ہدایتکاری بھی۔
 اُن دنوں ہندوستانی آزادی کی تحریک زور پکڑ رہی تھی۔ اس تحریک سے متاثر ہوکر سب سے پہلے پربھات فلم کمپنی نے ہی فلم ’سوراج تورن‘ بنائی جس کی ہدایت شانتارام نے کی۔ شیواجی مہاراج کی زندگی پر مبنی اس فلم میں شیواجی کا کردار خود شانتارام نے ادا کیا۔ انگریزی سرکار ’سوراج‘ کا لفظ سننے کو تیار نہ تھی لہٰذا فلم پر پابندی لگا دی گئی۔ مجبور ہوکر فلمسازوں نے فلم میں تراش خراش کرکے فلم کا نام بھی بدل دیا اور اس فلم کو’اودئے کال‘ کے نام سے نمائش کیلئے پیش کیا گیا۔ شانتارام کی ہدایت میں بنی اور ان کی اداکاری سے سجی یہ آخری خاموش فلم تھی۔۱۴؍مارچ ۱۰۳۱ء کو فلم ’عالم آرا‘کی نمائش کے ساتھ ہی ہندوستان میں متکلم فلموں کا دور شروع ہو گیا۔ شانتارام اور ان کی پربھات فلم کمپنی نے بھی اپنی اس نئی ذمہ داری کو سمجھا اور انہوںنے ہندوستان کی پہلی فیچر فلم ’راجہ ہریش چندر‘ کو بنیادبناکر اپنی پہلی متکلم فلم ’ایودھیا کا راجہ‘ بنائی۔ ہیروئین کے بطور درگا کھوٹے کی یہ پہلی فلم تھی۔ شانتارام کی ہدایت میں یہ فلم ہندی اور مراٹھی دونوں زبانوں میں بنائی گئی تھی۔ یہی وہ فلم تھی جس میں پہلی بار سیٹ لگائے گئے۔ ۱۹۳۲ء میں ہی پربھات کی دوسری فلم ’مایا مچھندر‘ میں اور بھی زیادہ خوبصورت سیٹ بنائے گئے۔
 ۱۹۳۳ء میں اپنے استاد بابو رائو پینٹر کی دو کامیاب خاموش فلموں ’سیرندھی‘ اور ’سِنگھ گڑھ‘ کو شانتارام نے ان کی عقیدت کے طور پر متکلم فلم کی شکل میں بنایا۔ ہندوستان میں بنی یہ پہلی رنگین فلم تھی جس کے پرنٹ جرمنی سے تیار ہوکر آئے تھے۔ یہی وہ پہلی فلم تھی جس کے گراموفون ریکارڈز تیار ہوئے۔ جرمنی کی ٹیلی فنکن کمپنی نے یہ ریکارڈ تیار کئے تھے اور اگلے ہی برس پربھات فلم کمپنی کو کولہاپور سے پونا منتقل کر دیا گیا۔ ۱۹۳۴ء میں شانتارام کی ہدایت میں کمپنی کی پہلی فلم ’امرت منتھن‘تیار ہوئی اور صحیح معنوں میں پہلی بار ہی شانتارام کی معیاری فلمسازی اور ہدایتکاری کا تعارف فلمی دنیا اور شائقین سے ہوا۔
 تکنیکی اعتبار سے بھی اس فلم کو بہت سراہا گیا کیوںکہ اس فلم میں پہلی بار کلوز اَپ اور رائونڈ شاٹ کا استعمال شانتارام نے کیا تھا۔ مکالموں کے ساتھ بیک گرائونڈ موسیقی کے استعمال کا فن بھی اسی فلم سے شروع ہوا تھا۔ یہی وہ پہلی فلم تھی جس نے ممبئی میں سلور جوبلی منائی اور جسے ملک و بیرون ملک کئی اعزازات سے نوازا گیا۔اس کے بعد شانتا رام کی ایک اور اہم فلم ’دھرماتما‘ کی نمائش ہوئی۔ اس وقت گاندھی جی سیاسی اور سماجی زندگی پر چھائے ہوئے تھے۔ اس فلم میں ان کے نظریات کو کھل کر بیان کیا گیا تھا۔ پہلے اس فلم کا نام’مہاتما‘ رکھا گیا تھا، مگر بعد میں انگریزی سرکار کے اعتراض پر’دھرماتما‘ کے نام سے اس فلم کی نمائش ہوئی۔
 ۱۹۳۶ء میں سال کی اہم فلم کے طور پر شانتارام کی ہدایت میں بنی فلم ’امر جیوتی‘ آئی۔ ہندوستانی عورت کے انقلابی کردار والی شاید یہ پہلی فلم تھی۔ اس فلم میں شانتا آپٹے نے مرکزی کردار ادا کیا تھا۔ اس فلم کو وینس فلم فیسٹیول میں بھی اعزاز سے نوازا گیا۔’دنیا نہ مانے‘ پربھات اور شانتارام کی ایک اور انقلابی فلم تھی۔ ۱۹۳۷ء میں بنی یہ فلم آج بھی فلمسازی کے میدان میں دستاویز کی حیثیت رکھتی ہے۔ اشاروں کنایوں کے سہارے فنکاری سے بنائی گئی یہ فلم اس وقت کی بے میل شادیوں کے خلاف ایک تحریک تھی۔
 شانتارام کا نام اب فلمی آسمان پر چمکنے لگا تھا۔ اپنی حیثیت کو برقرار رکھتے ہوئے شانتارام نے ۱۹۳۹ء میں ’آدمی‘ جیسی عظیم فلم پیش کی۔ آج بھی اس فلم کو شانتارام کا عظیم کارنامہ تسلیم کیا جاتا ہے۔ طوائفوں کی زندگی پر اس سے پہلے بھی کئی فلمیں بن چکی تھیں اور بعد میں بھی بنیں مگر ایک طوائف کے اندرونی نسوانی جذبات، اُس کی بے بسی، لاچاری، اُس کے درد اور پیار کو فلم ’آدمی‘ میں جس حقیقی انداز میں پیش کیا گیا ہے، ویسا کبھی کسی فلم میں ممکن نہ ہو سکا۔ اس کے ساتھ ہی شانتارام سماج سدھارک فلمساز کے روپ میں شہرت حاصل کرتے رہے۔
 اپنی اگلی فلم ’پڑوسی‘ (۱۹۴۱ء) میں انہوںنے فرقہ وارانہ ہم آہنگی اور ہندو مسلم ایکتا کو موضوع بنایا مگر اس فلم کی تیاری کے دوران ہی ان کے ساتھی آپس میں ایکتا قائم نہ رکھ سکے اور خود شانتارام بھی اداکارہ جئے شری کے عشق میں گرفتار ہو چکے تھے۔ یہ سب کچھ پربھات فلم کمپنی کے اصولوں کے منافی تھا۔ آخرکار شانتارام پربھات فلم کمپنی سے الگ ہوگئے اور ممبئی آکر انہوںنے پریل میں ’راج کمل کلامندر‘ کی بنیاد رکھی۔ ۱۹۴۲ء میں قائم یہ فلم اسٹوڈیو ہندوستانی فلم انڈسٹری کی تاریخ میں میل کا پتھر ثابت ہوا اور اپنے قاعدے قانون اور اصولوں کی وجہ سے پوری فلمی دنیا میں ایک مثال بنا رہا۔۱۹۴۳ء میں شانتارام نے راج کمل کی پہلی فلم کے طور پر ’شکنتلا‘ بنائی جو بے حد کامیاب رہی۔ ان کی دوسری فلم ’چاند‘ میں خون کے عطیہ کا پرچار کیا گیا تھا اور اس سے اگلی فلم ’پربت پر اپنا ڈیرہ‘ میں ایک ایسے نوجوان کی کہانی بیان کی گئی تھی جو خودی کی بلندی سے گر کر نفسانی خواہشات کی گہری کھائی میں ڈوب جاتا ہے۔ ان فلموں کے بعد شانتا رام کی ایک بہت اہم فلم ۱۹۴۶ء میں ’ڈاکٹر کوٹینس کی امر کہانی‘ آئی۔ فلم کی کہانی خواجہ احمد عباس کی انگریزی کتاب ’’دی وَن ہو ڈِڈ ناٹ کم بیک‘‘ پر مبنی تھی۔ یہ اس ہندوستانی ڈاکٹر کی کہانی تھی جو ایک ڈاکٹری مشن پر جاپانیوں کے ذریعہ ستائے گئے چینی لوگوں کی خدمت کرنے اُن کے ملک جاتا ہے اور وہاں اپنی جان دے دیتا ہے۔ ڈاکٹر کوٹینس کا کردار خود شانتارام نے ادا کیا تھا۔ اس فلم کو انگریزی میں بھی بنایا گیا اور وینس کے فلمی میلہ میں شامل ہونے کے ساتھ ساتھ یہ فلم امریکی سنیما گھروں میں بھی دکھائی گئی۔
 ۱۹۴۷ء میں شانتارام نے مہاراشٹر کے پیشوا راج دربار کے مقبول شاعر رام جوشی کی زندگی پر فلم ’متوالا شاعر‘ بنائی۔ اس کے بعد ۱۹۵۵ء تک شانتارام نے ایک کے بعد ایک ’دہلیز، پرچھائی، سرنگ، اپنا دیش، تین بتی چار راستے اورصبح کا تارہ‘ فلمیں بنائیں۔ اسی دوران ۱۹۵۲ء میں ان کی مراٹھی فلم ’امر بھوپالی‘ کو پریس میں اعزاز سے نوازا گیا۔۱۹۵۵ء میں شانتارام کی مقبول فلم ’جھنک جھنک پائل باجے‘ آئی۔ یہ فلم خالص ہندوستانی موسیقی اور رقص و نغمہ کی قوس و قزح تھی۔ گوپی کرشن اور سندھیا کے رقص میں شانتارام نے اتنے رنگ بھر دیئے تھے کہ اپنے وقت میں یہ فلم سنیما گھروں سے اُترنے کا نام ہی نہیں لیتی تھی۔ اس فلم نے شانتارام پر عزت، شہرت اور دولت کی برسات سی کر دی۔ بعد میں اس فلم کو ۷۰؍ ایم ایم کے پرنٹ پر بناکر پیش کیا گیا۔ اس فلم نے ۱۹۵۶ء میں چار فلم فیئر ایوارڈ حاصل کئے۔ ۱۹۵۶ء ہی میں شانتارام نے فلم ’طوفان اور دیا‘ بنائی جو ایک عمدہ فلم تھی۔ اس کے بعد ان کی ایک اور اہم فلم آئی ’دو آنکھیں بارہ ہاتھ‘۔ اس فلم میں آدی ناتھ نام کے ایک ایسے جیلر کی کہانی تھی جو گاندھی وادی اصولوں سے مجرموں کو سدھارنا چاہتا ہے اور اپنے اس تجربے میں اپنی جان تک نچھاور کر دیتا ہے۔ جیلر کا کردار خود شانتارام نے ادا کیا تھا۔ اس فلم کو ملک اور بیرون ملک کئی اعزازات حاصل ہوئے۔ ۱۹۵۷ء کا صدر جمہوریہ ہند کا اعزاز اسی فلم کو ملا تھا۔ ۱۹۵۸ء میں اس فلم نے تین بین الاقوامی اعزاز حاصل کئے۔اس کے بعد ۱۹۵۸ء میں ’موسی‘، ۱۹۵۹ء میں ’نورنگ‘، ۱۹۶۰ء میں ’پھول اور کلیاں‘ اور ۱۹۶۱ء میں اپنی پرانی فلم ’شکنتلا‘ کو ’استری‘ کے نام سے دوبارہ بنایا مگر یہ فلم اعلیٰ معیار کی ہوتے ہوئے بھی ناکام ہو گئی اور پھر یہیں سے شانتارام کا اپنا ستارہ بھی مدھم پڑنے لگا مگر انہوںنے ہار نہ مانتے ہوئے ۱۹۶۳ء میں ’سہرا‘، ۱۹۶۴ء میں ’گیت گایا پتھروں نے‘، ۱۹۶۷ء میں ’بوند، جو بن گئی موتی‘، ۱۹۷۱ء میں ’جل بن مچھلی، نرتیہ بن بجلی‘، ۱۹۷۲ء میں ’پنجرہ‘ اور ۱۹۷۷ء میں ’چانی‘ فلمیں بنائیں مگر شانتارام کی چھاپ اور اپنے موضوعات میں تنوع ہونے کے باوجود یہ سبھی فلمیں باکس آفس پر ناکام ثابت ہوئیں۔اپنی ان آخری چند فلموں میں شانتارام نے حقیقت کے بجائے تخئیل اور تصور پر زیادہ دھیان دیا تھا۔ اسلئے ’دنیا نہ مانے، آدمی، پڑوسی اوردو آنکھیں بارہ ہاتھ‘ کا فلمساز یا ہدایتکار ان میں کہیں نظر نہیں آیا۔ ایسا لگا جیسے بیس برس کی شان وشوکت نے شانتارام کو تھکا دیا تھا۔ شانتارام کی ناکامیابیوں کی ایک وجہ تھی اداکارہ سندھیا۔ اُن کی زندگی سے جئے شری کا جانا اور سندھیا کا آنا اُن کی تخلیقی صلاحیتوں کو گمنامی کی طرف لے گیا۔اس  کے باوجود اُنہوںنے ہار نہیں مانی۔ اُن کی زندگی بھر کی فلمی خدمات کا اعتراف کرتے ہوئے اُنہیں ۱۹۸۶ء کا ’دادا صاحب پھالکے اعزاز‘ پیش کیا گیا۔
 ۱۸؍نومبر ۱۹۹۰ء کو ٹھیک اپنے نواسی ویں جنم دن کے موقع پر اُن کا انتقال ہو گیا لیکن  ان  کی محنتوں اور اصول پرستی اور تخلیقیت کا گواہ ’راج کمل اسٹوڈیو‘‘آج بھی اسی شان سے ممبئی میں موجود ہے۔

متعلقہ خبریں

This website uses cookie or similar technologies, to enhance your browsing experience and provide personalised recommendations. By continuing to use our website, you agree to our Privacy Policy and Cookie Policy. OK