Inquilab Logo

شرحِ غربت میں افسوسناک اضافہ

Updated: April 10, 2021, 4:30 PM IST

عالمی مبصرین کا کہنا ہے کہ کووڈ ۱۹؍ سے پہلے امریکہ میں غربت کی شرح مدھم رفتار سے ہی سہی، کم ہورہی تھی مگر وباء کی وجہ سے حالات بدل گئے۔ اب اگر ملک کی ترقی کی رفتار منفی سمت میں گامزن نہیں ہوئی ہے تب بھی ٹھہر ضرور گئی ہے۔

Picture.Picture:INN
علامتی تصویر۔تصویر :آئی این این

 عالمی مبصرین کا کہنا ہے کہ کووڈ ۱۹؍ سے پہلے امریکہ میں غربت کی شرح مدھم رفتار سے ہی سہی، کم ہورہی تھی مگر وباء کی وجہ سے حالات بدل گئے۔ اب اگر ملک کی ترقی کی رفتار منفی سمت میں گامزن نہیں ہوئی ہے تب بھی ٹھہر ضرور گئی ہے۔ سب سے زیادہ متاثر کم آمدنی والے کنبوں کے بچوں کی ہے جہاں اسکولوں کے بند ہونے اور بچوں کی نگہداشت کے خرچیلا ہونے کی وجہ سے بہت سے والدین کو اپنی ملازمت ترک کرنی پڑی تاکہ وہ دفتری ذمہ داری سے آزاد ہوکر اپنا سارا وقت بچوں کی دیکھ بھال پر صرف کرسکیں (یہ امریکہ ہی میں ہوسکتا ہے)۔ ماہرین کا یہ بھی کہنا ہے کہ امریکی صدر جو بائیڈن کے ۱ء۹؍ کھرب ڈالر کے معاشی پیکیج کیلئے جو مباحث جاری ہیں اُس کا ایک اہم حصہ مذکورہ کنبوں کی صورت حال ہے۔  ہم مشرقی ملکوں کے لوگ امریکہ اور غربت کو دو الگ چیزیں سمجھتے ہیں۔ ہمارے خیال میں امریکہ سپرپاور ہے جہاں غربت ہوہی نہیں سکتی۔ مگر، یہ حقیقت ہے کہ امریکہ میں بھی غریبوں کی تعداد خاصی ہے۔ ہر پانچ میں سے ایک بچہ غربت کے ماحول میں پروان چڑھتا ہے۔ افریقی امریکی، ہسپانوی اور الاسکا کے شہریوں میں غربت کی شرح نسبتاً زیادہ ہے۔ ان لوگوں کیلئے اسکولوں کا بند ہونا کمسن طلبہ کی نشوونما کیلئے مسئلہ بن گیا ہے کیونکہ امریکہ میں اسکول صرف تعلیم کی جگہ نہیں بلکہ صحت بخش غذا کے حصول کا مرکز بھی ہے۔ ریسرچ سے معلوم ہوتا ہے کہ اسکولوں سے حاصل ہونے والا دوپہر کا کھانا (غذائیت سے بھرپور ہونے کی وجہ سے) بچوں کی تعلیمی کارکردگی پر مثبت اثر ڈالتا ہے۔  جب امریکہ میں غربت موضوع بحث بن چکی ہے تو سمجھا جاسکتا ہے کہ کووڈ۔۱۹؍ سے غریب ملکوں کا کیا حال ہوگا اور یہ ممالک کہاں سے کہاں پہنچ گئے ہوں گے۔ براہ راست غربت کو آئینہ دکھانے والے اعدادوشمار منظر عام پر آئیں تو اندازہ ہو کہ ہم نے کووڈ کی وباء اور اس کے نتیجے میں نافذ کئے گئے لاک ڈاؤن کی وجہ سے وہی سب کھویا ہے جو دکھائی دے رہا ہے یا اس کے علاوہ بھی بہت کچھ گنوایا ہے جو فی الحال دکھائی نہیں دے رہا ہے۔ مڈڈے میل تو خیر سے ہمارے ملک میں بھی رائج ہے مگر امریکہ کے مڈڈے میل کا معاملہ یہ ہےکہ اس کی ہر اعتبار سے جانچ کی جاتی ہے اس لئے بچوں کو فراہم کی جانے والی غذا ناقص ہونا تو دور کی بات، مقررہ معیار سے کم بھی نہیں ہوتی۔جہاں تک غربت کا سوال ہے، ہمارا ملک کووڈاور لاک ڈاؤن کی وجہ سے معاشی طور پر دیگر ملکوں سے کہیں زیادہ متاثر ہے۔ پیو ریسرچ نامی نامور تحقیقی ادارے کا کہنا ہے کہ ہندوستان کے متوسط طبقے میں شامل ہونے والے ۳۳؍ملین لوگ ایسے ہیں جو اپنی مالی حالت کے سبب نچلے متوسط طبقے میں شامل ہوگئے ہیں۔ وباء سے قبل بتایا گیا تھا کہ ہندوستان میں مڈل کلاس ۹۹؍ ملین لوگوں پر مشتمل ہے مگر اب ۶۶؍ ملین کا اندازہ پیش کیا گیا ہے۔    پیو ریسرچ نے غریبوں کی تعداد کاجو اندازہ پیش کیا وہ۱۳۴؍ ملین کا ہے جو کہ معاشی کساد بازاری سے قبل ۵۹؍ ملین تھا۔اس ریسرچ پر مبنی خبروں کے مطابق ہندوستان میں، غربت کا اندازہ جنوری ۲۰ء میں۴ء۳؍ فیصد بتایا گیا تھا وہ ۲۰۲۰ء گزر جانے کے بعد ۹ء۷؍ فیصد ہوگیا۔ ہرچند کہ یہ اعداد قابل اطمینان نہیں ہیں کیونکہ ملک میں غربت کی شرح اس سے کہیں زیادہ معلوم پڑتی ہے مگر ۱۳۴؍ ملین ہی کو حرف آخر مان لیا جائے تب بھی یہ بہت زیادہ ہے۔ اتنے سارے لوگوں کو غربت سے نکالنا وقت کا اہم تقاضا ہے۔ کاش حکومت اس جانب توجہ دے! ۔ 

متعلقہ خبریں

This website uses cookie or similar technologies, to enhance your browsing experience and provide personalised recommendations. By continuing to use our website, you agree to our Privacy Policy and Cookie Policy. OK