Inquilab Logo

اقوام متحدہ کے ۷۵؍ سال

Updated: August 03, 2020, 6:46 AM IST | Editorial

اقوام متحدہ کے نام سے عالمی شہرت رکھنے والا ادارہ اپنے قیام کے ۷۵؍ سال پورے کررہا ہے۔ قارئین جانتے ہیں کہ پہلی جنگ عظیم میں بڑی تباہی کے بعد عالمی سربراہان کو یہ توفیق ہوئی تھی کہ وہ سر جوڑ کر بیٹھیں اور دُنیا میں امن قائم کرنے کیلئے کچھ اُصول اور ضابطے وضع کریں۔

United Nation - PIC : INN
اقوام متحدہ ۔ تصویر : آئی این این

اقوام متحدہ کے نام سے عالمی شہرت رکھنے والا ادارہ اپنے قیام کے ۷۵؍ سال پورے کررہا ہے۔ قارئین جانتے ہیں کہ پہلی جنگ عظیم میں بڑی تباہی کے بعد عالمی سربراہان کو یہ توفیق ہوئی تھی کہ وہ سر جوڑ کر بیٹھیں اور دُنیا میں امن قائم کرنے کیلئے کچھ اُصول اور ضابطے وضع کریں۔ اس کیلئے ایک ادارہ کی ضرورت محسوس کی گئی چنانچہ ’’لیگ آف نیشنز‘‘ کا قیام عمل میں لایا گیا۔ اس ادارے کا بنیادی مقصد مختلف ملکوں کے درمیان تنازعات کو رفع کرنا تھا تاکہ جنگوں کی نوبت نہ آئے اور انسانی جان و مال کا اتلاف نہ ہو۔ مگر دوسری جنگ عظیم کو برپا ہونے سے روکنے میں یہ ادارہ کچھ نہیں کرسکا۔ دوسری عالمی جنگ ۱۹۳۹ءسے ۱۹۴۵ء تک جاری رہی اور بڑے پیمانے پر تباہی و تاراجی اور انسانی جان و مال کے اتلاف کا بازار چھ سال تک گرم رہا۔ اس پس منظر میں عالمی سربراہان کو ایک بار پھر توفیق ہوئی کہ وہ سر جوڑ کر بیٹھیں اور لیگ آف نیشنز کی بے عملی اور بے اثری پر اظہار افسوس کے ساتھ ہی مستقبل کا تانہ بانہ بھی بُنیں کہ جنگوں کو روکنے اور عالمی امن کو یقینی بنانے کی اب کیا صورت ہوسکتی ہے۔ اس کیلئے جو کچھ بھی سوچا گیا اور جو منصوبے بنائے گئے اُن کیلئے ایک بار پھر کسی عالمی ادارے کی ضرورت محسوس کی گئی کیونکہ لیگ آف نیشنز ناکام ہوچکا تھا۔ چنانچہ دوسری جنگ عظیم کے آخری سال یعنی ۱۹۴۵ء میں یونائٹیڈ نیشنس آرگنائزیشن (یو این او) قائم کیا گیا۔
 تب سے لے کر اب تک یہ ادارہ کچھ کامیابیوں اور کئی ناکامیوں کے ساتھ جاری ہے اور ہرچند کہ اس کا حشر لیگ آف نیشنز جیسا نہیں ہوا مگر جنگوں کے علاوہ عالمی دھاندلیوں اور غاصبانہ کارروائیوں کو روکنے میں اس کی بے اثری کسی سے پوشیدہ نہیں ہے۔ اسے نہ تو عراق ایران جنگ روکنے میں کامیابی ملی نہ ہی افغانستان سے سوویت یونین کو دور رکھنے میں۔ یہ ادارہ نہ تو کویت پر عراق کے حملے کو روک سکا نہ ہی عراق پر امریکہ کی قیامت خیز اور وحشتناک بمباری کو، جس کا سلسلہ کافی عرصہ تک جاری رہا۔ اقوام متحدہ فلسطین کے خلاف اسرائیل کے غاصبانہ عزائم اور آئے دن کی شیطنت کے خلاف بھی کوئی کارروائی نہیں کرسکا۔ بلاشبہ اس نے مذمتی قراردادیں منظور کیں اور تاریخ گواہ ہے کہ اس کی قراردادوں کی تعداد کم نہیں ہے مگر اس کا کچھ نتیجہ برآمد نہیں ہوا۔ ایسے میں اقوام متحدہ کو مذمتی قراردادوں سے آگے بڑھ کرمختلف بااثر ملکوں کو اسرائیلی دھاندلیوں کے خلاف ہموار کرنا چاہئے تھا کہ یہ اس کا منصبی فرض تھا مگر اس محاذ پر سناٹا پہلے بھی تھا، اب بھی ہے۔ اس وقت ایک درجن سے زائد ملکوں میں اس کے امن مشن ضرور موجود ہیں مگر جتنا حق ان کے اعتراف کا ہے اس سے زیادہ گنجائش اس ادارہ کی ناکامیوں پر تنقید کی نکلتی ہے اور یہ حقیقت افسوسناک ہے کہ اقوام متحدہ قیام امن کے اپنے بنیادی مقصد میں ناکام ہی قرار دیا جائے گا۔ 
 اقوام متحدہ کی ایک ناکامی عام تباہی کا اسلحہ روکنے سے متعلق بھی ہے۔ اس میں نیوکلیائی اسلحہ بھی شامل ہے۔ اپنے اسلحہ جاتی منصوبوں کو جاری و ساری رکھنے اور مختلف ملکوں کو اسلحہ خریدنے پر آمادہ کرنے کیلئے جنگوں کے آثار پیدا کرنا بھی چند ملکوں کا طرہ امتیاز بن چکا ہے۔ اقوام متحدہ ہتھیاروں کے اس پھیلاؤ کو روکنے میں بھی ناکام ہے جبکہ یہ حقیقت اس سے چھپی ہوئی نہیں ہے کہ اسلحہ وقت کے ساتھ زیادہ تباہ کن اور زیادہ ہلاکت خیز ہوتا جارہا ہے۔ 
 البتہ غذائی اجناس کی فراہمی، تعلیم پر زور، صحت کے تعلق سے عام بیداری،  مشکل حالات میں متعلقہ ملکوں کی مدد، تحفظ اطفال، پناہ گزینوں کی فکر اور انسانی بنیادوں پر دی جانے والی امداد میں اس ادارے کی کچھ کامیابیاں ایسی ہیں کہ جن کا اعتراف کئے بغیر انصاف کا تقاضا پورا نہیں ہوتا۔ ۷۵؍ سال کم نہیں ہوتے۔ مگر اس عرصے میں کامیابیوں کی فہرست طویل ہوتی تو بات ہی کچھ اور تھی

متعلقہ خبریں

This website uses cookie or similar technologies, to enhance your browsing experience and provide personalised recommendations. By continuing to use our website, you agree to our Privacy Policy and Cookie Policy. OK