Inquilab Logo

بدعنوانی کا جواز، چہ خوب

Updated: December 29, 2021, 1:37 PM IST

ء ۲۰۱۴ء میں بی جے پی نے بدعنوانی کے خلاف محاذ آرائی کے ذریعہ عوام کو اعتماد میں لیا اور کانگریس کو مرکز سے بے دخل کرکے بڑے طمطراق سے حکومت بنائی۔

Picture.Picture:INN
علامتی تصویر۔ تصویر: آئی این این

ء ۲۰۱۴ء میں بی جے پی نے بدعنوانی کے خلاف محاذ آرائی کے ذریعہ عوام کو اعتماد میں لیا اور کانگریس کو مرکز سے بے دخل کرکے بڑے طمطراق سے حکومت بنائی۔ اُس وقت، نریندر مودی، جو بعد میں وزیر اعظم منتخب ہوئے، کا نعرہ کہ ’’نہ کھاؤں گا نہ کھانے دوں گا‘‘ خوب چلا۔ اس نعرے کے ذریعہ عوام کے تصور میںملک کی ایسی شبیہ اُبھاری گئی جس میں بدعنوانی برائے نام بھی نہ ہوگی۔ پچھلے سات آٹھ سال میں بدعنوانی کس حد تک ختم ہوئی یہ بتانے کی ضرورت نہیں ہے۔ کالے دھن کے تعلق سے بھی بی جے پی نے بڑے دعوے کئے تھے مگر کتنے کالے دھن کا انکشاف ہوا اور غیر محسوب آمدنی والے کتنے لوگوں کے خلاف کارروائی ہوئی یہ بھی کسی سے مخفی نہیں ہے۔ سات برسوں میں ای ڈی کا بڑا چرچا رہا مگر یہ کن کیخلاف سرگرم رہی، یہ بھی راز نہیں ہے۔ 
  غیر محسوب آمدنی والے کہاں کتنے ہیں یہ ہنوز ایک معمہ ہے۔ اگر کالے دھن کے خلاف کارروائی جیسی کارروائی کی گئی ہوتی تو کانپور کے تاجر پیوش جین کی رہائش گاہ سے ۲۵۷؍ کروڑ کی نقدی برآمد نہ ہوتی (یہ خبر گزشتہ دنوں سرخیوں میں تھی)۔ یہ ایسا موضوع ہے کہ جس پر بہت کچھ لکھا جاچکا ہے اور آئندہ بھی لکھا جائے گا، اس لئے ہم مزید مثالیں پیش کرنے کے بجائے اپنے قارئین کو یہ بتانا چاہتے ہیں کہ اب بی جے پی، بدعنوانی کی ایک خاص حد کو جواز فراہم کرنے کے درپے نظر آتی ہے۔ وزیر اعظم نے کہا تھا ’’نہ کھاؤں گا نہ کھانے دوں گا‘‘ جبکہ ریوا سے منتخب بی جے پی کے رکن پارلیمان جناردھن مشرا کا کہنا ہے کہ پندرہ لاکھ روپے تک ’کھانے‘ میں کوئی مضائقہ نہیں۔ اُنہوں نے حال ہی میں ایک جلسے سے خطاب کے دوران کہا کہ ایک سرپنچ سات لاکھ روپے خرچ کرکے الیکشن میں کامیابی حاصل کرتا ہے، مزید سات لاکھ روپے آئندہ الیکشن کیلئے مختص کرنا چاہتا ہے، اس طرح چودہ لاکھ روپے ہوئے۔ ایک لاکھ مہنگائی کی وجہ سے بڑھ جائیں گے، پندرہ لاکھ ہوگئے۔ اس لئے میں کہتا ہوں کہ پندرہ لاکھ تک کا معاملہ ہے تو کوئی بات نہیں، اس سے زیادہ کا ہو تب ہی مجھ سے شکایت کیجئے۔  کیا جناردھن مشرا سے باز پرس ہوگی کہ اُنہوں نے ایسا کیوں کہا؟ یا وہ خود اپنی پارٹی اور حکومت کو یہ صلاح دیں گے کہ پندرہ لاکھ تک کی بدعنوانی کو قانونی تحفظ فراہم کیا جائے؟ کیا جناردھن مشرا اپنے حساب کتاب کے مطابق سرپنچ کو پندرہ لاکھ کی چھوٹ کے بعد میونسپل کونسلر یا کارپوریٹر کو اس سے زیادہ یعنی پچاس لاکھ کی، ایم ایل اے کو ایک کروڑ کی اور ایم پی کو پچیس کروڑ کی چھوٹ دلوانا چاہیں گے؟  بدعنوانی کے تئیں بی جے پی اور اس کی مرکزی و متعدد ریاستی حکومتیں جس طرح کا طرز عمل اختیار کئے ہوئے ہیں اس سے ان کی کہنی اور کرنی کا فرق ازخود واضح ہوجاتا ہے۔ ستم ظریفی دیکھئے کہ اگر پارٹی کے کسی ادنیٰ یا اعلیٰ کارکن نے بدعنوانی کو روکنے میں حکومت کی ناکامی کے خلاف کچھ کہا تو اس پر کارروائی ہوگئی۔ اس کا ثبوت مدھیہ پردیش کے بی جے پی لیڈر راج چڈھا ہیں جنہوں نے وزیر اعلیٰ شیو راج چوہان کو مخاطب کرتے ہوئے لکھا تھا کہ ریاست میں بدعنوانی عروج پر ہے۔  یہ کہنا تھا کہ اُنہیں پارٹی سے معطل کردیا گیا۔ یہ ۲۰۱۷ء کی بات ہے جبکہ چڈھا جیسوں کو انعام ملنا چاہئے تھا کہ وہ پارٹی اور حکومت کو خبردار کرکے وزیر اعظم کے نعرے کو حقیقت میں بدلنے کیلئے بیقرار ہیں۔ تو کیا بی جے پی یہ پیغام دینا چاہتی ہے کہ بدعنوانی کے خلاف اس کی جنگ صرف کانگریس اور اپوزیشن کیلئے ہے؟ 

متعلقہ خبریں

This website uses cookie or similar technologies, to enhance your browsing experience and provide personalised recommendations. By continuing to use our website, you agree to our Privacy Policy and Cookie Policy. OK