Inquilab Logo

مزدوروں کی حالت زار پر سیاست کا شرمناک کھیل

Updated: May 24, 2020, 10:53 AM IST | Jamal Rizvi

اس وقت مزدور طبقہ سہ رخی مار جھیل رہا ہے ۔ ایک طرف سیاستدانوں کی سرد مہری ہے تو دوسری طرف مقامی انتظامیہ کا انسانیت سوز رویہ اور تیسری مار جو سب سے بڑی ہے، وہ روزگار کی محرومی کے سبب پیدا ہونے والے مسائل ہیں ۔ غریبوں اور مزدوروں کو در پیش ان مسائل سے نجات دلانے کیلئے حکومت کو ایسی ٹھوس حکمت عملی بنانے کی ضرورت ہے جو فوری طور پر انھیں مالی امداد فراہم کرنے کے ساتھ ہی مستقبل میں ان کیلئے کم از کم دو وقت کی روٹی کا انتظام کر سکے

Migrant Worker - Pic : PTI
مہاجر مزدور ۔ تصویر : پی ٹی آئی

کورونا کی زد میں آنے والوں کی تعداد کو کم سے کم رکھنے کی غرض سے دو ماہ قبل لگائے گئے لاک ڈاؤن نے سب سے زیادہ غریب عوام کو متاثر کیا ہے ۔ملک میں اس وبا کے پھیلاؤ کی رفتار کو دیکھتے ہوئے بلا جھجھک یہ کہا جا سکتا ہے کہ محض چار گھنٹے کی پیشگی اطلاع پر پورے ملک میں نافذ کئے گئے لاک ڈاؤن کا کوئی فائدہ نہیں ہوا ہے۔اگرچہ اس کے اعلان کے وقت بھی وزیر اعظم نے اسی جوش و خروش کا مظاہرہ کیا تھا جو اب سے پانچ برس قبل انھوں نے نوٹ بندی کے فیصلے کے اعلان کے وقت کیا تھا۔ جس طرح ملک کی معیشت اب تک اس ناقص فیصلے کے ضرر رساں اثرات سے باہر نہیں آ سکی ہے، بالکل اسی طرح لاک ڈاؤن کے نفاذ کا فیصلہ بھی کورونا کی روک تھام میں اس طرح سے کارگر نہیں ثابت ہو پارہا ہے کہ جس کی بنا پر حکومت کے اس فیصلے کو درست قرار دیا جا سکے۔پورا ملک اس وقت لاک ڈاؤن کے چوتھے دور سے گزر رہا ہے۔ ملک کی مختلف ریاستوں میں اس بیماری کی صورتحال کو پیش نظررکھتے ہوئے ریاستی حکومتوں نے چوتھے دور کے لاک ڈاؤن میں عوام کو بعض سہولتیں فراہم کی ہیں لیکن ان سب کے درمیان ایک مسئلہ جو تمام ریاستوں میں مشترکہ مسئلے کی حیثیت رکھتا ہے وہ یہ کہ غریب اور مزدور عوام کو اس بیماری سے زیادہ حکومت اور مقامی انتظامیہ کے ذریعے کئے جانے والے ناقص انتظامات نے پریشان کیا ہے ۔افسوس کی بات یہ ہے کہ غریبوں اور مزدوروں کو درپیش مسائل کا کوئی موزوں حل فراہم کرنے کے بجائے ان کے ساتھ سیاسی کھیل کھیلا جا رہا ہے۔ اس کھیل میں اقتدار اور اپوزیشن دونوں اپنی سیاسی روٹیاں سینکنے کو ترجیح دے رہے ہیں۔
 ملک میں پہلے لاک ڈاؤن کے نفاذ سے اب تک تقریباً دو ماہ سے زیادہ کی مدت میں مختلف ریاستوں کے سیکڑوں مزدور حادثات کا شکار ہو کر اپنی جان گنوا چکے ہیں۔ ان حادثات کا سلسلہ اب بھی جاری ہے اور مہاجر مزدوں کو ان کے آبائی وطن تک پہنچانے کیلئے حکومتی سطح پر جو انتظامات کئے گئے ہیں وہ بھی انھیں بہ حفاظت ان کی منزل تک پہنچانے میں بہت زیادہ کارگر نہیں ثابت ہو رہے ہیں۔ کورونا سے محفوظ رہنے کیلئے اپنے روزگار کے ذرائع کو خیر باد کہنے والے یہ مزدور جس طرح کی صعوبتیں برداشت کر کے سیکڑوں میل کا سفر طے کر رہے ہیں، اس کے مد نظر یقینی طور پر یہ نہیں کہا جا سکتا کہ جب وہ اپنی منزل پر پہنچیں گے تو پوری طرح صحت مند رہیں گے۔اس کے علاوہ ان مزدروں کی ہجرت سے یہ خدشہ بھی بڑھ گیا ہے کہ اب تک جو علاقے اس وبا سے محفوظ تھے، وہ بھی اس کی زد میں آسکتے ہیں۔ مختلف ریاستوں سے اپنے آبائی وطن جانے کیلئے پیدل یا دیگر ذرائع کا استعمال کرنے والے ان مزدوروں کی طبی جانچ کا کوئی بندو بست نہ ہونے کے سبب یہ خدشہ بلا سبب نہیں ہے ۔ اس ضمن میں یوپی کے بعض علاقوں سے ایسی خبریں موصول بھی ہوئی ہیں کہ مہاجر مزدوروں کی آمد کے بعد اس علاقہ میں کورونا سے متاثرہ افراد کی تعداد میں اضافہ ہوا ہے ۔
 مزدوروں کی اس ہجرت کو روکنے کیلئے مرکز یا ریاستی حکومتوں کی طرف سے اب تک کوئی معقول بندوبست نہیں کیا گیا ہے۔سوال یہ ہے کہ جن ریاستوں سے ہجرت کر کے یہ مزدور اپنے آبائی وطن پہنچ رہے ہیں وہاں ان کی روزی روٹی کیلئے کیا انتظام ہوگا؟ اس سوال پر غور کرنااسلئے ضروری ہے کہ ان مزدوروں کو جب اپنے آبائی وطن میں روزگار کے معقول وسائل دستیاب نہیں ہوئے ہوں گے تبھی انھوں نے دوسرے شہروں یا ریاستوں میں جا کر محنت مزدوری کرنے کا فیصلہ کیا ہوگا۔ اب جبکہ کورونا کی دہشت نے انھیں آبائی وطن جانے پر مجبور کر دیا ہے تو ایسی صورت میں اس شہر یا ریاست کے وہ تمام کاروبار ٹھپ پڑ جائیں گے جو ان کیلئے حصول معاش کا وسیلہ تھے۔اس ممکنہ صورتحال کے سبب ان ریاستوں کی معاشی حالت بھی غیر یقینی صورت اختیار کر سکتی ہے جو مجموعی طور پر ملک کی معیشت کو اپنی صنعتی و تجارتی سرگرمیوں کے ذریعے تقویت عطا کرتی ہیں۔اسی لئے گزشتہ دنوں کرناٹک حکومت نے ریاست سے جانے والے مزدوروں کو روکنے کی کوشش کی تھی ۔ اگر چہ اس کوشش میں مزدوروں کو روزگار فراہم کرنے اور ان کی جان کی حفاظت کا جذبہ کم اور کارپوریٹ طبقہ کے مفاد کی فکر زیادہ شامل تھی ۔
 کورونا نامی اس وبا نے عالمی سطح پر انسانی معاشرہ کو جس طرح متاثر کیا ہے، اس کے اثرات جلد زائل ہونے والے نہیں ہیں ۔ اگر خصوصی طور سے ہندوستان کے تناظر میں اس وبا کے اثرات پر بات کی جائے تو میڈیکل شعبہ کی غیر اطمینان بخش صورتحال کے علاوہ انتظامی سطح پر جو خامیاں اجاگر ہوئی ہیں وہ یہ ظاہر کرتی ہیں کہ اقتدار کو ان غریب عوام کے مسائل کی مطلق پروا نہیں ہے جن کے نام پر سیاست حصول اقتدار کا موثر ذریعہ ہوتی ہے۔ لاک ڈاؤن کے سبب ملک گیر سطح پر معاشی اور اقتصادی سرگرمیوں  کے ٹھپ پڑجانے کے جو نقصانات ہوں گے وہ بھی بیشتر اسی طبقے کو بھگتنے پڑیں گے۔ ملک کے معاشی نظام کو چست درست رکھنے کی خاطر وزیر اعظم کے ذریعہ گزشتہ دنوں جس راحتی پیکیج کا اعلان کیا گیا، اس میں بھی اس طبقہ کیلئے کچھ ایسا معقول انتظام نہیں ہے جو ایسے ہنگامی حالات میں ان کیلئے کسی حد تک معاشی آسودگی فراہم کر سکے۔ان حالات کے مد نظر یہ کہا جا سکتا ہے کہ غریب اور مزدور طبقہ ایک طرف تو اس وبا کی زد پر ہے اور دوسری جانب اس کیلئے روزی روٹی کا سنگین مسئلہ کھڑا ہو گیا ہے جو طویل مدت تک انھیں مختلف قسم کے مسائل سے دوچار کرے گا۔
  اس وقت یہ طبقہ سہ رخی مار جھیل رہا ہے ۔ ایک طرف تو سیاست دانوں کی سرد مہری ، دوسرے مقامی انتظامیہ کا انسانیت سوز رویہ اور اس پر مستزاد یہ کہ روزگار کی محرومی کے سبب پیدا ہونے والے مسائل ۔ غریبوں اور مزدوروں کو در پیش ان مسائل سے نجات دلانے کیلئے حکومت کو ایسی ٹھوس حکمت عملی بنانے کی ضرورت ہے جو فوری طور پر انھیں مالی امداد فراہم کرنے کے ساتھ ہی مستقبل میں ان کیلئے کم از کم دو وقت کی روٹی کا بندوبست کر سکے۔ افسوس کی بات یہ ہے کہ اس ضمن میں اب تک کوئی مثبت پیش رفت نہیں ہوئی ہے اور حکومت کی ساری توجہ صرف ان کے نام پر سیاست کرنے میںلگی ہے ۔ حکومت اور اپوزیشن ان کے نام پر ایک دوسرے پر جو الزام تراشیاں کر رہے ہیں، اس سے یہ صاف ظاہر ہوتا ہے کہ ان کے مسائل کو حل کرنے سے زیادہ سیاست دانوں کی دلچسپی سیاسی بساط پر کامیابی حاصل کرنے میں ہے ۔اس کی ایک انتہائی افسوس ناک مثال گزشتہ دنوں اس و قت نظر آئی جب مزدوروں سے راہل گاندھی کی ملاقات کو مرکزی وزیر مالیات نے ڈراما قرار دیا۔ اگر چہ راہل کی اس ملاقات سے مزدوروں کے مسائل میں کوئی بڑی کمی اب تک واقع نہیں ہوئی تاہم اسے محض ڈراما کہہ کر مزدوروں کے تئیں ان کی فکر مندی کو یکسر مسترد بھی نہیں کیا جا سکتا۔ سیاسی الزام تراشی کی اس سے اوچھی مثال اور کیا ہو سکتی ہے کہ مزدوروں سے اظہار ہمدردی حکومت کی نظر میں ڈراما بازی ہے ۔
 دہلی، گجرات، ممبئی اور دیگر بڑے شہروں سے ہجرت کرنے والے مزدور اب بھی سفر کی صعوبتوں کو برداشت کر کے کسی نہ کسی طرح اپنے آبائی وطن پہنچنا چاہتے ہیں۔ ان ریاستوں اور مرکزی حکومت کو اس سلسلے میں کچھ ایسے ٹھوس اقدامات کرنے چاہئیں کہ یہ مزدور کسی حادثے کا شکار ہوئے بغیر اپنے وطن پہنچ سکیں۔ اس سے بھی زیادہ ضروری یہ ہے کہ مہاجر مزدور جن ریاستوں میں محنت مزدوری کرتے ہیں وہاں ان کی جان و مال کی حفاظت کا ایسا معقول بندوبست کیا جائے جو انھیں ہجرت سے باز رکھ سکے کیوں کہ ان مزدوروں کی ہجرت کے بعد ملک کے بڑے صنعتی اور تجارتی شہروں میں جو مسائل پیدا ہوں گے وہ وسیع پیمانے پر ملک کی معیشت کو متاثر کریں گے۔عام حالات میں بھی ملک کی معیشت اس قدر مستحکم نہیں تھی کہ وہ سماج کے ہر طبقے کی معاشی ضرورتوں کو بہتر انداز میں پورا کر سکے اور اب جبکہ ملک گیر سطح پر ایسے ہنگامی حالات پیدا ہو گئے ہیں تو ایسی صورت میں مزدوروں کی ہجرت معیشت کیلئے مزید نقصان دہ ثابت ہو سکتی ہے۔ اقتدار کو اس مسئلے پر سیاست کرنے کے بجائے سنجیدگی سے غور کرنا چاہئے اور کوئی نتیجہ خیز حکمت عملی تیار کرنی چاہئے۔

متعلقہ خبریں

This website uses cookie or similar technologies, to enhance your browsing experience and provide personalised recommendations. By continuing to use our website, you agree to our Privacy Policy and Cookie Policy. OK