Inquilab Logo

بحران کا اعتراف کافی نہیں، نمٹنے کی تیاری بھی چاہئے

Updated: May 31, 2020, 11:07 AM IST | Aakar Patel

یہ وقت ہے کہ حکومت چند اہم اور ضروری اقدامات کو یقینی بناکر عوام کو اعتماد میں لے۔ ان میں تاخیر نہیں ہوسکتی کیونکہ آنے والا وقت زیادہ آزمائش ہوگا۔

Migrant Worker - Pic : PTI
مہاجر مزدور ۔ تصویر : پی ٹی آئی

کوئی وباء پھیلی ہوئی ہو تو حکومت کا کیا کردار ہونا چاہئے؟ یہ ایسی آفت ہے جس نے عوام کو اپنی فکر آپ کرنے سے بھی روک دیا ہے۔ کروڑوں لوگوں کا معاش چھن گیا ہے۔ مرکز کا کہنا ہے کہ اب تک ایک کروڑ لوگ بسوں اور ٹرینوں کے ذریعہ اپنے گاؤں واپس جاچکے ہیں۔اس طرح اُنہوں نے، اُس مقام کو خیرباد کہہ دیا ہے جسے اُنہوں نے اپنے معاش کیلئے منتخب کیا تھا، جہاں وہ محنت کرتے اور اس محنت سے ہونے والی آمدنی کا کچھ حصہ خود پر خرچ کرکے بقیہ تمام اپنے گاؤں بھیج دیا کرتے تھے۔ ہم نہیں جانتے کہ کتنے لوگ پیدل چل کر یا سائیکل اور موٹر سائیکل کے ذریعہ اپنے گھروں تک پہنچے۔ اس لاعلمی کی وجہ یہ ہے کہ ہمارے پاس مزدوروں کا کوئی ڈاٹا نہیں ہے۔ ویسے بھی ہم ڈاٹا کے معاملے میں انتہائی غریب ملک ہیں۔ صرف مہاجر مزدور نہیں بلکہ وہ کسان جو کاشتکاری کی چھوٹی چھوٹی زمینوں پر گزارا کرتے ہیں، یومیہ مزدوری پر کام کرنے والے وہ لوگ جن کے پاس اب کام نہیں ہے، وغیرہ، ایسے تمام لوگوں کی تعداد بھی کروڑوں میں ہے۔ اسی طرح وہ بچے جنہیں اسکول میں مڈڈے میل ملتا ہے وہ بھی اپنی اُس خوراک سے محروم ہوگئے ہیں اور ان کی تعداد بھی کروڑوں میں ہے۔ 
 مجموعی طور پر ایسا معلوم ہوتا ہے کہ کم و بیش ۵۰؍ کروڑ ہندوستانی گزشتہ تین ماہ کے حالات اور واقعات سے بُری طرح متاثر ہیں اور اب اُن کیلئے اپنی بقاء کی جنگ بھی خاصی دشوار ہوجائیگی۔ وہ نوبت تو آہی چکی ہے جس میں لوگ غذا کیلئے جھگڑ رہے ہیں اور مردہ جانور کھا رہے ہیں۔حکومت کا فرض یہ ہے کہ وباء کے پھیلاؤ کو روکے جس کیلئے لاک ڈاؤن ضروری تصور کیا گیا مگر لاک ڈاؤن کے اثرات میں آبادی کے بڑے طبقے کی بد حالی شامل ہے جس سے نمٹنے کی ذمہ داری بھی حکومت کو ادا کرنی چاہئے۔
 یہاں حکومت سے میری مراد مرکزی حکومت اور اس کے تمام شعبہ جات ہے۔ حقیقت یہ ہے کہ وسائل اگر کسی کے پاس ہیں تو وہ انہی کے پاس ہیں۔ وسائل میں روپے کی چھپائی بھی شامل ہے۔ حکومتیں ریاستوں میں بھی قائم ہیں مگر اُن کے پاس وسائل کم ہیں اور   اگر وہ وسائل اکٹھا کریں تو یہ بھی ایک حد تک ہی ممکن ہے۔ 
 بہرحال یہ اعتراف کرنا پڑے گاکہ ہم ایک بحران میں ہیں اور اسی وجہ سے اتفاق رائے قائم کرسکتے ہیں لہٰذا ہمیں کسی بھی چیز کو سیاسی موضوع بنانے کی ضرورت نہیں ہے۔ موجودہ بحران بذات خود ایسا موضوع ہے کہ جس سے پورے ملک کا تعلق ہے۔ حکومت اور تمام سیاسی جماعتوں کو یہ اعتراف ہے کہ ہمیں مسائل کا سامنا ہے اور عنقریب مسائل کی یہ صورتحال زیادہ شدید ہوجائیگی۔ ممبئی میں ۹۹؍ فیصد آئی سی یو بیڈ پر مریض موجود ہیں اور وباء بڑھ رہی ہے۔ اگر ہم موجودہ رفتار سے آئندہ ماہ کے حالات کا تصور کریں تو محسوس ہوگا کہ صورتحال کو قابو کرنا ممکن نہیں ہوگا۔ ہمیں فوراً حرکت میں آنا ہوگا اور فوراً سے میری مراد آج ہے۔ سوال یہ ہے کہ کس طرح حرکت ہو؟
 چند روز پہلے مشن جے ہند نامی ایک تنظیم نے درج ذیل مطالبات کئے ہیں: (۱) مہاجرین کو دس دن میں وقار اور حفاظت کے ساتھ واپس پہنچایا جائے اور اُن سے کرایہ وصول نہ کیا جائے۔ اس کیلئے حکومت کو ٹرینوں اور بسوں کا انتظام کرنا ہوگا۔ ریاستی حکومتوں کی بھی ذمہ داری ہے کہ جب وہ کسی اسٹیشن پر پہنچ جائیں تو اُنہیں وہاں سے اُن کے مقام تک پہنچائیں۔ (۲) جن لوگوں میں علامات ظاہر ہوں اُنہیں آسانی سے اور کسی خرچ کے بغیر طبی امداد مل سکے، اس کیلئے اگر نجی طبی اداروں کی خدمات حاصل کرنی ہوں تو حکومت کو اس کا بھی لحاظ رکھنا چاہئے۔ دستیاب سہولتوں میں قرنطینہ کی سہولت بھی ہو اور آئی سی یو بیڈ کی بھی۔ جہاں تک مریضوں کی دیکھ بھال کرنے والے ڈاکٹروں، نرسوں اور دیگر عملے کا تعلق ہے، اُنہیں ایک سال کا طبی اور معاشی کو َر دیا جائے یعنی ایک سال تک حکومت اُن کی سرپرستی کرے۔ (۳) چھ ماہ تک راشن ہر ایک کو میسر ہو۔ ۱۰؍ کلو اناج، ڈیڑھ کلو دال، ۸؍ سو ملی گرام تیل، آدھا کلو شکر، یہ فی کس کوٹہ ہو۔ (۴) منریگا کے تحت روزگار کی ضمانت کو ۱۰۰؍ دن سے بڑھا کر ۲۰۰؍ دن کردیا جائے اور اس سے جڑے ہوئے لوگوں کو یومیہ اُجرت دی جائے۔شہری علاقوں کے لوگوں کو ۱۰۰؍ دن کا کام یومیہ ۴۰۰؍ روپے کے حساب سے دیا جائے۔ مناسب مالی مدد معمر افراد اور معذوروں کو بھی دی جائے۔ (۵) بے روزگاروں کو معاوضہ، کمپنیوں کو تنخواہوں کی ادائیگی کیلئے غیر سودی قرض اور فصلوں کے نقصان پر کسانوں کو معاوضہ دیا جائے یا قیمتوں میں کمی کی بھرپائی کی جائے۔ اسی طرح خوانچہ فروشوں اور چھوٹے دکانداروں کو ۱۰؍ ہزار روپے یکمشت دیئے جائیں تاکہ وہ اپنا کاروبار ازسرنو شروع کرسکیں۔ (۶) پہلے مکان کی خریداری کیلئے قرض لینے والوں سے تین ماہ تک سود وصول نہ کیا جائے، چھ ماہ کی سود معافی مدرا شیشو جیسے قرضوں پر بھی ہو جو چھوٹا موٹا کاروبار شروع کرنے والوں کو دیا جاتا ہے اور عرضی داخل کرنے پر ’’کراپ (فصل) لون‘‘ کا اعلان کیا جائے۔ (۷) کسی بھی دوسرے خرچ سے پہلے ان (مذکورہ) اخراجات کو منظوری دی جائے۔ یہ حکومت کی ترجیحات ہوں جو کہ ان حالات میں نہایت ضروری ہیں۔ مرکزی حکومت کو چاہئے کہ ہر ممکن طریقے سے وسائل مجتمع کرے اور ان وسائل کا نصف ریاستوں کو فراہم کرے۔ 
 اس مطالبات نامے میں جو کچھ بھی کہا گیا ہے اس سے کسی کو اختلاف نہیں ہوسکتا۔ آئندہ چھ ماہ میں عوام کے مختلف طبقات کو جس مدد کی ازحد ضرورت ہوگی وہ یہی ہےاور یہ کچھ بہت زیادہ نہیں ہے۔ کم از کم اتنی مدد حکومت کی جانب سے ملنی ہی چاہئے۔
 ہم نہیں جانتے کہ ۲۰۲۱ءمیں کیا ہوگا مگر ہمیں اپنے عوام کو اتنا سہارا تو دینا ہی ہوگا کہ وہ بحسن و خوبی ۲۰۲۱ء تک پہنچ سکیں۔ عوام کو اعتماد میں لینا بھی ایک اہم ذمہ داری ہے جس پر حکومت کی توجہ مرکوز رہنی چاہئے۔ ایسےشدید بحران میں حکومت کی صلاحیت کو بھی آزمائش سے گزرنا ہے۔ اخلاقی طاقت کے ذریعہ ہی قانون کے نفاذ اور اس کی پاسداری کو ممکن بنایا جاسکتا ہے۔ خوف کے ذریعہ نہیں۔ اگر کسی شخص کے بچے بھوک سے نڈھال ہوں اور وہ شخص گھبرایا ہوا ہو تو اسے فوری طورپر غذا فراہم کرنی ہوگی اور اس کی گھبراہٹ کو دور کرنا ہوگا۔ ایسے عالم میں جبکہ بہت سارے لوگ گھبراہٹ میں مبتلا ہوں، راحت رسانی ہر طبقے کیلئے ہو اور بلا تاخیر ہو تب ہی بات بن سکتی ہے۔ ۲۸؍ مئی کو سونیا گاندھی نے بھی مطالبہ کیا کہ ہر غریب خاندان کو ماہانہ ساڑھے ۷؍ ہزار روپے فراہم کئے جائیں۔ اُنہوں نے منریگا کی اُجرت کو بھی ۱۰۰؍ سے ۲۰۰؍ روپے کرنے کا مطالبہ کیا ہے۔
 وابستگانِ ’’ مشن جے ہند‘‘ میں کئی بہت اہم شخصیات بھی ہیں مگر اس کی اتنی اہمیت نہیں جتنی اس بات کی ہے کہ ہم اس کے مطالبات کی تائید کریں تاکہ حکومت انہیں بلاتاخیر منظور کرے۔ یہ وقت کی اہم ترین ضرورت ہے

متعلقہ خبریں

This website uses cookie or similar technologies, to enhance your browsing experience and provide personalised recommendations. By continuing to use our website, you agree to our Privacy Policy and Cookie Policy. OK