Inquilab Logo

آخر کیوں بلے بازوں کی قدر زیادہ ہے، گیند بازوں کی کم؟

Updated: October 02, 2022, 10:44 AM IST | Aakar Patel | Mumbai

دُنیا کے مختلف ممالک یہی کرتے ہیں، آئی سی سی کا بھی یہی رجحان ہے مگر کبھی کوئی سوال نہیں کرتا۔ کیا گیند باز کھلاڑی نہیں؟ اُن کے ساتھ سوتیلا سلوک کب تک جاری رہے گا؟

British media and cricket players have objected to the Indian team`s victory in the India vs England women`s cricket match at Lord`s
برطانوی ذرائع ابلاغ اور کرکٹ کھلاڑیوں کو لارڈس کے میدان پر انڈیا بمقابلہ انگلینڈ خواتین کرکٹ مقابلے میں ہندوستانی ٹیم کی فتح پر اعتراض ہے

طانوی ذرائع ابلاغ اور کرکٹ کھلاڑیوں کو لارڈس کے میدان پر انڈیا بمقابلہ انگلینڈ خواتین کرکٹ مقابلے میں ہندوستانی ٹیم کی فتح پر اعتراض ہے۔ تنازع دپتی شرما کے بارے میں ہے جس سے کرکٹ شائقین بخوبی واقف ہیں۔ دیکھا جائے تو اس سلسلے میں انٹرنیشنل کرکٹ کونسل(آئی سی سی)کا جو قانون ہے وہ بالکل صاف اور واضح ہے۔ درحقیقت ۲۰۱۷ء میں اس کی وضاحت اُس وقت بھی ہوئی تھی جب معاملہ آر اشون کے حق میں فیصل ہوا تھا۔ سابقہ ایم ایم سی ضابطوں کے مطابق گیند بازکو نان اسٹرائیکر اینڈ پر موجود بلے بازکو آؤٹ کرنے کی اجازت اس وقت تھی جب وہ کریز چھوڑ کرآگے بڑھ جائے،اس وقت امپائر نان اسٹرائیکرپر موجود بلے باز کو آؤٹ قرار دے گا۔ دپتی شرما نے اسی ضابطہ پر عمل کیا مگر اسی وجہ سے اُنہیں ہدف تنقید بنایا جارہا ہے۔ اس میں شک نہیں کہ بلے بازوں پر لازم نہیں ہے کہ وہ گیند بازوں یاوکٹ کیپرس کو پہلے سے متنبہ کریں یا مطلع کریں کہ وہ اگلی گیند پر کریز سے باہر نکلنے کا ارادہ رکھتے ہیں۔ آخر وہ ایسا کیوں کریں؟ مگر، ایسا اس لئے کہا جارہا ہے کہ کرکٹ کے دولت مشترکہ میں گیند باز کو دوسرے درجے کا شہری سمجھا جاتا ہے۔ گیند بازوں کو دباؤ میں لینے کیلئے ضابطے بدلے جاتے ہیں یا نئے سرے سے لکھے جاتے ہیں۔ مذکورہ ضابطے کی منطق بھی یہی ہے۔ ہمیں اکثر کہا جاتا ہے کہ کرکٹ بلے بازوں کا کھیل ہے۔ آئی سی سی نے نہایت تیزی سے گیند بازوں کیلئے مشکلات پیدا کی ہیں اور یہ عمل پریشان کن ہے۔ گیند باز ایل بی ڈبلیو کا دعویٰ کرسکتا ہے اگر بلے باز اسٹمپ اور گیند کے درمیان آجائے لیکن قانون یا ضابطہ بلے باز کو بچا لیتا ہے اگر گیند لیگ اسٹمپ کی طرف جائے یا آف اسٹمپ کے باہر آکر اُسے (گیند باز کو) لگے۔  (یہ ضابطہ ۱۹۷۰ء کی دہائی میں وضع کیا گیا تھا)۔ آپ جانتے ہوں گے کہ تیز گیند بازوں کیلئے بھی ضابطہ بدلا گیا تھا۔ یہ ۱۹۶۰ء کی دہائی میں ہوا تھا جس کے تحت گیند باز کو کریز کے کافی پیچھے دھکیلا گیا تھا۔ باؤنسرس کی حد کا مقرر کیا جانا حالیہ واقعہ ہے۔ ایک باؤنسر کے بعد ہی گیند باز کو متنبہ کردیا جاتا ہے اس لئے کرکٹ کے اہم میچوں میں اس کی وجہ سے سنگین چوٹ لگنے کے واقعات شاذونادر ہی ہوتے ہیں۔ 
 یہ بھی توجہ طلب ہے کہ جتنے بھی قوانین بنائے جاتے ہیں وہ گیند بازوں ہی کیلئے ہوتے ہیں۔ مثال کے طور پر ۳۰؍ گز کا دائرہ یا لیگ سائڈ کی پابندیاں۔ یک روزہ میچوں میں دو گیندیں ہوتی ہیں، ایک ایک دونوں جانب تاکہ اُن کی سختی برقرار رہے اور اُن کا مقابلہ آسان ہوجائے۔ یہ بھی توجہ طلب ہے کہ بلے بازوں کو تسلسل کے ساتھ نوازا جاتا ہے اور گیند بازوں کو سزا دی جاتی ہے بالخصوص اُن نئے ضابطوں کے ذریعہ جن میں فری ہٹ، فرسٹ فار فرنٹ فٹ نو بال اور پھر ۲۰۱۵ء کے بعد تمام نوبالس شامل ہیں۔ گیند باز غلطی کرے تو سزا فوراً دی جاتی ہے مثلاً نو بال، وائڈ بال وغیرہ، لیکن بلے بازوں کو سزا نہیں ہوتی۔ سزا دی بھی گئی تو وہ وارننگ تک محدود رہتی ہے۔ بلے باز ہی کو ’’رنر‘‘ بھی دیئے جاتے ہیں، اگر وہ زخمی ہوکر پویلین لوٹ جائے تو واپس کریز پر آنے کی بھی اُسے اجازت ہوتی ہے یا فوراً ہی بلا لیا جاتا ہے لیکن گیند بازوں کیلئے یہ سہولت نہیں ہے۔ یکروزہ میچوں اور ٹی ۲۰ ؍ میںگیند بازوں کو محدود اوور دیئے جاتے ہیں لیکن بلے باز کتنے بھی اوور بلے بازی کرسکتا ہے۔ گیند بازوں کو دباؤ میں لینے کے ایسے واقعات عام ہیں۔ انہیں مزید دباؤ میں لینے کا سلسلہ بھی جاری رہتا ہے۔ ایسا لگتا ہے کہ ڈی آر ایس سسٹم گیند بازوں کے مفاد میں ہے مگر واقعتاً ایسا نہیں ہے۔      
 ۲۰۱۷ء کے ایک مطالعے سے ظاہر ہوتا ہے کہ ڈی آر ایس کا   فیصلہ ۲۰؍ فیصد مرتبہ گیند بازوں کے حق میں ہوا جبکہ بلے بازوں کے حق میں ۳۴؍ فیصد ۔ اس سسٹم کا پروٹوکول بھی بلے بازوں ہی کی مدد کرتا ہے۔ کسی فیصلے پر وہ نظر ثانی کی درخواست کرسکتا ہے مگر گیند باز کو کپتان سے اپیل ہی کرنی پڑتی ہے۔
 یہ بھی دیکھئے کہ بلے بازی کی جتنی بھی تکنیک ہیں، مثلاً سوئچ ہٹس، ریورس ہٹس وغیرہ، یہ سب قابل قبول ہیں بلکہ ان کا جشن منایا جاتا ہے، اس کے برخلاف گیند بازوں کی کسی بھی تکنیک کو دھوکہ دہی یا چیٹنگ سمجھا جاتا ہے۔ گریگ چیپل نے جب نیوزی لینڈ کے خلاف اپنے بھائی کو انڈر آرم بولنگ کی ہدایت دی تھی تو وہ غلط نہیں بلکہ قانون کے دائرہ میں تھا مگر اُن پر کافی الزام تراشی ہوئی تھی۔ 
 اگر کچھ ضابطے گیند بازوں کو براہ راست دباؤ میں نہیں لیتے تو کچھ دوسری چیزوں کے ذریعہ اُن پر دباؤ بنایا جاتا ہے۔ آسٹریلیا نے ۲۰۰۹ء میں ’’دوسرا‘‘ کو ممنوع قرار دیا اور یہ جواز پیش کیا تھا کہ یہ  ’’چکنگ‘‘ ہے جس کی اجازت نہیں دی جاسکتی۔ 
 ایک اور مسئلہ ٹیکنالوجی کے استعمال کا ہے۔ اس کے ذریعہ بھی   بلے بازوں ہی کو ترجیح ملتی ہے۔ جب ڈینس للی المونیم کا بلہ لے کر آئے تو اُن پر تنقیدیں کی گئیں مگر اب ایسے بلے آگئے ہیں اور استعمال کئے جارہے ہیں جو لکڑی کے نہیں ہیں جیسے بلے بریڈ مین، سوبرس حتیٰ کہ گاوسکر استعمال کرتے تھے۔ آپ محسوس کررہے ہوں گے کہ گیند باز کچھ کرے تو دھوکہ یا چیٹنگ اور بلے باز کچھ کرے تو  اس کی ہر بات قبول بلکہ اسے ہر طرح کے مواقع دیئے جاتے ہیں۔ بعد کے دور میں کئی بلے بازوں کی رینکنگ بہتر ہوئی محض اس لئے کہ ٹیکنالوجی کے ذریعہ اُن کی مدد ہوئی۔ گیند بازوں کو تحقیر کی نگاہ سے دیکھنے کا سلسلہ ہیرالڈ لارووڈ کے دور سے شروع ہوا جنہیں باڈی لائن کیلئے سزا دی گئی تھی۔ہمارے ملک میں بھی بولرس کی تحقیر ہوتی ہے، قدرومنزلت یا عزت افزائی نہیں۔ اگر آپ ہر دور کے کھلاڑیوں کو ملا کر ایک ٹیم بنانا چاہیں (انڈین الیون) تو بلے باز عالمی سطح کے ملیں گے (مثلاً گاوسکر، سہواگ، کوہلی ،تینڈولکر اور دراوڑ وغیرہ) مگر عالمی سطح کے گیند باز نہیں۔ کپل دیو، کمبلے، ہربھجن اور اشون سب سے زیادہ وکٹ لینے والے گیند بازوں میں سے ہیں۔ ان میں سے اولین تین کھلاڑیوں کا اوسط ایک وکٹ پر ۳۰؍ رن کا ہے۔ وہ آسٹریلوی کھلاڑیوں، ویسٹ انڈیز کے کھلاڑیوں حتیٰ کہ پاکستانی کھلاڑیوں کے بھی ہم پلہ نہیں قرار پائے ہیں۔ ہر دور کی بہترین بولنگ کی صف میں سب سے زیادہ قابل قدر گیند باز (جسپریت بمراہ) ۳۵؍ ویں رینک پر ہیں جبکہ ہمارا دوسرا کھلاڑی ۷۲؍ ویں رینک پر آتا ہے، وہ  آر اشون  ہے۔ اگر ہم عالمی سطح پر کوئی کارنامہ انجام نہیں دے سکے ہیں تو اس کی وجہ بھی یہی ہے کہ دُنیا کی طرح ہم خود بھی اپنے بولرس کو خاص اہمیت نہیں دیتے۔ ہم بھی شک کا فائدہ ہمیشہ بلے باز کو دیتے ہیں، گیند باز کو نہیں۔ کوئی پوچھے کہ ایسا کیوں ہےتو خاموشی چھا جائے گی، کوئی جواب نہیں ملے گا۔ کیا یہ خاموشی اقبال جرم ہے؟ n 

india team Tags

متعلقہ خبریں

This website uses cookie or similar technologies, to enhance your browsing experience and provide personalised recommendations. By continuing to use our website, you agree to our Privacy Policy and Cookie Policy. OK