Inquilab Logo

اللہ تعالیٰ پر ایمان و ایقان کے بعد بندہ، مخلوقات کے خوف سے آزاد ہوجاتا ہے

Updated: January 15, 2021, 11:31 AM IST | Maolana Khalid Saifullah Rehmani

جب خدا نے اس کائنات کو بھی بنایا ہے اور انسان کو بھی ، تو اس دنیا کی چیزوں کو اسے کس طرح استعمال کرنا چاہئے اور خود اس کو اپنی زندگی کس طورپر گزارنی چاہئے؟ اس کے لئے اسے خدا کی رہنمائی کی ضرورت ہے۔

Muslim - Pic : INN
مسلم ۔ تصویر : آئی این این

مسلمان جس مذہب پر یقین رکھتے ہیں اس کے دو نام ہیں: اسلام اور ایمان۔ اسی لحاظ سے مسلمانوں کے بھی دو نام ہیں: مسلم اور مومن۔ اسلام کے معنی اپنے آپ کو حوالہ کردینے کے ہیں۔ یہ عربی گرامر کے لحاظ سے سِلم اور سَلام سے ماخوذ ہے جس کے معنی صلح، سلامتی اور خودحوالگی کے ہیں۔ اسی سے مسلم ہے یعنی ایسا شخص جو صلح کو پسند کرنے والا ہو اور اپنے آپ کو خدا کے حوالے کردینے والا ہو۔ ایمان ’امن‘ سے ماخوذ ہے، امن کے معنی ہیں دوسرے کو امن دینا، یقین کرنا، اسی سے مومن ہے۔ مومن کے معنی ہوئے امن دینے والا، یقین کرنے والا۔ غور کیجئے تو اسلام اور ایمان ان دونوں میں امن، سلامتی، صلح اور خدا کے احکام کے سامنے جھک جانے کے معنی پائے جاتے ہیں۔ یہی اسلام کی تمام تعلیمات کا خلاصہ ہے۔ قرآن مجید ہمیں بتاتا ہے کہ اسلام کی ابتداء، پہلے پیغمبر حضرت آدم علیہ السلام سے ہوئی۔ پہلے انسان، پہلے مسلمان بھی تھے۔ تاریخ کے مختلف ادوار میں جتنے پیغمبر گزرے ہیں وہ سب اپنے اپنے زمانے میں اسلام کی دعوت دینے والے تھے اور جن لوگوں نے ان کی دعوت قبول کی وہ سب مسلمان تھے، کیونکہ مسلمانوں میں وہ سب لوگ شامل ہیں جو خدا کے احکام کے سامنے سر جھکا دیں۔  ایسا نہیں ہے کہ اسلام کی ابتداء محمد رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم سے ہوئی ہے، اسی لئے سرکار دوعالم ﷺ نے مسلمانوں کے لئے اپنے نام کی نسبت سے کوئی نام منتخب نہیں فرمایا اور اپنے ماننے والوں کو ’محمدی‘ یا’محمڈن‘ نہیں کہا بلکہ انہیں ’مسلم‘ اور ’مومن‘ کا نام دیا گیا جن کو عام طور پر مسلمان کہا جاتا ہے۔
خدا ایک ہے
  ہم جس کائنات میں رہتے ہیں اس کو ہم نے پیدا نہیں کیا ہے بلکہ ہم نے خود اپنے آپ کو بھی نہیں بنایا ہے۔ کوئی طاقت ہے جس نے اس کائنات کو بھی پیدا کیا ہے اور ہمیں بھی۔ پھر غور کیجئے تو اس دنیا میں ساری چیزیں ایک توازن کے ساتھ پائی جاتی ہیں۔ انسان کو آکسیجن کی ضرورت ہے۔ آلودہ گیسیں انسان کے لئے نقصاندہ ہیں مگر یہی گیسیں درختوں کی خوراک ہیں، وہ ان گیسوں کو صاف کرکے انسان کے لئے آکسیجن فراہم کرتے ہیں۔ ہر مقام کی ضرورت کے لحاظ سے بارش ہوتی ہے، ریگستانوں میں بارش کم ہوتی ہے، جنگلات میں زیادہ ہوتی ہے، کیونکہ نباتات کو پانی کی زیادہ ضرورت ہے۔ مقررہ اوقات کے مطابق ہی دن  رات کی آمد و رفت ہوتی ہے۔ کائنات کے افق میں اربوں سیارے تھوڑی دیر کے لئے بھی رُکے بغیر گردش کررہے ہیں، لیکن تیزرفتاری کے باوجود ان کے درمیان کبھی تصادم نہیں ہوتا۔ سورج اتنی حرارت خارج کرتا ہے کہ اگر وہ جوں کی توں زمین پر پہنچ جائے تو زمین جل کر بھسم ہوجائے، کیونکہ ایک سیکنڈ میں سورج جو حررات خارج کرتا ہے اس کی مقدار دس لاکھ ایٹم بم سے بھی زیادہ ہے۔  زمین کے چاروں طرف ہوا کا ایک ایسا غلاف تان دیا گیا ہے کہ وہ ان بے  پناہ حرارتوںکو جذب کرلیتا ہے اور انسان کی ضرورت کے بقدر ہی زمین پر پہنچنے دیتا ہے۔ غرض کہ پوری کائنات ایک مربوط اور متوازن نظام کے ساتھ چل رہی ہے۔
 اس سے معلوم ہوا کہ کوئی بالاتر ہستی ہے جس نے کائنات کو پیدا کیا ہے اور وہ مسلسل اس کا انتظام بھی کررہی ہے۔ اس ہستی کا نام خدا ہے اور وہ ایک ہی ہے۔ اگر کئی لوگ مل کر کائنات کا نظام چلاتے تو ٹکراؤ سے بچ نہیں پاتے اور کائنات کے نظام میں اس وقت جو یکسانیت ہے وہ برقرار نہیں رہ پاتی، چنانچہ قرآن مجید نے خدا کی ہستی کا تعارف کراتے ہوئے کہا ہے:
 ’’اللہ، وہ زندہ جاوید ہستی (ہے)، جو تمام کائنات کو سنبھالے ہوئے ہے، اُس کے سوا کوئی خدا نہیں ہے وہ نہ سوتا ہے اور نہ اُسے اونگھ لگتی ہے زمین اور آسمانوں میں جو کچھ ہے، اُسی کا ہے، کون ہے جو اُس کی جناب میں اُس کی اجازت کے بغیر سفارش کر سکے؟ جو کچھ بندوں کے سامنے ہے اسے بھی وہ جانتا ہے اور جو کچھ اُن سے اوجھل ہے، اس سے بھی وہ واقف ہے اور اُس کی معلومات میں سے کوئی چیز اُن کی گرفت ادراک میں نہیں آسکتی الا ّ یہ کہ کسی چیز کا علم وہ خود ہی اُن کو دینا چاہے، اُس کی حکومت آسمانوں اور زمین پر چھائی ہوئی ہے اور اُن کی نگہبانی اس کے لئے کوئی تھکا دینے والا عمل یا کام نہیں ہے، بس وہی ایک بزرگ و برتر ذات ہے ۔‘‘ (البقرہ:۲۵۵)
 اسلام میں خدا کے ایک ہونے کا مطلب یہ ہے کہ اس کی ذات بھی ایک ہے اور وہ اپنی صفات میں بھی یکتا ہے۔ وہی پیدا کرتا ہے،  وہی موت دیتا ہے، انسان اسی کے حکم سے بیمار پڑتا ہے اور اسی کے حکم سے شفا حاصل ہوتی ہے۔ وہی روزی دینے والا ہے ، اسی کے حکم سے کسی کی روزی بڑھتی ہے اور اسی کے حکم سے کسی کی کم ہوتی ہے۔ یہ تصور انسان کو ایک تقدس عطا کرتا ہے، وہ (انسان) سمجھتا ہے کہ اس کی پیشانی صرف اللہ کے سامنے جھکنے کے لئے ہے۔ تب وہ مخلوقات کے خوف کے وہم سے آزاد ہوجاتا ہے، پھر یہ یقین اس کے اندر کائنات کے بارے میں تحقیق کا جذبہ پیدا کرتا ہے۔ کیونکہ وہ سمجھتا ہے کہ خدا نے یہ ساری چیزیں اس کی خدمت کے لئے پیدا کی ہیں۔ جب انسان کسی چیز کو اپنا خادم سمجھتا ہے تو اس کے بارے میں تحقیق اور جستجو سے کوئی جھجھک نہیں ہوتی۔ اور اگر وہ کسی چیز کو اپنا معبود سمجھ لے تو احترام کا تقاضا ہوتا ہے کہ وہ اس کی کھوج میں نہ پڑے۔
رسول اور کتاب
  جو کسی چیز کا بنانے والا ہوتا ہے، وہی اس کے استعمال کے طریقے اور اس کے نفع و نقصان کے پہلوؤں سے بھی واقف ہوتا ہے۔ جب خدا نے اس کائنات کو بھی بنایا ہے اور  انسان کو بھی ، تو اس دنیا کی چیزوں کو اسے کس طرح استعمال کرنا چاہئے اور خود اس کو اپنی زندگی کس طورپر گزرنی چاہئے؟ اس کے لئے اسے خدا کی رہنمائی کی ضرورت ہے۔ چنانچہ اللہ تعالیٰ نے انسانوں کی رہنمائی کے لئے دو انتظام فرمائے، ایک یہ کہ ہر قوم میں اپنا پیغمبر بھیجا اور دوسرے: پیغمبر کے ذریعے اپنی کتاب بھیجی اور پیغمبر کو ذمہ داری دی گئی کہ وہ اللہ کے بندوں تک اللہ کی کتاب پہنچائیں، انہیں سمجھائیں اور خود اللہ کے احکام پر عمل کرکے لوگوں کے سامنے عملی نمونہ پیش کریں۔ کیونکہ کوئی حکم جب عمل کے سانچے میں ڈھل جاتا ہے تو لوگوں کیلئے اس کا سمجھنا آسان ہوجاتا ہے، نیز ہر قوم میں ان ہی کی زبان کا بولنے والا پیغمبر بھیجا گیا اور اسی زبان میں خدا کی کتاب اتاری گئی۔ چنانچہ قرآن مجید میں فرمایا گیا:
 ’’ہم نے اپنا پیغام دینے کے لئے جب کبھی کوئی رسول بھیجا ہے، اُس نے اپنی قوم ہی کی زبان میں پیغام دیا ہے تاکہ وہ انہیں اچھی طرح کھول کر بات سمجھائے، پھر اللہ جسے چاہتا ہے بھٹکا دیتا ہے اور جسے چاہتا ہے ہدایت بخشتا ہے، وہ بالا دست اور حکیم ہے ۔‘‘ (ابراہیم:۴)
 یہ پیغمبر انسان ہی ہوا کرتے تھے۔ ان کو خدا کی طرح پیدا کرنے، مارنے، روزی دینے، روزی سے محروم کرنے، بیمار کرنے اور صحت دینے کا کوئی اختیار نہیں تھا۔وہ بھی اپنی ضرورتوں کے لئے خدا ہی کے سامنے ہاتھ پھیلاتے تھے، البتہ ان کو یہ بزرگی اور عظمت حاصل تھی کہ ان پر اللہ کا کلام اترتا تھا اور اللہ نے اپنا پیغام بندوں تک پہنچانے کے لئے ان کو منتخب کیا تھا، چنانچہ نبی کریم سے قرآن مجیدنے کہلایا ہے:
 ’’اے محمدؐ، کہو کہ میں تو ایک انسان ہوں تم ہی جیسا، میری طرف وحی کی جاتی ہے کہ تمہارا خدا بس ایک ہی خدا ہے، پس جو کوئی اپنے رب کی ملاقات کا امیدوار ہو اسے چاہئے کہ نیک عمل کرے اور بندگی میں اپنے رب کے ساتھ کسی اور کو شریک نہ کرے ۔‘‘(الکہف:۱۱۰)
 ایک اور موقع پر فرمایا گیا کہ رسول، اللہ کے حکم کے بغیر کوئی نشانی نہیں لاسکتے:
 ’’تم سے پہلے بھی ہم بہت سے رسول بھیج چکے ہیں اور اُن کو ہم نے بیوی بچوں والا ہی بنایا تھا اور کسی رسول کی بھی یہ طاقت نہ تھی کہ اللہ کے اذن کے بغیر کوئی نشانی خود لا دکھاتا ہر دور کے لئے  ایک کتاب ہے ۔‘‘ (الرعد:۳۸)
 رسولوں کے بارے میں یہ بات فرمائی گئی کہ ان کا کام صرف اللہ کے پیغام کو اچھی طرح پہنچا دینا ہے:
 ’’رسول پر تو صرف پیغام پہنچا دینے کی ذمہ داری ہے، آگے تمہارے کھلے اور چھپے سب حالات کا جاننے والا اللہ ہے ۔‘‘  (المائدہ:۹۹)
 چونکہ رسول، اللہ کے پیغمبر ہوتے ہیں اور انسان کو بتاتے ہیں کہ کن باتوں سے کائنات کا مالک خوش ہوتا ہے اور کن باتوں سے ناراض ہوتا ہے، اس لئے انسانوں پر یہ بات لازم ہے کہ وہ پیغمبر کی اطاعت کریں:
 ’’(انہیں بتاؤ کہ) ہم نے جو رسول بھی بھیجا ہے اس لئے بھیجا ہے کہ اذن خداوندی کی بنا پر اس کی اطاعت کی جائے اگر انہوں نے یہ طریقہ اختیار کیا ہوتا کہ جب یہ اپنے نفس پر ظلم کر بیٹھتے تھے تو تمہارے پاس آ جاتے اور اللہ سے معافی مانگتے، اور رسول بھی ان کے لئے معافی کی درخواست کرتا، تو یقیناً اللہ کو بخشنے والا اور رحم کرنے والا پاتے ۔‘‘ (النساء:۶۴)
محمد رسول اللہ ﷺ
 پیغمبروں کا یہ سلسلہ محمد رسول اللہ ﷺپر مکمل ہوگیا۔  اب آپ ﷺکے بعد کوئی پیغمبر نہیں آسکتا۔ قرآن مجید نے اس بات کو صراحت کے ساتھ کہا ہے :
 ’’(لوگو) محمدؐ تمہارے مَردوں میں سے کسی کے باپ نہیں ہیں، مگر وہ اللہ کے رسول اور خاتم النبیین ہیں، اور اللہ ہر چیز کا علم رکھنے والا ہے ۔‘‘ (الاحزاب:۴۰)
 البتہ انسان کی رہنمائی کے لئے اللہ کی طرف سے دو خصوصی انتظامات کئے گئے۔ ایک یہ کہ آپ ﷺپر نازل ہونے والی کتاب، قرآن مجید مکمل طور پر محفوظ کر دی گئی۔ ان میں آپﷺ کے عہد سے لے کر آج تک کہیں ایک حرف کی کوئی تبدیلی نہیں آئی۔ ہر سال ہندوستان میں قرآن مجید کے ایک کروڑ سے زیادہ نسخے چھپتے ہیں۔ دوسرے ممالک اس کے علاوہ ہیں۔ کوئی مسلمان ایسا نہیں جس کے گھر میں یہ کتاب موجود نہ ہو۔ اور یہ کتاب ہر وقت ہر شخص کے لئے پہلے بھی دستیاب تھی ۔ ان نسخوں میں کہیں ایک نقطہ اور زبر زیر کا بھی فرق نہیں پایا جاتا۔ دوسرے: آپ ﷺ  کے ارشادات اور آپؐ کی حیات مبارکہ کے حالات کو اس طرح محفوظ کر دیا گیا ہے کہ انسان بچپن سے لے کر بڑھاپے تک اور صبح سے لے کر رات تک زندگی کے ہر لمحہ اور ہر مرحلہ کے لئے آپؐ کی حیات مبارکہ سے روشنی حاصل کرسکتا ہے۔ اسلئے پیغمبر کے آنے کا  سلسلہ باقی نہ رہنے کے باوجود  ہر وہ شخص جس میں سیکھنے کی تمنا اور جاننے کی آرزو ہوگی، وہ دونوں مآخذ سے اپنی زندگی کے بارے میں خدا کی مرضی بآسانی جان سکتا ہے۔

متعلقہ خبریں

This website uses cookie or similar technologies, to enhance your browsing experience and provide personalised recommendations. By continuing to use our website, you agree to our Privacy Policy and Cookie Policy. OK