Inquilab Logo

یہ جو تیرے نظر آتے ہیں سب تیرے نہیں

Updated: June 11, 2022, 11:53 AM IST | Shahid Latif | Mumbai

نپور اور نوین جندل کے پیدا کردہ بحران میں عالم یہ ہے کہ جب ان دو ترجمانوں کے خلاف پارٹی نے کارروائی کی تو تعاقبی بھیڑ (ٹرولرس) نے پارٹی اور حکومت کو بھی نہیں بخشا اور ان کیخلاف کافی طومار باندھا۔

Picture.Picture:INN
علامتی تصویر۔ تصویر: آئی این این

جن ایک بار بوتل سے باہر آجائے تو اُسے دوبارہ بوتل میں مقید کرنا کس قدر دُشوار ہوجاتا ہے یہ اُن لوگوں سے پوچھنا چاہئے جنہوں نے سوشل میڈیا پر ہنگامہ برپا کرنے والوں کو شہ دی، اُنہیں روکنا یا اُن کی سرگرمیوں پر نظر رکھ کر کارروائی کرنا ضروری نہیں سمجھا۔ نپور شرما اور نوین جندل کے متنازع بیان سے پیدا شدہ بحران بالخصوص مسلم ملکوں کے شدید ردعمل کے پیش نظر جب اِن دو ترجمانوں کے خلاف معمولی کارروائی کی گئی یعنی ایک کو معطل اور دوسرے کو پارٹی سے نکال دیا گیا تو اُن کے دفاع میں سوشل میڈیا پر ایک بہت بڑی بھیڑ اُمڈ آئی۔ سیکولر نظریات رکھنے والوں کا تعاقب کرنے اور اُنہیں بُرا بھلا کہنے والی یہ بھیڑ اب حکومت اور حکمراں جماعت کے خلاف بھی لعن طعن کرنے لگی۔ ایسا پہلے کبھی نہیں ہوا تھا مگر اَب جو ہوا وہ اس لئے ہوا ہے کہ مغلظات بکنے والی یہ ’’تعاقبی بھیڑ‘‘ اس قدر حوصلہ پاچکی ہے کہ اب کسی کے بھی خلاف جانے سے نہیں ڈرتی۔
 ایک ہوتا ہے قانون کا ڈر۔ دوسرا ہوتا ہے سماج کا ڈر۔ اس ’’تعاقبی بھیڑ‘‘ کو نہ تو قانون کا ڈر ہے نہ ہی سماج کا۔ قانون کا ڈر اس لئے نہیں ہے کہ قانون ان کی جانب دیکھنا ہی نہیں چاہتا۔ سماج کا ڈر اس لئے نہیں ہے کہ سماج کے اکثر لوگ اپنی زندگی سے باہر دیکھنے کو تیار نہیں ہیں۔ اب سے چند برس قبل سوشل میڈیا کے مضر اثرات کی کہانیاں اخبارات یا ویب سائٹس پر شائع ہوتی تھیں۔ مثلاً کوئی طالبہ سوشل میڈیا پر فعال ہوئی تو ابتداء میں بہت خوش تھی اور اسے نعمت غیر مترقبہ سمجھ رہی تھی مگر رفتہ رفتہ مختلف قسم کے منفی خیالات اور احساسات اُس کے دل ودماغ پر اثر کرنے لگے۔ وہ احساس کمتری میں مبتلا ہونے لگی۔ اس کی ذاتی اور پیشہ جاتی زندگی شدید طور پر متاثر ہوئی۔ پھر اسے ہوش آیا کہ میں کہاں جارہی ہوں۔ تب اس نے سوشل میڈیا سے دور ہونے میں عافیت محسوس کی اور جب اپنے فیصلے پر عمل کیا تو اس کی زندگی میں مثبت تبدیلیاں آنے لگیں جس کے نتیجے میں وہ معمول کی زندگی گزارنے کے قابل ہوئی۔  ایسی لاتعداد کہانیاں کہیں بہت دور نہیں، ہمارے آس پاس بھی موجود ہیں۔بالائی سطور میں بیان کیا گیا سوشل میڈیا کا منفی اثر مضر ہے مگر اتنا مضر نہیں جتنا ذہنی و نفسیاتی طور پر تباہ کن اُن لوگوں کے حق میں ثابت ہوا جو ’’تعاقبی بھیڑ‘‘ کے ہتھے چڑھ گئے۔ یاد کیجئے دہلی یونیورسٹی کی طالبہ گرمہر کور کو۔ بے مہر تعاقبی بھیڑ نے گرمہرکو اتنا بُرا بھلا کہا اور ایسی ایسی دھمکیاں دیں کہ ۱۹۹۹ء میں ملک کیلئے جان عزیز قربان کرنے والے کیپٹن مندیپ سنگھ کی دختر نیک اختر کو دہلی چھوڑ کر واپس جانےاور سوشل میڈیا سے اظہارِ برأت کرنے ہی میں عافیت نظر آئی۔ صحافی، سماجی کارکن، ٹی وی اینکر اور فلم یا تھیٹر اداکار اِس احساس کے ساتھ سوشل میڈیا پر برقرار رہتے ہیں کہ اگر اُن کے مداح حسب معمول ستائشی کلمات سے نوازیں گے تو ایک بڑا طبقہ اُنہیں ذلیل و خوار کرنے کے درپے بھی ہوگا۔  جب پہلے سے یہ احساس موجود ہوتاہے تو بے سر پیر کی تنقیدوں، ذاتی حملوں اور رکیک جملوں سے صرف نظر کرنا مشکل نہیں رہ جاتا مگر کوئی شخص اچانک اس بھیڑ میں پھنس جائے تو باہر نکلتے نکلتے اس کا ذہن اور احساس ہی نہیں، روح بھی مجروح ہوجاتی ہے۔ یہ اور ایسی کئی وجوہ کی بنیاد پر ۷۵ء۶۰؍ کروڑ انٹرنیٹ صارفین کے اس ملک میں ہر سال کم و بیش ۵؍ لاکھ افراد سوشل میڈیا سے اپنا تعلق منقطع کرنے کے بارے میں سوچتے ہیں اور گوگل پر یہ جاننے کی کوشش کرتے ہیں کہ کس سوشل میڈیا پلیٹ فارم سے پنڈ چھڑانے کا طریقہ کیا ہے۔ یہ اطلاع اپنی تحقیق بسیار کے بعد ’’ری بو‘ٹ آن لائن‘‘ نے گزشتہ سال ۳۰؍ جون کو دی تھی جب دُنیا سوشل میڈیا ڈے منا رہی تھی۔ ’’ری بوٹ‘‘ کے مطابق دُنیا میں سب سے زیادہ افراد جو سوشل میڈیا سے دور ہونا چاہتے ہیں، امریکہ میں ہیں، اس کے بعد ہندوستان کا نمبر آتا ہے جبکہ برطانیہ کا نمبر تیسرا ہے۔  ’’تعاقبی بھیڑ‘‘ میں شامل افراد کو انگریزی میں ٹرولر کہا جاتا ہے یعنی وہ لوگ جو ٹرول کرتے ہیں۔ لغت میں ٹرول کا معنی بے فکری میں گنگنانا، چارہ ڈال کر مچھلی پکڑنا، ڈھونڈنا، تلاش کرنا، ٹہلنا، چہل قدمی کرنا وغیرہ درج ہیں مگر دور جدید میں، جب سے انٹرنیٹ وجود میں آیا ہے، چونکہ ایک نئی خلقت منظر عام پر آگئی ہے اس لئے اس لفظ کا معنی وہ نہیں رہ گیا ہے جو لغت میں درج ہے۔ اب اس کا معنی انٹرنیٹ پر ستانا، پریشان کرنا، بُرا بھلا کہنا حتیٰ کہ دھمکیاں دینا ہے۔ جو  لوگ اس قبیح حرکت کا ارتکاب کرتے ہیں، وہ ٹرولر کہلاتے ہیں۔ یہ ’’نادیدہ افراد‘‘ اتنے بدتہذیب اور بدتمیز واقع ہوئے ہیں کہ کب کیا کہہ دیں کچھ کہا نہیں جاسکتا۔ چند ایک مشہور اور مقبول شخصیات کی داستان ِ اذیت تو منظر عام پر آجاتی ہے مگر بہتوں کے بارے میں معلوم نہیں ہوپاتا کہ اُنہوں نے کتنی راتوں کی نیند قربان کی۔ میرؔ نے اپنے دور کے بدتمیز لوگوں کے بارے میں کہا تھا:
یوں پکارے ہیں مجھے کوچۂ جاناں والے
ادھر آبے، ابے اور چاک گریباں والے
مگر عہد میر ؔاور عہد جدید میں فرق یہ ہے کہ اُس عہد کے بدتمیز بھی تمیز جانتے تھے اس لئے ’’بے‘‘ اور ’’ابے‘‘ سے آگے نہیں بڑھتے تھے، عہد جدید میں، جو تہذیب کو زندہ درگور کرنے کیلئے بے تاب ہے، تعاقبی بھیڑ نسلی، صنفی اور ذاتی حملے بھی کرتی ہے، مذہب اور عقائد پر رکیک جملے بھی کستی ہے، گالم گلوج بھی کرتی ہے اور نسل پرستانہ یلغار سے بھی باز نہیں آتی۔ بھیڑ چونکہ کوئی اُصول نہیں جانتی اس لئے، اس میں شامل لوگ کب کس کے خلاف کتنا بہک جائیں اور کس سطح پر اُتر آئیں، اِس کا اندازہ کوئی نہیں کرسکتا۔ اس بھیڑ سے کم و بیش ہر ملک پریشان ہے مگر جن ممتاز اداروں نے اس پر تحقیق کی وہ یہ کہے بغیر نہیں رہ سکے کہ تعاقبی بھیڑ کو چارہ فراہم کرنے میں سیاسی جماعتیں پیش پیش ہوتی ہیں۔ آکسفورڈ انٹرنیٹ انسٹی ٹیوٹ کی ایک رپورٹ کیلئے جن ۷۰؍ ملکوں کا جائزہ لیا گیا اُن میں سے ۴۵؍ میں سیاسی جماعتوں اور سیاستدانوں کی نشاندہی ہوئی جنہوں نے اپنی تشہیر اور انتخابی فتح کیلئے سوشل میڈیا کا استعمال کیا۔ الیکشن جیتنے کیلئے مامور کی گئی فوج ہی الیکشن کے بعد ٹرولرس کی بھیڑ بن جاتی ہے ۔ 

متعلقہ خبریں

This website uses cookie or similar technologies, to enhance your browsing experience and provide personalised recommendations. By continuing to use our website, you agree to our Privacy Policy and Cookie Policy. OK