Inquilab Logo

احتجاج اور مظاہروں میں تدبیر کے ساتھ رجوع الی اللہ بھی ضروری ہے

Updated: January 24, 2020, 2:30 PM IST | Maolana Khalid Saifullah Rehmani

شہریت ترمیمی قانون (سی اے اے) کے خلاف اس وقت پورا ملک سراپا احتجاج بنا ہوا ہے؛ لیکن حکومت سمجھتی ہے کہ اپنی ضد پر اڑا رہنا، رعایا کے جذبات کو کچل دینا اور آنکھ کان بند کر کے حکومت کرنا کمال کی بات ہے۔

شہریت ترمیمی قانون اور این آر سی کیخلاف احتجاج جاری ہے
شہریت ترمیمی قانون اور این آر سی کیخلاف احتجاج جاری ہے

شہریت ترمیمی قانون (سی اے اے)کے خلاف اس وقت پورا ملک سراپا احتجاج بنا ہوا ہے؛ لیکن حکومت سمجھتی ہے کہ اپنی ضد پر اڑا رہنا، رعایا کے جذبات کو کچل دینا اور آنکھ کان بند کر کے حکومت کرنا کمال کی بات ہے؛ اس لئے وہ ذرا بھی اپنے موقف سے ہٹنے کو تیار نہیں ہے، اسے یہ بات جان لینی چاہئے کہ بدترین حکومت وہ ہے، جو رعایا کی بات سننے پر آمادہ نہ ہو اور جس کو طاقت کا نشہ اتنا بدمست کر دے کہ مظلوموں کی آہیں اس کے کانوں سے ٹکرا ٹکرا کر واپس ہوجائیں، اور یہ بھی سمجھ لینا چاہئے کہ ظلم وجبر ایک غیر فطری چیز ہے اور اس کو آج یا کل ان شاء اللہ ختم ہو کر رہنا ہے، اس سلسلہ میں یونیورسیٹیوں کے طلبہ، سیکولر دانشور حضرات، فلم اور کھیل کی دنیا کے لوگ، ملک کے ریٹائرڈ قابل افسران اور میڈیا کے وہ لوگ جن کے ضمیر میں ابھی زندگی کی رمق باقی ہے، قابل تحسین بھی ہیں اور شکریہ کے مستحق بھی کہ وہ پوری جرأت اور حوصلہ کے ساتھ انصاف کی یہ لڑائی لڑرہے ہیں۔
 اسی پسِ منظر میں برادران اسلام سے عرض ہے کہ اس کائنات میں اللہ تعالیٰ کے دو نظام کارفرما ہیں، ایک: نظامِ اسباب، دوسرے: نظامِ غیب، نظام اسباب یہ ہے کہ ظاہری اسباب کے واسطہ سے نتائج ظاہر ہوں، یہ ایک واضح حقیقت ہے، جس کو ہم روز وشب  دیکھتے ہیں،اگر کوئی شخص آگ کے شعلہ کو اپنے ہاتھ میں لے لے تو اس کا ہاتھ جلے گا، اور تیرنے سے واقف نہ ہو پھر بھی گہرے دریا میں کود جائے تو یقیناً ڈوب جائے گا، یہ اسباب کا نظام ہے جو پوری کائنات میں کارفرما ہے، اور دنیا میں ہمارے سارے کام اسی ذریعہ سے انجام پاتے ہیں۔ نظامِ غیب کا مطلب یہ ہے کہ کسی چیز کے حاصل ہونے کا جو فطری ذریعہ ہوتا ہے، اس کے بغیر وہ چیز حاصل ہو جائے، یا جو چیز جس بات کا سبب بنتی ہو، اس کا وہ نتیجہ ظاہر نہ ہو پائے، جیسے: آگ میں انسان جل جاتا ہے؛ لیکن اللہ کے حکم سے حضرت ابراہیم علیہ السلام کو آگ نے نہیں جلایا، حضرت موسیٰ علیہ السلام اپنی قوم کے ساتھ بحر قلزم میں اتر گئے؛ لیکن سمندر انہیں ڈبو نہیں سکا، انسان اس دنیا میں باپ اور ماں کے واسطہ سے پیدا ہوتا ہے؛ لیکن حضرت عیسیٰ علیہ السلام صرف ماں کے ذریعہ پیدا کئے گئے، یہ اللہ تعالیٰ کا غیبی نظام ہے، آخرت کا تو پورا نظم ونسق اسی نظام کے تحت رہے گا؛ لیکن اللہ تعالیٰ کی طرف سے دنیا میں بھی وقتاََ فوقتاََ انسان کو اس نظام کی جھلک دکھائی جاتی ہے۔
 اس لئے جیسے حکومت کے ظالمانہ رویہ سے مقابلہ کے لئے سیاسی اور عوامی جدوجہد کی جارہی ہے، اسی طرح اللہ تعالیٰ سے رجوع کا بھی اہتمام کرنا چاہئے، یہ اپنی مہم میں کامیابی حاصل کرنے کا غیبی نظام ہے، قرآن مجید میں مؤمنوں کے لئے آزمائشوں کا ذکر کرتے ہوئے صبر کرنے والوں کو خوشخبری سنانے کا حکم دیا گیاہے، اور ان کی شان بتائی گئی ہے کہ جب ان پر کوئی مصیبت آتی ہے تو وہ کہتے ہیں: ’’ ہم اللہ کے لئے ہیں اور ہمیں اللہ ہی کی طرف لوٹنا ہے۔‘‘(البقرہ: ۱۵۶) یعنی مؤمن کی شان یہی ہے کہ خوشی کا موقع ہو یا تکلیف کی گھڑی، ہر حال میں وہ خدا کو یاد رکھے اور اسی سے رجوع کرے۔
 اللہ سے رجوع کرنے کی صورت اللہ تعالیٰ سے دعاکرنا ہے، یہ مؤمن کا ہتھیار ہے، اور اس سے مصیبتیں دور ہوتی ہیں، رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے ارشاد فرمایا :’’صرف دعا ہی ایسی چیز ہے، جس سے تقدیر کا فیصلہ بدلتا ہے۔‘‘ (ترمذی عن سلمان الفارسی، حدیث نمبر: ۲۱۳۹) حضرت جابر رضی اللہ تعالیٰ عنہ سے روایت ہے کہ بندہ جب بھی دعاء کرتا ہے تو یا تو جو مانگتا ہے، اللہ تعالیٰ وہی عطا فرما دیتے ہیں، یا اسی کے مثل کوئی اور مفید چیز  عنایت کرتے ہیں؛ بشرطیکہ وہ گناہ یا قطع رحمی کی دعا نہ کرے۔(مسند احمد عن جابر، حدیث نمبر: ۱۴۸۷۹) سب سے اہم بات یہ ہے کہ دعا سے انسان کو اللہ تعالیٰ کی معیت نصیب ہوتی ہے، اور بندہ کو اللہ کا ساتھ مل جائے، اس سے اہم بات اور کیا ہو سکتی ہے؛ چنانچہ حضرت ابو ہریرہ رضی اللہ سے روایت ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: میرا بندہ مجھ سے جو گمان رکھتا ہے، میں اسی کے مطابق اس کے ساتھ عمل کرتا ہوں،اور جب وہ مجھ سے دعاء کرتا ہے تو میں اس کے ساتھ ہوتا ہوں۔(مسلم عن أبی ہریرۃ حدیث نمبر: ۲۶۷۵)
 خاص کر ظالموں کے ظلم سے چھٹکارے کے لئے دعا کی بڑی اہمیت ہے، سیدنا حضرت ابراہیم علیہ السلام عراق میں نبوت سے نوازے گئے، وہاں ان پر بڑے مظالم ہوئے، انھوں نے عراق سے شام کی طرف ہجرت فرمائی، انہیں مصر سے گزرنا تھا، مصر کا بادشاہ بڑا ظالم وجابر تھا، کوئی شخص اگر اپنی بیوی کے ساتھ گزرتا اور وہ خوبصورت ہوتی تو بادشاہ زبردستی اس کو بلواتا۔ حضر ت ابراہیم علیہ السلام کے ساتھ ان کی بیوی حضرت سارہؑ بھی ہمسفر تھیں، اور اللہ تعالیٰ نے ان کو حسن وجمال سے بھی نوازا تھا، حضرت ابراہیم علیہ السلام کو پہلے سے خطرہ تھا کہ وہ حضرت سارہ کو گرفتار کر لے گا۔ آخر وہی ہوا جس کا ڈر تھا۔  اہل ایمان کے اس مختصر قافلہ کو دیکھ کر اس کی نیت خراب ہوگئی، اور   اس نے حضرت سارہ کو گرفتار کر لیا، پھر جب اس نے حضرت سارہ کے پاس آنا چاہا تو انھوں نے وضو کیا، نماز میں مشغول ہو گئیں اور دعا کی: اے اللہ!آپ کو علم ہے کہ میں آپ پر اور آپ کے رسول پر ایمان لائی ہوں ؛ لہٰذا مجھ پر اس کافر کو مسلط نہ فرمائیے۔ دعا کرنا تھا کہ وہ ظالم بے ہوش ہوگیا اور پاؤں پٹخنے لگا، حضرت سارہ پھر اللہ تعالیٰ سے رجوع ہوئیں کہ اگر یہ مر گیا تو کہا جائے گا:میں نے ہی اسے مار دیا ہے؛ اس لئے اسے ہوش عطا کر دیجئے۔ وہ ہوش میں آگیا ، اس طرح تین یا چار بار حضرت سارہ کو نشانہ بنانے کی کوشش کی ، ہر بار حضرت سارہ نے دعاء کی اور وہ اسی کیفیت میں مبتلا ہوا، اخیر میں اس نے تنگ آکر اپنے مصاحبین سے کہا کہ تم لوگوں نے میرے پاس شیطان کو بھیج دیا ہے ،ان کو ابراہیم (علیہ السلام) کے حوالہ کر دو۔ (مسند احمد عن ابی ہریرۃ، حدیث نمبر: ۹۲۴۱) یہ حدیث بتاتی ہے کہ ظالموں کے تسلط کو روکنے اور ان سے مقابلہ کرنے کے لئے دعا ایک طاقتور ہتھیار ہے اس لئے موجودہ حالات میں ہمیں ضرور اس کا اہتمام کرنا چاہئے۔
 دعا ہی کی ایک صورت استغفار ہے، یہ بھی مصیبتوں سے نجات پانے کا ایک غیبی نسخہ ہے، رسول اللہ ﷺنے ارشاد فرمایا: جو استغفار کا اہتمام کرے، اللہ تعالیٰ اس کے لئے مصیبت سے باہر نکلنے کا راستہ بنا دیتے ہیں، ہر فکر سے نجات عطا فرماتے ہیں، اور ایسے طریقہ پر رزق عطا کرتے ہیں، جس کا آدمی کو گمان بھی نہ ہو۔ (سنن ابو داؤد، عن ابن عباس، حدیث نمبر: ۱۵۱۸) اس لئے استغفار کا بھی خصوصی اہتمام کرنا چاہئے۔

متعلقہ خبریں

This website uses cookie or similar technologies, to enhance your browsing experience and provide personalised recommendations. By continuing to use our website, you agree to our Privacy Policy and Cookie Policy. OK