Inquilab Logo

امریکہ ہماری مدد کیلئے کبھی نہیں آئے گا

Updated: October 06, 2020, 11:14 AM IST | Hasan Kamal

امریکہ کا اگر مدد کرنے کا ارادہ ہوتا تو ٹرمپ یہ نہ کہتے کہ چین اور ہندوستان میں ثالثی کرانے کو تیار ہیں۔ مددگار مدد دیتے ہیں، ثالثی نہیں کرتے۔ حالات کے حل کا واحد راستہ یہ ہے کہ خود وزیر اعظم نریندر مودی پہل کریں اور شی جن پنگ سے براہ راست بات کریں ۔

India and China - Pic : INN
بھارت اور چین ۔ تصویر : آئی این این

چین کے ایک انگریزی روزنامہ ’گلوبل ٹائمز‘ کی ایک خبر کی  سرخی کچھ اس طرح تھی’’لداخ میں گرما گرم موسم سرما کی آمد آمد‘‘۔یہ بتانے کی ضرورت نہیں کہ موسم  سرما کو گرما گرم کہنےسے اخبار کی مراد یہ ہے کہ سردیوں میں کچھ بڑے اور جارحانہ واقعات رونما ہو سکتے ہیں۔  لداخ میں آج کل رات کو درجہ حرارت صفرسے دس ڈگری نیچے چلا جاتا ہے۔ موسم سرما میں وہاں کم سے کم درجہ  حرارت صفر سے پانچ  تا ۲۵ ؍ڈگری اور کبھی کبھی تو ۳۰ ؍ڈگری سے بھی نیچے چلا جاتا ہے۔ چینی اخبار کی خبر حیرت انگیز ہے۔ لداخ سے لے کر تبت تک چین نے دو لاکھ فوجی لا کھڑے کئے ہیں۔ ہندوستان نے بھی  جواب میں تقریباً ۵۰ ہزار جوان ان کے سامنے کھڑے کر دیئے ہیں۔ خبر میں یہ  بتانے کی کوشش کی گئی ہے کہ چینی فوجی تو اس علاقہ کے موسم کے عادی بنائے جا چکے ہیں، جبکہ ہندوستانی فوجوں کی بہت بڑی تعداد  اس موسم کی سختیوں کی عادی نہیں ہے۔ علاوہ ازیں چین نے اس علاقہ میں آمدو رفت اور رسد و کمک کے تمام انتظامات کر رکھے ہیں، جبکہ ہندوستان کی طرف سے ایسی تیاریاں نہیں کی گئی ہیں۔ اس موسم  میں غیر معمول  قسم کے لباس درکار ہوتے ہیں۔ ایسے خیموں کی ضرورت ہوتی ہے ، جو شدید برفباری میں ایستادہ رہ سکیں۔ اس  موسم میں پیٹرول اور ڈیزل تک منجمد ہو جاتا ہے اور گاڑیوں کو کام میں لانے کیلئے خصوصی انتظامات کرنے پڑتے ہیں ۔ جن کیلئے یقین سے نہیں کہا جا سکتا کہ وہ کس حد تک کر لئے گئے ہیں۔ یہاں تعینات جوان انہی سپاہیوں کے بیٹے ہیں، جو مودی سرکار کے جبر کے خلاف سڑکوں پر لڑ رہے ہیں۔ اب ان کے بیٹے یخ بستہ پہاڑوں کی بلندیوں پر موسم کے قہر سے لڑنے کی تیاریاں کر رہے ہیں۔ ظاہر ہے اس صورت حال سے ہر ہندوستانی کو سخت تشویش لا حق ہے۔ 
 تشویش کی سب سے بڑی وجہ یہ ہے کہ موسم سرما شروع ہوتے ہی ہندوستانی فوج کے گشتی دستے ان علاقوں سے واپس بلا لئے جاتے ہیں۔ پھر جب مارچ اپریل میں برفباری بند ہونے لگتی ہے تو گشتی دستے واپس آ جاتے ہیں۔ اس بار اسی معاملہ میں چوک ہو گئی۔ اپریل میں نہ جانے کیوں گشتی دستوں کو واپس نہیں بھیجا گیا۔ چین نے میدان خالی پاکر ان علاقوں پر قبضہ کر لیا۔ یہ چوک  کیسے ہوئی اور کیوں ہوئی یہ بحث طلب مسئلہ ہے، کیونکہ کہا جاتا ہے کہ فوج کی خفیہ ایجنسی نے چینی فوج کی اس علاقہ میں غیر معمولی نقل و حرکت کی اطلاع دے بھی دی تھی۔ اب صورتحال یہ ہے کہ دونوں فوجوں کے ادنیٰ اور اعلیٰ افسروں کے مابین بات چیت کے کئی راؤنڈ ہو چکے ہیں۔قومی سلامتی کے مشیراجیت ڈووال چینی خارجہ سیکریٹری سےگفتگوکر چکے ہیں۔ وزیر دفاع راج ناتھ روس اور ایران کو بیچ میں لانے کی کوشش کر چکے ہیں۔ وزیر خارجہ ایس جے شنکر چینی ہم منصب وانگ ای سے بات کر چکے ہیں۔ لیکن حالات جوں کے توں   ہیں۔   چنانچہ معلوم یہی ہوتا ہے کہ ہندوستانی فوج کو اس وقت تک وہیں رہنا ہوگا تا وقتیکہ چین اپنی فوجیں پیچھے نہیں ہٹاتا اور چین نے فوجیں پیچھے ہٹانے سے فی الحال تو صاف انکار کر رکھا ہے۔ اس نے واضح اشارہ  دیا ہے کہ اس کے ارادے نیک نہیںہیں۔ چینی فوجی اشتعال انگیزیوں  سے بھی باز نہیں آتے۔ انہوں نے ہمارے فوجیوں کا حوصلہ پست کرنے کیلئے انہیں لائوڈاسپیکر پر ایسے پنجابی گیت  سنانے شروع کر دیئے ہیں، جنہیں سن کر سننے والوں کواپنے گھر کی  یاد ستانے لگتی ہے۔ اسی کے ساتھ وہ ہمارے فوجیوں سے ہندی میں یہ بھی کہتے ہیں کہ تمہاری سرکارنے تمہیں یہاں سردی سے اکڑ کر مر جانے کیلئے چھوڑ دیا ہے ۔اور یہ کہ تم  ہماری طاقت کاایک دن بھی مقابلہ نہ کر پائوگے۔ یہ اور بات ہے کہ ہمارے جوان وطن کے لئے ہر قربانی دینے کو ہر وقت تیار رہتے ہیں۔ اس کی کئی مثالیں ہم سب ایک بار نہیں کئی بار یکھ چکے ہیں۔ 
 چینی جارحیت کی ابتدا میں ان کالموں میں یہ کہا گیا تھا کہ جنگ نہیں ہوگی۔ تناؤ برقرار ر ہے گا۔ آج کچھ  ایسا ہی نظر آرہا ہے لیکن یہ نہ بھولنا چاہئے کہ ۱۹۶۲ء میں چین نے اکتوبر ہی میں حملہ کیا تھا۔ چنانچہ اگر جنگ نہ بھی ہوئی تو بھی جنگ جیسے حالات بہرحال موجود  رہیں گے۔ کسی کی سمجھ میں نہیں آرہا کہ اس صورتحال سے کیسے نکلا جائے۔ اس سلسلہ میں سب سے شرمناک کردار گودی میڈیا کا ہے۔ وہ یا تو عوام کو کنگنا کی خرافات، سشانت کی خود کشی یا قتل، بالی ووڈ میں منشیات کا چلن اور اسی قسم کی دوسری بیہودگیوں میں الجھائے رکھتا ہے ، یا اگر کبھی اس سنگین صورت حال کی طرف اشارہ بھی کرتا ہے تو بالکل بے سر پیر کی باتیں کرتا ہے، جو حالات سے باخبر کرنے کے بجائے گمراہ کرتی ہیں۔مثلاًمیڈیا یہ بتاتا ہے کہ جاپان ، آسٹریلیا اور امریکہ ہماری مدد کو تیار  بیٹھےہیں۔ امریکہ نے اپنے دو طیارہ بردار بحری جہازہماری مدد کیلئے بحرالکاہل میں بھیج دیئے ہیں۔ یہ سب سفید جھوٹ ہے۔ یہ تینوں ممالک کسی بھی حال میں ہماری مدد کو نہیں آئیں گے۔ جہاں تک جاپان کا تعلق ہے تو  اس ملک کی نصف سے بھی زیادہ آبادی معمر اور سن رسیدہ افراد پر مشتمل ہے ۔ گویا نصف سے زیادہ جاپانی باقی ماندہ زندگی سکون و اطمینان سے جینا چاہتے ہیں۔ان کالموں میں پہلے بھی کہا جا چکا  ہے کہ جو لوگ یہ سمجھتے ہیں کہ امریکہ ہماری مدد کو آئے گا، وہ احمقوں کی جنت میں رہتے ہیں۔ امریکہ نے بڑی مشکل سے ایشیا سے جان چھڑائی ہے۔ اب وہ کسی قیمت میں ایشیا کے کسی معاملہ میں دوبارہ اپنی جان جوکھم میں نہیں ڈالے گا۔ یہ جو بار بار کہا جاتا ہے کہ امریکہ کی جنوبی بحرالکاہل میں فوجی سرگرمیاں ہمارے لئے چین کے خلاف امریکی مدد کی ہے۔ سراسر بکواس ہے۔ یہ سرگرمیاں ٹرمپ کے حکم پر صرف اس لئے ہو رہی ہیں کہ ٹرمپ سمجھتے ہیںکہ اس سے انہیں صدارتی انتخابات میں مدد ملے گی۔ کورونا کا مقابلہ کرنے میں ان کا مسخرانہ حد تک لاپروا رویہ ، ان کو طاقت  نہیں بخش رہا ہے۔ ایک تازہ سروے کے مطابق اس وقت امریکہ کے ۳۳؍ فیصد افراد تین وقت کا کھانا نہیں کھا پا رہے ہیں۔ فلوریڈا میں تو مائیں بچوں کیلئے کھانےکی چیزیں چراتے ہوئے پکڑی گئی ہیں۔  امریکہ کا قرض ۵۰؍ کھرب ڈالر تک جا پہنچا ہے۔ بیروزگاروںکی تعدا میں روزافزوں اضافہ ہو رہا ہےاور اب تو ٹرمپ خود قرنطینہ میں ہیں۔ مدد کرنا بھی چاہیں تو نہیں کر سکتے۔امریکہ کا اگر مدد کرنے کا ارادہ  ہوتا تو ٹرمپ یہ نہ کہتے کہ چین اور  ہندوستان میں ثالثی کرانے کو تیار ہیں۔ مددگار مدد دیتے ہیں، ثالثی نہیں کرتے۔ حالات کے حل کا واحد راستہ یہ ہے کہ خود وزیر اعظم نریندر مودی پہل کریں اور شی جن پنگ سے براہ راست بات کریں ۔ لیکن وہ تو یہ بھی نہیں مانتے کہ کوئی ہماری سرحدوں کے اندر گھسا ہوا ہے۔  وہ تو چین کا نام  اپنی زبان پر نہیں لاتے۔ ان حالات میں ہندوستانیوں کی بڑھتی ہوئی تشویش بالکل حق بجانب ہے

متعلقہ خبریں

This website uses cookie or similar technologies, to enhance your browsing experience and provide personalised recommendations. By continuing to use our website, you agree to our Privacy Policy and Cookie Policy. OK