Inquilab Logo

مظاہرین کو دبانے کی کوشش حکومت کے خوف کا مظہر

Updated: January 19, 2020, 9:21 AM IST | Arkam Noorulhasan | Mumbai

یہ حکومت گھبرا گئی ہے مظاہرین کے جوش اور ولولے سے، یہ حکومت خوفزدہ ہےمظاہرین کے حوصلوں سے جنہیں وہ کسی ذریعے سے پست نہیں کرپا رہی ہے، حکومت کسی قیمت پر سی اے اے واپس نہیں لے گی ، نہ لے،لیکن مظاہرین بھی کسی قیمت پر قدم پیچھے نہیں ہٹائیں گے۔

شاہین باغ میں احتجاج کا ایک منظر۔ تصویر: پی ٹی آئی
شاہین باغ میں احتجاج کا ایک منظر۔ تصویر: پی ٹی آئی

دہلی کاشاہین باغ ، پٹنہ کاسبزی باغ ، کولکاتاکا پارک سرکس ، الہ آبادکا منصورعلی پارک، اورکانپورکا بابوپوروہ ، یہ کوئی سیاحتی مقامات نہیں ہیں ۔سیاحتی تو درکنار،یہ اب سے پہلے معروف تک نہیں تھے۔ان علاقوں کی شناخت ان کے مکینوں کی حد تک تھی۔ان ناموں سےان علاقوں کے رہنے والے باشندے اب سے پہلے تک واقف تھے۔ان علاقوں سے لوگ گزرتے ہوں گے ، ان پر کوئی توجہ دئیے بغیر ، ان کا کوئی ذکر کئے بغیر۔ یہ اب تک ہوتا آیا ہوگالیکن اب نہیں ہوگا ۔اب یہ علاقے غیر معروف نہیں ر ہ گئے۔ ان علاقوں کی حیثیت واہمیت اب ان شہروں میں واقع کسی سیاحتی مقام سے بھی بڑھ چکی ہے۔ اب ایساکوئی نہیں ہوگاجو مذکورہ شہروں کا سفر کرےاوران علاقوں کو دیکھے بغیر گزرجائے۔یہ چند علاقے تاریخ بن چکے ہیں ۔انہوں نے وہ اہمیت اختیار کرلی ہےکہ ارباب اقتدار بھی اگر اس اہمیت کو نظر انداز کرنا چاہیں توانہیں زبر دست ردعمل کا سامنا کرنا پڑے۔شہریت تر(میمی) قانون(سی اے اے) اور این آر سی کےخلاف احتجا ج کی علامت بن چکے ہیں یہ علاقے ۔ ان میں سے شاہین باغ تو اس علامت کی بنیاد ہے۔ باقی جن علاقوں میں احتجاج ہورہا ہے،وہ شاہین باغ کی طرز پر ہورہا ہے، شاہین باغ کے نام پر ہورہا ہے۔ شاہین باغ کی خواتین نے شروعات کی ہے،سبزی باغ ، پارک سرکس، منصور علی پارک اور روشن باغ میں شاہین باغ کا نام قائم رکھنے کیلئے، وہاں کی خواتین سے اظہار یکجہتی کیلئے لوگ آتے جارہے ہیں اورنت نئے نیز جوشیلے مظاہرین کا یہ کارواں بنتا جارہا ہے۔انہیں روکنے والا کوئی نہیں ۔یہ خواتین جائے مظاہرہ پرجا نماز لے کر ڈٹی ہوئی ہیں ۔کلام پاک کی تلاوت کررہی ہیں ،روزے رکھ رہی ہیں ، گیتا ،بائبل اور گروگرنتھ پڑھنے والےاور پڑھنے والیاں بھی ان کا ساتھ دے رہی ہیں ۔یہ سب ساتھ بھی یونہی نہیں دے رہے ہیں بلکہ اپنا فرض ، اپنا دھرم اوراپنا کرتویہ سمجھ کر ساتھ دے رہے ہیں اور اظہاریکجہتی کررہے ہیں ۔اپنا دھر م، اپنا کرتویہ اوراپنا یہ فرض یہ جیالے بھی صرف احتجاج کیلئےنہیں نبھا رہے ہیں بلکہ ملک کیلئے نبھا رہے ہیں ۔ احتجاج کرنے وا لے اوراحتجاج کا ساتھ دینے والےسب ملک کیلئے متحد ہوئے ہیں ، بے لوث جذبے کے ساتھ۔
 سی اے اے ا ور این آر سی کی مخالفت میں ہونے والے ان تاریخی مظاہروں کے سامنے حکومت ان کی حمایت میں ریلیاں اورپروگرا م کررہی ہے لیکن فرق واضح طورپر دیکھا جاسکتا ہے۔ عوام کس کے ساتھ جڑ رہے ہیں ۔ لوگوں کی حمایت قانون کےمخالفین کومل رہی ہے، حامیوں کو نہیں ۔ نئی دہلی میں گزشتہ دنوں سی اے اے کی حمایت میں نکالی گئی ریلی کے دوران جس میں وزیر داخلہ امیت شاہ نے شرکت کی تھی ، دو خواتین نے اپنے مکان کی بالکنی پرسی اےاے اوراین آر سی کی مخالفت میں بینر آویزاں کیا تھا۔ دونوں اس مکان کی کرایہ دارتھیں ۔ وزیر داخلہ کی ریلی کے دوران احتجاج کرنے کی قیمت انہیں چکانی پڑی اور انہیں مکان سے نکال دیاگیا۔شاہین باغ کی مظاہرین کے خلاف ماحول تیار کرنے کیلئےبی جے پی آئی ٹی سیل کے انچارج امیت مالویہ نے کچھ روزپہلے ٹویٹر پر یہ فرضی ویڈیو عام کیا تھا کہ وہاں جو خواتین مہینے بھر سے دھرنے پر بیٹھی ہیں ،انہیں پانچ پانچ سو روپے دئیے گئے ہیں ۔ انہوں نے احتجاج کے اسپانسرڈ ہونے کا الزام لگایا تھا۔ شاہین باغ کی مظاہرین نے اس کا خوب جواب دیا ۔شاہین باغ کے آفیشل ٹویٹ اکاؤنٹ پر ایک بیان جاری کرتے ہوئے کہا گیا کہ چاہے۵۰۰؍ ہوں یا ۱۵؍لاکھ ،ہمیں کسی سیاسی پارٹی کے پیسوں میں دلچسپی نہیں ہے۔ شاہین باغ کی مظاہرین نے اس ویڈیو کی بھرپور اندا ز میں تردید کی اور اسے فرضی قراردیا ۔
 اس سے صاف ظاہرہوتا ہےکہ مظاہرین کی ثابت قدمی سے یہ حکومت اب گھبرا گئی ہے۔بی جے پی رکن پارلیمنٹ میناکشی لیکھی نے گزشتہ دنوں انتباہی انداز میں کہا تھا کہ شاہین باغ کی مظاہرین کو اب دھرنا ختم کردینا چاہئے، اسی میں ان کی بھلائی ہے۔انہوں نے شہریوں کو ہونے والی دشواریوں کا حوالہ دیتے ہوئےمظاہرین کے خلاف دھمکی آمیز لہجہ اپنایا تھا ۔احتجاج کے مقام کی بجلی سپلائی منقطع کئے جانے کا بھی حربہ آزمایا گیا لیکن ڈیجیٹل انڈیا کی دعویدار حکومت اورحکومت کے ہم نواؤں کو غالباً اس بات کا اندازہ ہی نہیں رہا کہ زمانے کی رفتار نے ہر چھوٹے بڑے کے ہاتھ میں اسمارٹ فون تھما دیا ہے۔ اس کے باوجودموبائل کی چارجنگ ختم ہونےکی صورت میں کینڈل مارچ کا روایتی طریقہ نہ صرف موجود ہے بلکہ یہ ا کثر اوقات زیادہ مؤثر اور کارگرثابت ہوجاتا ہے۔
  یہ حکومت گھبرا گئی ہے مظاہرین کے جوش اور ولولے سے۔ یہ حکومت خوفزدہ ہےمظاہرین کے حوصلوں سے جنہیں وہ کسی ذریعے سے پست نہیں کرپا رہی ہے۔کہا جارہا ہے کہ حکومت کسی قیمت پر سی اے اے واپس نہیں لے گی ۔ قانون وہ واپس نہ لیتی ہے نہ لے ۔لیکن کسی ذریعے سے اسے یہ پیغام تو مل ہی رہا ہے کہ مظاہرین بھی اپنا احتجاج واپس نہیں لیں گے۔جے این یو اسٹوڈنٹ یونین کے سابق صدر کنہیا کمار دوٹوک کہہ چکے ہیں کہ حکومت ا گرآئین کو نہیں مانتی تو ہم حکومت کو نہیں مانتے ۔ حکومت کو ابھی کئی واسطوں سے یہ پیغام بھی ملے گا کہ عوام کیلئے بنائے گئے قانو ن کو اگر خودعوام ہی تسلیم نہیں کررہے ہیں تو ایسے قانون کو نافذ کیا ہی نہیں جاسکتا۔اگراس حکومت میں ذرا سی بھی حس حکمرانی ہوتی تووہ قانون نافذ نہیں کرتی۔سی اے اے کے نفاذ کے تعلق وہ نوٹیفکیشن جاری کرچکی ہے جس پر روک لگانے کیلئے انڈین یونین مسلم لیگ نے سپریم کورٹ میں عرضداشت بھی داخل کردی ہے۔یہ حکومت بتائے کہ عوامی اختیار کی حد کہاں سے شروع ہوتی ہے اور کہاں ختم ہوتی ہے ، عدلیہ کی حد کہاں سے شروع ہوتی ہے اورکہاں ختم ہوتی ہے، قانون نافذ کرنے کی حد کہاں سےشروع ہوتی ہے اورکہاں ختم ہوتی ہے؟ مظاہر ین کو دبانے کیلئے نت نئے حربے استعمال کرکےیہ حکومت ’حکمرنی بے حسی‘کا ثبوت دے چکی ہے۔عوامی مظاہروں کو بدنام کرنے کی سازشوں اور کوششو ں کے ذریعے یہ حکومت اس طرح خود ہی اس بات پر مہر ثبت کررہی ہے کہ شہریت قانون اور این آر سی کے خلاف یہ عوامی برہمی مطلق جائز ہے۔
 کئی جگہوں پر مظاہروں کے غیر قانونی ہونے کا بھی دعویٰ کیاگیا ۔کئی جگہوں پر اسی حوالے سے مظاہروں کی اجازت تک نہیں دی گئی۔ کئی جگہوں پر احتجاج کو روکاجارہا ہے۔حقیقت یہ ہے کہ اس حکومت کے پاس اپنے آمرانہ طرز حکومت پر پردہ ڈالنے کا اب کوئی راستہ نہیں بچا ہے۔ آپ دیکھئے کہ عوامی احتجاج پر اب تک وزیر اعظم نے کچھ نہیں کہا ہے بلکہ جب بھی بات کی ہے مظاہرین کے خلاف ہی بات کی ہے۔ ملک کے وزیر اعظم کے پاس اپنے اس عوامی طبقے کے خلاف کہنے کو کچھ نہیں ہے جو صرف ایک متنازع قانو ن کے خلاف بلا تفریق مذہب متحد ہوئے ہیں ۔ آخر عوام کے ساتھ یہ انتہائی درجے کا عامیانہ رویہ کب تک ؟

متعلقہ خبریں

This website uses cookie or similar technologies, to enhance your browsing experience and provide personalised recommendations. By continuing to use our website, you agree to our Privacy Policy and Cookie Policy. OK