Inquilab Logo

مجرم کوئی نہیں

Updated: October 01, 2020, 12:01 PM IST | Editorial

ایودھیا میں بابری مسجد کی شہادت ایک سنگین مجرمانہ عمل تھا۔ اس سے کسی کو انکار نہیں ہوسکتا۔ اس واردات کے ملزمین میں سے ایک، اور رتھ یاترا کے ذریعہ جنم بھومی تحریک کو تقویت پہنچانے والے ہندوتوا لیڈر لال کرشن اڈوانی نے انہدامی کارروائی پر’’ اظہار افسوس‘‘ کرتے ہوئے کہا تھا کہ ۶؍ دسمبر اُن کی زندگی کا سب سے غمزدہ کرنے والا دن تھا

Babri Masjid - Pic : PTI
بابری مسجد ۔ تصویر : پی ٹی آئی

 ایودھیا میں بابری مسجد کی شہادت ایک سنگین مجرمانہ عمل تھا۔ اس سے کسی کو انکار نہیں ہوسکتا۔ اس واردات کے ملزمین میں سے ایک، اور رتھ یاترا کے ذریعہ جنم بھومی تحریک کو تقویت پہنچانے والے ہندوتوا لیڈر لال کرشن اڈوانی نے انہدامی کارروائی پر’’ اظہار افسوس‘‘ کرتے ہوئے کہا تھا کہ ۶؍ دسمبر اُن کی زندگی کا سب سے غمزدہ کرنے والا دن تھا۔ اڈوانی غمزدہ اس لئے ہوئے کہ انہدام جرم تھا۔ جرم ہو اور مجرم نہ ہو یہ ممکن نہیں ہے، مگر بابری مسجد انہدام کیس میں تمام ملزمین کا بری کردیا جانا یہ سمجھاتا ہے کہ ’’مجرم کوئی نہیں ہے‘‘۔ یہی وجہ ہے کہ اس فیصلے پر حیرت بھی ہے اور افسوس بھی۔ ایسے میں یہ بات فہم سے بالاتر ہے کہ جب ملزمین کے خلاف شواہد نہیں تھے یا ناکافی تھے تو اتنے سارے ملزمین کے خلاف یہ کیس ۲۸؍ سال تک کیسے چلا۔ ایسے کیس کو تو چند ہی سال میں فیصل ہوجانا چاہئے تھا۔ ایک قدیم اور تاریخی مسجد دن دہاڑے دُنیا کی آنکھوں کے سامنے منہدم کی گئی، مسجد پر ہندوتوا وادیوں کا جم غفیر موجود تھا، قریب یا دور اُن کے لیڈران بھی موجود تھے، مسجد شہید کردیئے جانے کے بعد جشن منایا گیا، طرح طرح کے بیانات دیئے گئے اور یہ سب پوری دُنیا نے دیکھا مگر مجرم کوئی نہیں ہے تو کیا یہ سب خواب و خیال کی باتیں تھیں اور کہیں کچھ نہیں ہوا تھا؟
  سی بی آئی یہ بھی ثابت نہیں کرسکی کہ یہ منظم سازش تھی جبکہ ۶؍ دسمبر کے پہلے سے ایودھیا میں کارسیوکوں کی موجودگی اور جوق در جوق آمد، ایک جنونی کیفیت کا پیدا کیا جانا یا پیدا ہونا، کارسیوکوں کا مسجد پر یلغار کرنا، اس کے گنبدوں پر چڑھ جانا اور پھر محض چند گھنٹوں میں اس قدیم مسجد کا منہدم کردیا جانا جیسے ایک ایک عمل سے ظاہر تھا کہ جو کچھ بھی ہوا وہ اچانک نہیں تھا۔ اگر اچانک نہیں تھا تو منظم تھا۔ اب عدالتی فیصلے سے ظاہر ہوتا ہے کہ یہ منظم بھی نہیں تھا تو پھر کیا تھا؟ یہ سی بی آئی کو بتانا چاہئے جو اتنے برسوں سے اس کی تفتیش میں مصروف تھی۔ جس کیس کے سارے ملزم بری کردیئے جائیں اور یہ معمہ حل نہیں ہو کہ مجرم کون ہے تو ایسے کیس پر صرف ہونے والی توانائی،وقت اور پیسہ سب اکارت جاتا ہے جو ملک کا نقصان ہے، ملک کے عوام کا نقصان ہے۔ اس میں عدالت کا بھی وقت صرف ہوا جہاں لاکھوں مقدمات زیر سماعت یا التواء میں رہتے ہیں۔ ان حالات میں یہ سوال بھی فطری ہے کہ جن ملزمین کو بَری کیا گیا، اگر وہ مجرم نہیں تھے تو مجرم کون تھا؟ یہ انتظامیہ ہی کو بتانا ہوگا چنانچہ ہم تو یہی سمجھتے ہیں کہ جس کیس کا فیصلہ سامنے آیا وہ کیس فیصل ہونے کے باوجود فیصل نہیں ہوا۔ حقیقت یہی سمجھ میں آتی ہے کہ ۲۸؍ سال میں اس کیس کو اتنا کمزور کردیا گیا کہ انصاف ہو بھی نہیں سکتا تھا۔ ستم ظریفی دیکھئے کہ ملزمین میں ایسے لوگ بھی ہیں جو اعلان کررہے ہیں کہ جرم انہی نے انجام دیا تھا اور اگر عدالت سزائے موت سناتی تو وہ اس کیلئے بھی تیار تھے (جے بھگوان گوئل کا بیان)۔ ملزم خود اعلان کرے تو جرم ثابت کرنا زیادہ مشکل نہیں ہونا چاہئے تھا مگر جب انصاف کو یقینی بنانے کا ارادہ ہی نہ ہو تو کیا ہوگا؟ وہی ہوگا جو ہوا۔ مگر قانون کی بالادستی تو مستحکم ہونی چاہئے اس لئے یہ سوال باقی رہے گا کہ جب سپریم کورٹ نے ۶؍ دسمبر کی واردات کو ’’غیر قانونی انہدام‘‘ قرار دیا تھا تب یہ کیسے ممکن ہے کہ سزا کسی کو نہ ہو! سپریم کورٹ ہی نے اڈوانی، جوشی اور اوما بھارتی کے خلاف پہلے سے موجود مذہبی منافرت پھیلانے اور فساد جیسے حالات پیدا کرنے کے الزام کے علاوہ مجرمانہ سازش کا الزام بحال کیا تھا چنانچہ یہ کیسے ممکن ہے کہ جس الزام پر ملک کی سب سے بڑی عدالت نے اصرار کیا ہو وہ ثابت نہ ہوپائے؟ سوالات اور بھی ہیں، اور باقی رہیں گے اس لئے انصاف کے عمل اور عدلیہ کے وقار کے تحفظ کو یقینی بنانے کیلئے ضروری ہے کہ کل کے فیصلے کے خلاف اپیل کی جائے تاکہ انصاف معلق نہ رہے اور مجرموں کو قرار واقعی سزا ملے۔

متعلقہ خبریں

This website uses cookie or similar technologies, to enhance your browsing experience and provide personalised recommendations. By continuing to use our website, you agree to our Privacy Policy and Cookie Policy. OK