Inquilab Logo

بنگلور سانحہ

Updated: August 19, 2020, 9:41 AM IST | Editorial

بنگلور میں جو کچھ ہوا وہ تو افسوسناک تھا ہی، اب جو ہورہا ہے وہ بھی تکلیف دہ ہے۔ وہی پولیس اب جارحیت پر اُتر آئی ہے جو اپنی فعالیت سے اقلیتی طبقے کو ابتداء ہی میں اعتماد میں لے سکتی تھی

Bengaluru Violence - PTI
بنگلور تشدد ۔ تصویر : پی ٹی آئی

بنگلور میں جو کچھ ہوا وہ تو افسوسناک تھا ہی، اب جو ہورہا ہے وہ بھی تکلیف دہ ہے۔ وہی پولیس اب جارحیت پر اُتر آئی ہے جو اپنی فعالیت سے اقلیتی طبقے کو ابتداء ہی میں اعتماد میں لے سکتی تھی۔ اگر شکایت درج کروانے کیلئے پولیس اسٹیشن تک پہنچنے والوں کی ایف آئی آر فوراً سے پیشتر درج کرلی گئی ہوتی اور اہانت آمیز پوسٹ کے ذمہ دار کو بلا تاخیر گرفتار کرلیا گیا ہوتا تو بھیڑ جمع ہوتی نہ مشتعل ہوتی، نہ تشدد برپا ہوتا نہ پولیس کو گولی چلانے کی ضرورت پیش آتی جس میں تین افراد فوت ہوگئے۔ اُس وقت پولیس نے غفلت برتی اور اب معاملات سے یوپی اسٹائل میں نمٹنا چاہتی ہے، وہ چاہے یواے پی اے لگانے کی تیاری ہو یا املاک ضبط کرنے کی۔ اب تو یہ بھی ہورہا ہے کہ ملزمین کے ’کنکشن‘ تلاش کئے جارہے ہیں۔ مثال کے طور پر ایک ملزم کے بارے میں کہا جارہا ہے کہ اس کا کسی گروہ کے لوگوں سے تعلق تھا۔ ہم نہیں جانتے کہ اس میں کتنی صداقت ہے مگر اتنا ضرور محسوس کرتے ہیں کہ اگر ایسا تھا تو ریاستی پولیس اور اس کے سراغرساں ادارے کو بنگلور فساد سے قبل اس کی اطلاع کیوں نہیں ہوئی اور اس نے ضروری کارروائی کیوں نہیں کی؟
 آگے بڑھنے سے قبل عرض کردیں کہ اہانت آمیز پوسٹ کے خلاف جو لوگ ابتداء میں پولیس اسٹیشن پہنچے تھے، اُن کی ذمہ داری تھی کہ وہاں بھیڑ نہ جمع ہونے دیتے۔ واقعات کی تفصیل سے یہ احساس ہوتا ہے کہ بھیڑ میں ایسے لوگ بھی شامل ہوگئے تھے جن کا مقصد تشدد برپا کرنا تھا۔ انہوں نے ’’موقع‘‘ کا فائدہ اُٹھالیا اور پولیس اسٹیشن نیز پولیس کی گاڑیوں کو اپنے ’’غم و غصہ‘‘ کا نشانہ بنایا۔ اس ردعمل کو کسی طور جائز قرار نہیں دیا جاسکتا۔ اگر آپ (بھیڑ کے لوگ) اُس رسولؐ برحق کی شان میں گستاخی کے خلاف جمع ہوئے تھے تو یہ بات اچھی طرح ذہن نشین رکھنی چاہئے تھی کہ آپؐ کی ذات والا صفات نے تو اُن لوگوں کو بھی معاف کردیا تھا جنہوں نے آپؐ پر پتھر برسائے تھے اور اُن لوگوں کیلئے بھی عام معافی کا اعلان کردیا تھا جنہوں نے ظلم و ستم کی طویل داستان رقم کی تھی۔ ایسے موقعوں پر مسلم نوجوانوں کو ایک نہیں دس بار سوچنا چاہئے کہ اُن کے کس عمل کا کیا نتیجہ نکلے گا اوردورو نزدیک یہ خبر پہنچے گی تو اُسے کس طرح دیکھا جائے گا۔ 
 ردعمل کے اظہار کا کوئی بھی پُرتشدد طریقہ قابل قبول نہیں ہے۔ قانو ن کو اپنے ہاتھوں میں لینے کی کوشش چاہے جو کرے، قابل مذمت ہے۔ اس ملک میں آپ کے سامنے جمہوری طریقے ہیں۔ مگر جب مظاہرین تشدد پر اُتر آتے ہیں تو  برادران وطن میںاس اقلیتی فرقہ کی شبیہ خراب ہوتی ہے اور اُس کے حامیوں اور ہمدردوں کو تکلیف پہنچتی ہے جو اُس کیلئے انصاف طلب کرنے میں بادِ مخالف سے بھی لڑ جانے کا حوصلہ رکھتے ہیں۔اس ضمن میں ہم یہ بھی کہنا چاہیں گے کہ نوجوانوں کے سرپرستوں کی بھی ذمہ داری تھی کہ وہ اُنہیں سمجھاتے اور قانون ہاتھ میں لینے سے روکتے کیونکہ ایسی حرکتیں اُن کیلئے بھی بدنامی اور پریشانی کا باعث بنتی ہیں اور پورے فرقے کی جانب بھی اُنگلیاں اُٹھتی ہیں نیز اس بے بنیاد پروپیگنڈہ کو تقویت ملتی ہے کہ مسلمان مشتعل مزاج ہوتے ہیں۔
 جو لوگ پولیس میں شکایت درج کرانا چاہتے تھے، ان کے بارے میں سمجھا جاسکتا ہے کہ اُن کے جذبات اہانت آمیز پوسٹ سے مجروح ہوئے تھے جو کہ قطعی فطری ہے، مگر بعد میں جو لوگ جمع ہوئے، اُن کے تعلق سے اب یہ اطلاع مل رہی ہے کہ وہ لوگ مبینہ طور پر چار مقامی سیاستدانوں کی سیاست کا ہدف بن گئے۔ اگر یہ اطلاع درست ہے تو اس سے یہی نتیجہ اخذ کیا جائیگا کہ ان سیاستدانوں نے مسلمانوں کے مجروح جذبات کا فائدہ اُٹھانے کی مذموم کوشش کی۔ بتایا جاتا ہے کہ بنگلور مہانگر پالیکا کے منتخب اراکین کی میعاد ِ کار آئندہ ماہ ختم ہورہی ہے۔ تو کیا یہ سمجھا جائے کہ حالات انتخابی فائدہ اُٹھانے کیلئے دانستہ بگاڑے گئے؟ 

bengaluru Tags

متعلقہ خبریں

This website uses cookie or similar technologies, to enhance your browsing experience and provide personalised recommendations. By continuing to use our website, you agree to our Privacy Policy and Cookie Policy. OK