Inquilab Logo

اُترپردیش کے انتخابی نتائج کی بنیاد پرملک میں آئندہ کی سیاست کا راستہ ہموارہوگا

Updated: March 08, 2022, 4:08 PM IST | Dilip Mandal

The Samajwadi Party rallies are seeing a lot of crowds these days..Picture:INN
سماجوادی پارٹی کی ریلیوں میں ان دنوں کافی بھیڑ دیکھی جارہی ہے۔ تصویر: آئی این این

 اترپردیش میں تمام پارٹیوں نے اپنی اپنی حکمت عملیاں ترتیب دی ہیں اور اس کے مطابق چالیں بھی چل چکی ہیں۔ ٹکٹوں کی تقسیم اور مختلف سماجی گروپوں کو اس میں حصہ دینا یا نہ دینا بھی ایک سیاسی چال ہوتا ہے، اسلئے  ٹکٹوں کی تقسیم کا سماجی جائزہ بھی انتخابی تجزیے میں کیا جاتا ہے۔ یہ جائزہ بتاتا ہے کہ سیاسی جماعتیں مختلف سماجی گروہوں کو کتنی اہمیت دیتی ہیں اور ان کی جانب سے کس قسم کی سماجی مساوات پیدا کرنے کی کوشش کی جا رہی ہے۔   لندن یونیورسٹی کے ’رائل ہولوے‘کے پی ایچ ڈی اسکالر اور ماہر سیاسیات اروند کمار نے یوپی اسمبلی انتخابات میں حصہ لینے والی بڑی جماعتوں اور اتحادوں کے امیدواروں کا الگ الگ سماجی ’حساب کتاب‘ پیش کیا ہے۔ ان میں سے کچھ اعداد و شمار کی بنیاد پر، میں ایک تقابلی جائزہ پیش کرنے کی کوشش کروں گا، جس سے یہ سمجھنے میں آسانی ہوگی کہ پارٹیوں نے ٹکٹوں کی تقسیم کیسے کی اور ان کے سماجی مساوات کی بنیاد کیا ہے؟اس سے سیاسی جماعتوں کی اندرونی ساخت اور ان کے یہاں مختلف سماجی طبقوں کی حیثیت کا اندازہ لگایاجاسکتا ہے۔یہ اعداد و شمار تمام۴۰۳؍ اسمبلی سیٹوں کے ہیں۔ مقابلے میں شامل جماعتوں میں بی ایس پی  تنہایہ الیکشن لڑ رہی ہے، جبکہ بی جے پی اور ایس پی نے چھوٹی چھوٹی جماعتوں سے اتحاد کیا ہے۔

 بی جے پی: پارٹی نےسب سے زیادہ۱۷۳؍ ٹکٹ دیئے  ہندو اعلیٰ ذاتوں کو دیئےہیں۔ ان میں ٹھاکروں کی سب سے زیادہ۷۱؍ سیٹیں ہیں جبکہ برہمنوں کو۶۸؍ ٹکٹ دیئے گئے ہیں۔ بی جے پی نے مسلمانوں کو ایک بھی ٹکٹ نہیں دیا۔ اس کی اتحادی جماعت اپنا دل (ایس) نے ایک مسلم امیدوار کھڑا کیا ہے۔ بی جے پی کی جانب سے ٹکٹوں کی تقسیم میں او بی سی کا اچھا (۱۴۳) حصہ ہے۔  ان میں کرمی اور موریہ/کشواہا کو او بی سی میں ترجیح ملی ہے۔بی جے پی نے صرف ریزرو سیٹوں  ہی سے ایس سی امیدواروں کو کھڑا کیا ہے۔ ان میں چمار/جاٹو (۲۷) اور پاسی (۲۵) کو زیادہ نشستیں دی گئی ہیں۔

سماجوادی پارٹی: او بی سی کو ٹکٹ دینے میں سماج وادی پارٹی اپنے تمام حریفوں سے آگے ہے۔ اس نے۱۷۱؍ او بی سی امیدواروں کو میدان میں اتارا ہے۔ او بی سی میں یادو (۵۲) اور کرمی (۳۷) کو ترجیح دی گئی ہے۔ پارٹی نے۶۳؍ مسلم اور۳۹؍ برہمن امیدوار بھی کھڑے کئے ہیں۔ ایس سی سیٹوں میں سب سے زیادہ حصہ چمار/جاٹو (۴۲) کو دیا گیا ہے۔

بی ایس پی: بی ایس پی نے مسلمانوں کو۸۶؍، برہمنوں کو۷۰؍ اور چماروں/جاٹوں کو۶۵؍ ٹکٹ دیئے ہیں۔ بی ایس پی نے ان تین سماجی گروپوں کو سب سے زیادہ ٹکٹ دیئے ہیں۔ اس کے علاوہ۱۱۴؍ ٹکٹ او بی سی کو بھی دیئے گئے ہیں جن میں کرمیوں کو۲۴؍، یادو کو۱۸؍ اور موریہ، کشواہا کو ۱۷؍ ٹکٹ ملے ہیں۔  ٹکٹوں کی تقسیم سے ظاہر ہوتا ہے کہ تمام پارٹیوں نے یہ کام پارٹی کے نظریے، تنظیمی ڈھانچے اور اپنے سیاسی ویژن کے مطابق کیا ہے۔ ٹکٹوں کی تقسیم میں یہ بھی بتایا گیا ہے کہ ہندوستان نے بلاشبہ جمہوریت کی شکل میں جدید طرز حکمرانی کو اپناتو لیا ہے لیکن انتخابات، کمیونٹی موبلائزیشن کی بنیاد پر ہی لڑے جارہے ہیں۔ ان تحریکوں میں ذات اور مذہب بنیادی حیثیت رکھتے ہیں۔ ساتھ ہی یہ بھی ظاہر کرتا ہے کہ ہندوستان آج بھی سماج سے زیادہ برادری پر مبنی سیاست کے دور میں ہے۔ان جماعتوں کی ٹکٹوں کی تقسیم کے اعداد و شمار کو ایک ایک کرکے دیکھا جائے تو کچھ دلچسپ باتیں سامنے آتی ہیں۔  مثال کے طور پر، وقت بے شک بدل رہا ہے، لیکن بی جے پی ساورکر  ہی کے بتائے ہوئے ہندوتوا کے راستے پر چل رہی ہے جس میں مسلمانوں کیلئے کوئی جگہ نہیں ہے۔ یہی وجہ ہے کہ اس نے یوپی میں ایک بھی مسلم امیدوار کو ٹکٹ نہیں دیا۔ مسلم کمیونٹی کو نظر انداز کرنا جو کہ آبادی کا تقریباً۲۰؍ فیصد ہے، بی جے پی کی سیاسی سوچ کے مطابق ہے۔ ہندوپولرائزیشن میں یہ بی جے پی کیلئے مددگار ثابت ہوتا ہے۔  بی جے پی کی کہانی کا دوسرا حصہ اعلیٰ ذات کا متحرک ہونا ہے۔ ایس پی اور بی ایس پی کے عروج کے بعد یوپی کی سیاست میں اونچی ذات برادریوں کا حصہ کم ہوا تھا۔ خاص طور پر اعلیٰ ترین عہدے پر ایک دلت اور پسماندہ قیادت کافی عرصے سے تھی۔ اب بی جے پی نے اعلیٰ ذات کی قیادت میں واپسی کی ہے۔ ’کرسٹوف جیفرولو‘ نے سیاست میں پسماندہ ذاتوں کے عروج کو خاموش انقلاب قرار دیا تھا۔ بی جے پی نے اب جوابی انقلاب برپا کر  دیا ہے۔ بی جے پی کا اعلیٰ ذاتوں کو زیادہ سے زیادہ ٹکٹ دینا فطری ہے۔  جہاں تک سماجوادی پارٹی کا تعلق ہے، اس نے اپنی پرانی مساوات کو دُہرانے کی کوشش کی ہے۔ اس نے سب سے زیادہ بھروسہ مسلمانوں (۶۳) اور یادووں (۵۲) پر کیا ہے۔ مغربی یوپی میں، ایس پی اتحاد نے ۱۶؍  جاٹ امیدوار دیئے ہیں، جس کی مدد سے وہ کسانوں کی تحریک پر سوار ہونے کا ارادہ رکھتی ہے۔  سماجوادی کا حساب یہ بھی ہے کہ برہمن بی جے پی  سے بالخصوص یوگی آدتیہ ناتھ سے ناراض ہیں۔ یہ سوچ کراس نے۳۹؍ برہمن امیدوار کھڑے کئے ہیں۔ ٹھاکر اس بار شاید ہی بی جے پی کو چھوڑیں گے، پھر بھی سماجوادی کی فہرست میں۲۳؍ ٹھاکر بھی ہیں۔ایسا شاید اسلئے  ہوا ہے کہ ٹھاکر طویل عرصے سے ایس پی سے جڑے ہوئے ہیں اور ایس پی کے پارٹی ڈھانچے میں اُن  کا اب بھی اثر ہے۔ ٹکٹوں کی تقسیم میں ان کا کردار نظر آرہا ہے البتہ ایس پی نے اصل داؤ او بی سی پر کھیلا ہے۔  اسے لگتا ہے کہ یوگی آدتیہ ناتھ سے ناراض ہونے کی وجہ سے او بی سی اس کی طرف آئیں گے۔  بی ایس پی بڑے پیمانے پر۲۰۰۷ء کی حکمت عملی پر ہی عمل پیرا ہے، جب اسے پہلی بار اسمبلی میں اپنے طور پر اکثریت حاصل ہوئی تھی۔ اروند کمار  کے مطابق یہ  حاشئے پر کھڑے طبقوں کا اتحاد ہے،جس میں برہمنوں، دلتوں اور مسلمانوں کو اکٹھا کرنے کی کوشش کی گئی ہے۔ یہ روایتی طور پر کانگریس کا ماڈل رہا ہے، لیکن کانگریس کے ماڈل میں پہلی پوزیشن اونچی ذات کیلئے مختص ہوتی تھی۔ بی ایس پی کے ماڈل میں وہ پوزیشن دلت قیادت کو حاصل ہے۔ بی ایس پی کے ٹکٹوں کی تقسیم میں مسلمانوں، برہمنوں اور چماروں /جاٹوں کو جو اہمیت دی گئی ہے، اسی کے مطابق ہے۔  اس طرح ہمیں معلوم ہوتا ہے کہ سیاسی جماعتوں نے ٹکٹوں کی تقسیم میں کوئی حیران کن کام  طریقہ اختیارنہیں کیا ہے۔ہر ایک نے اپنی بنیادی ووٹر برادری کا خیال رکھا ہے اور ممکنہ شراکت دار برادریوں کو راغب کرنے کی کوشش کی ہے۔  اب ووٹنگ میں کچھ بڑے سوالات کا فیصلہ ہونا ہے۔  

اول: کیا برہمن بی جے پی کو چھوڑ کر ایس پی یا بی ایس پی کی طرف بڑھیں گے؟

 دوم: کیا بی ایس پی اپنے چمار/جاٹو کے ووٹ بینک کو بچانے میں کامیاب ہوگی، جسے ایس پی اور بی جے پی للچائی نظروں سے دیکھ رہی ہیں؟ 

 سوم: کیا ایس پی کا او بی سی کو اپنی جانب لانے کا تجربہ کامیاب ہوگا؟

 چہارم: کیا مسلمان ایس پی اور بی ایس پی میں منقسم ہوں  گے یا  متحد ہوکر کسی ایک طرف  جائیں گے؟

 پنجم: اور ان سب کے علاوہ کیا ترقی، لابھارتی، مہنگائی، بے روزگاری، امن و امان اور ایسے دیگر تمام مسائل  ذات پات اور مذہب کی تقسیم پر بھاری پڑیں گے؟  یوپی کے انتخابی نتائج کا انحصار ان تمام چیزوں پر ہوگا۔

متعلقہ خبریں

This website uses cookie or similar technologies, to enhance your browsing experience and provide personalised recommendations. By continuing to use our website, you agree to our Privacy Policy and Cookie Policy. OK