Inquilab Logo

وہ ہستیاں جن سے اللہ نے خود رضامندی کا اظہار کیا

Updated: September 18, 2020, 10:29 AM IST | Mufti Tanzeem Alam Qasmi

سرکار دو عالم ؐ نے فرمایا: ’’میرے صحابہ کے بارے میں اللہ سے ڈرو، میرے بعد ان کو طعن و تشنیع کا نشانہ نہ بنائو ؛ کیوںکہ جس نے ان کو ایذا پہنچائی اس نے مجھے ایذا پہنچائی اور جس نے مجھے ایذا پہنچائی اس نے اللہ کو ایذا پہنچائی۔‘‘

Mecca Sharif - Pic : INN
مکہ شریف ۔ تصویر : آئی این این

صلح حدیبیہ ۶ھ کی بات ہے ، جب رسول اکرم ا نے مقام حدیبیہ سے حضرت عثمان غنی ص کو مکہ روانہ کیا تاکہ اہل مکہ کو اس بات کا یقین دلائیں کہ مسلمان عمرہ کرنے کے ارادہ سے مکہ آرہے ہیں، جنگ و جدال مقصد نہیں، حضرت عثمان غنی ص مکہ پہنچے اور رسول اللہ ا کا پیغام سنایا، سب نے بالاتفاق جواب دیا کہ اس سال تو عام مسلمانوں کو اس کی اجازت نہیں؛ البتہ تم اگر چاہو تو تنہا طواف کر سکتے ہو، حضرت عثمان غنی ص نے فرمایا: یہ مجھ سے نہیں ہوسکتا کہ رسول اکرم ا کے بغیر میں طواف کرلوں۔ اس جواب میں اللہ کے نبی ا سے بے پناہ عقیدت و محبت کا اظہار ہے، اس لئے قریش کو یہ جواب اچھا نہیں لگا، ان کو غصہ آگیا اور حضرت عثمان غنی صکو مکہ میں روک لیا گیا۔ ادھر مسلمانوں میں یہ خبر مشہور ہوگئی کہ عثمان غنیؓ قتل کر دئیے گئے ، رسول اللہ ا کو جب یہ اطلاع ملی تو آپؐ  کو بہت صدمہ ہوا اور ارشاد فرمایا کہ جب تک میں اہل مکہ سے بدلہ نہ لے لوں گا، یہاں سے حرکت نہیں کروں گا اور وہیں کیکر (ببول) کے درخت کے نیچے جس کے سائے میں فروکش تھے، صحابۂ کرام ث سے اس بات پر بیعت لینی شروع کردی کہ جب تک جان میں جان ہے کافروں سے جہاد و قتال کرتے رہیں گے، مگر میدان جہاد سے نہیں بھاگیں گے۔
یہ ایسی بیعت تھی جس میں صحابۂ کرام ث نے خون کے آخری قطرے تک رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے ساتھ مل کر جہاد کرنے کا سچا وعدہ کیا تھا، انسان جب میدان جنگ کی طرف بڑھتا ہے تو اسے یہ معلوم نہیں ہوتا کہ دوبارہ اپنے اہل و عیال سے ملنے اور انہیں دیکھنے کا موقع ملے گا یا نہیں، صحابۂ کرام ث کو بھی کیا خبر کہ میدان جہاد سے گھر واپس ہوسکیں گے یا یہیں شہید کر دئیے جائیں گے۔ بظاہر کفار مکہ کا غلبہ تھا، ان کی شان و شوکت اور اسباب و وسائل کی کثرت کے سبب فتح پانے کی امید کم تھی، اس کے باوجود صحابۂ کرامؓ  نے  آپؐ سے جہاد کی بیعت کی اور اس صراحت کے ساتھ کہ یا تو حضرت عثمان غنیؓ کے خون کا بدلہ لیں گے یا لڑتے لڑتے مر جائیں گے۔ اپنی زندگی کس کو پیاری نہیں ہوتی، ہر آدمی اپنی جان کا تحفظ چاہتاہے، مگر غور کیجئے کہ کس کی محبت میں جان جیسی عظیم چیز یہاں قربان کرنے کی بیعت کی جارہی ہے؟ صرف اللہ اور اس کے رسول صلی اللہ علیہ وسلم کی محبت پیش نظر ہے، جس کی وجہ سے دل و دماغ میں جوش و ولولہ موجزن ہے اور جان و زندگی بھی قربان کرنا ان کے لئے آسان ہوگیا، اللہ تعالیٰ کو صحابۂ کرام ث کا یہ عمل اتنا پسند آیا کہ ان سے اپنی رضا مندی کا اعلان کردیا اور ان کو جنت کی بشارت دی گئی، ارشاد باری ہے: 
’’بیشک اﷲ مومنوں سے راضی ہو گیا جب وہ (حدیبیہ میں) درخت کے نیچے آپ سے بیعت کر رہے تھے، سو جو (جذبۂ صِدق و وفا) ان کے دلوں میں تھا اﷲ نے معلوم کر لیا تو اﷲ نے ان پر خاص تسکین نازل فرمائی اور انہیں ایک بہت ہی قریب فتحِ (خیبر) کا انعام عطا کیا۔‘‘ (الفتح: ۱۸)
اس بیعت سے خوش ہو کر چونکہ اللہ تعالیٰ نے اپنی رضامندی کا اعلان کیاتھا؛ اس لئے اس بیعت کو بیعت الرضوان ’’رضا مندی کی بیعت‘‘ کہا جاتا ہے، رسول اکرمؐ  نے بھی بیعت کرنے والے صحابہ کرام ؓ کی بڑی فضیلتیں بیان کی ہیں، ایک موقع پر آپ ؐ نے فرمایا: 
’’جن لوگوں نے اس درخت کے نیچے بیعت کی ہے، ان میں کوئی جہنم میں نہیں جائے گا۔‘‘ (ابو داؤد  حدیث نمبر : ۴۰۳۴)
واضح رہے کہ قرآن مجید کی دیگر آیات میں تمام صحابۂ کرامؓ  سے متعلق یہ خوشخبری دی گئی کہ  ان  کے پختہ ایمان، صداقت و دیانت اور عشق رسولؐ  کے سبب خدا ان سے راضی ہوگیا ہے ، ان کا مقام و مرتبہ اُمت کی دیگر جماعتوں سے بہت زیادہ بڑھا ہوا ہے، سورۂ توبہ آیت ۱۰۰؍میں ان صحابۂ کرام ث کے بارے میں کہا گیا ہے: 
’’اور جو مہاجرین و انصار ایمان لانے میں سب اُمت سے مقدم ہیں اور جتنے لوگ اخلاص کے ساتھ ان کے پیرو ہیں، اللہ تعالیٰ ان سب سے راضی ہوا اور وہ سب اللہ سے راضی ہوئے اور اللہ تعالیٰ نے ان کے لئے ایسے باغ تیار کر رکھے ہیں جن کے نیچے نہریں جاری ہوں گی، جن میں وہ ہمیشہ رہیں گے اور یہ بڑی کامیابی ہے۔‘‘
صحابہ ث  کے بارے میں کہیں ارشاد ہے:  ’’ایسے ہی لوگ دین کی راہ پر ثابت اور گامزن ہیں۔‘‘ (الحجرات:۷) کہیں ان کو کامیاب جماعت کہہ کر پکارا گیا ہے: ’’یہی لوگ کامیاب ہیں‘‘ (النور:۵۱)  اور کہیں ’’یہی لوگ سچے ہیں‘‘  (الحشر:۸) کا تمغہ دیاگیا ہے۔ صحابہ کرام ث  کو اللہ نے صحبت نبوی ا کی وجہ سے  گناہوں سے محفوظ کر رکھا تھا، اس جماعت کا ہر فرد صلاح وتقویٰ اور  اخلاص و للہیت کے اعلیٰ مقام پر تھا، فیض نبوتؐ نے ان کے دلوں کا کامل تزکیہ و تصفیہ کر دیاتھا، ان کا کردار اور ان کی سیرت پاک و صاف اور ایسی پختہ تھی کہ مذکورہ آیات کے علاوہ اور بھی متعدد مقامات میں فوز و فلاح کی بشارت دی گئی اور جیتے جی ان کو جنت کا پیغام دیاگیا، یہی وجہ ہے کہ رسول اکرم ا نے پوری امت کو اپنے صحابہ ث کے اکرام و احترام کی تعلیم دی ہے، ایک حدیث میں آپ انے فرمایا:’’ میرے اصحاب کا اکرام کرو اس لئے کہ وہ تم میں سب سے بہترین ہیں۔‘‘ (مصنف عبدالرزاق)  ایک موقع پر آپ انے فرمایا:  ’’میرے صحابہ کے بارے میں اللہ سے ڈرو، اللہ سے ڈرو، میرے بعد ان کو طعن و تشنیع کا نشانہ نہ بنائو ؛ کیوںکہ جس نے ان سے محبت کی، مجھ سے محبت کی وجہ سے ان سے محبت کی اورجس نے ان سے بغض رکھا تو مجھ سے بغض کی وجہ سے ان سے بغض رکھا، جس نے ان کو ایذا پہنچائی اس نے مجھے ایذا پہنچائی اور جس نے مجھے ایذا پہنچائی اس نے اللہ کو ایذا پہنچائی اور جو اللہ کو ایذا پہنچانا چاہے تو قریب ہے کہ اللہ کا عذاب اس کو اپنی گرفت میں لے لے۔‘‘ 
(ترمذی حدیث نمبر : ۳۷۹۷)
اس حدیث میں ان لوگوں کے لئے سخت وعید ہے جو صحابۂ کرام ث کو اپنی تنقید کا نشانہ بناتے ہیں یا کسی بھی طرح ان کی حیثیت کم کرنے کی کوشش کرتے ہیں۔صحابۂ کرام ث کی عزت و شرف کے لئے یہی کافی ہے کہ ان کو صحبت نبوی ا حاصل تھی۔ اس سلسلے میں یہ سوچنا اور سمجھنا لازم ہے کہ صحابہ کرام ث کو درسگاہ نبوت کا فیض حاصل تھا، اسلام کے شروع زمانے میں انہوں نے جان ومال کے ذریعہ حضورؐ کا تعاون کیا، تبلیغ اور اشاعت اسلام کے لئے اپنا سب کچھ قربان کردیا، وہ رسول ا کے سچے عاشق اور محب تھے، اسلئے حضرات علماء نے لکھاہے کہ ان کے بارے میں کوئی ایسی بات کہنا جس کا مقصد لوگوں میں ان کو بے حیثیت کرنا اور ان کے دل میں ان کے لئے بغض پیدا کرنا ہو، جائز نہیں ہے، حافظ ذہبی فرماتے ہیں: 
’’صحابہ کرام کو جس نے مطعون کیا یا ان کو برا بھلا کہا وہ دین اسلام سے نکل گیا اورمسلمانوں کی ملت و جماعت سے وہ کٹ گیا۔‘‘ (الکبائر: ۲۲۸) 
صحابہ کرام ث کا اللہ کے یہاں اس قدر مقام بلند ہے کہ بعد کے لوگ بڑے سے بڑا کارنامہ انجام دیں تو صحابہ کرام ث کے مقام کو نہیں پا سکتے، کتنے خوش قسمت تھے یہ لوگ جن کو آسمانی وحی میں پاک، سچا اور کامیاب بتایا گیااور ارشادات رسول ا کے ذریعہ جن کی عظمت کو ظاہر کیاگیا۔ غور طلب پہلو یہ ہے کہ آخر وہ کون سی چیز ہے جس نے صحابہ کرام ث کو اس عظیم مرتبہ پر فائز کیا، حالات ِصحابہ ث کے مطالعہ سے معلوم ہوتا ہے کہ عشق نبوی ا ان کا ممتاز وصف تھا، جس کے سبب تمام امور کی انجام دہی ان کے لئے آسان ہوگئی تھی

متعلقہ خبریں

This website uses cookie or similar technologies, to enhance your browsing experience and provide personalised recommendations. By continuing to use our website, you agree to our Privacy Policy and Cookie Policy. OK