Inquilab Logo

بائیڈن کے دو ماہ

Updated: March 24, 2021, 12:47 PM IST | Editorial

ونالڈ ٹرمپ کے چار سالہ اقتدار کو یاد کیجئے۔ ہر نیا دن کسی نئے طوفان کا منظر پیش کرتا تھا۔ صدر صاحب کبھی کسی پر برس پڑے، کسی کو نکال دیا، کسی کو ہٹا دیا، کسی متنازع حکمنامے پر دستخط کردیئے، کسی کے خلاف طومار باندھ دیا، کسی سے اختلاف کو دشمنی میں بدل دیا اور اگر یہ سب نہیں تو کچھ اور کربیٹھے۔

Joe Biden - Pic : INN
جو بائیڈن ۔ تصویر : آئی این این

 ڈونالڈ ٹرمپ کے چار سالہ اقتدار کو یاد کیجئے۔ ہر نیا دن کسی نئے طوفان کا منظر پیش کرتا تھا۔ صدر صاحب کبھی کسی پر برس پڑے، کسی کو نکال دیا، کسی کو ہٹا دیا، کسی متنازع حکمنامے پر دستخط کردیئے، کسی کے خلاف طومار باندھ دیا، کسی سے اختلاف کو دشمنی میں بدل دیا اور اگر یہ سب نہیں تو کچھ اور کربیٹھے۔ یہ آئے دن کا معمول بن گیا تھا۔ وہ ان معنی میں امریکہ کی سب سے زیادہ ’’غیر یقینی شخصیت‘‘ تھے کہ کب کیا کربیٹھیں گے یا کب اُن سے کیا سرزد ہوجائیگا اس کا علم کسی اور کو تو کیا، خود اُنہیں بھی نہیں ہوتا تھا۔ نئے صدر بائیڈن کے عہدۂ صدارت سنبھالنے کے بعد سے اب تک ایسے سکون کا احساس ہورہا ہے جو طوفان گزرنے کے بعد چاروں طرف پھیل جاتا ہے اور راحت دیتا ہے۔ بائیڈن اپنی انتظامی مشاقی اور سیاسی تجربہ و دانشمندی سے نہایت خاموشی کے ساتھ صدارتی ذمہ داریوں کو اس طرح نبھا رہے ہیں کہ نہ کسی پر برہم ہوتے ہیں نہ کسی کو ہٹاتے ہیں، نہ تو کسی متنازع حکمنامے پر دستخط کرتے ہیں نہ ہی کسی کے خلاف طومار باندھتے ہیں۔ 
 قارئین جانتے ہیں کہ بائیڈن نے اپنے اقتدار کے پہلے ہی دن پندرہ ایگزیکیٹیو آرڈرس پر دستخط کئے تھے جن میں متنازع سفری پابندیوں کا خاتمہ اور پیرس ماحولیاتی معاہدہ کی بحالی جیسے حکمنامے شامل تھے۔ یہ وہ وقت تھا جب ٹرمپ کے حامیوں کی دھینگا مشتی جاری ہی تھی۔ انہوں نے اس کی پروا نہیں کی بلکہ پوری بہادری کے ساتھ ٹرمپ کی متنازع پالیسیوں کو ختم کرنے پر توجہ مرکوز کی۔ وہ امریکہ کے غالباً پہلے صدر ہیں جن کی صدارت کا آغاز بے شمار چیلنجوں کے ساتھ ہوا، بالخصوص کورونا کی ہلاکت خیزی اور پیدا شدہ حالات کا چیلنج۔ ٹرمپ کی بد انتظامی کے سبب کورونا کے خلاف امریکہ کی جنگ کسی ترقی یافتہ ملک کی جنگ نہیں معلوم ہورہی تھی۔
  بائیڈن کو اپنے پیش رو کی بد انتظامی کو حسن انتظام میں بدلنا تھا جس کیلئے وقت درکار تھا۔ شاید اسی لئے اُنہوں نے اب تک باقاعدہ پریس کانفرنس نہیں کی ہے۔ اُن کے پیش رو ٹرمپ نے حلف لینے کے بعد ۲۷؍ویں دن پہلی پریس کانفرنس کی تھی جبکہ اُن سے بھی پہلے بارک اوبامہ نے ۲۰؍ ویں دن۔ جہاں تک بائیڈن کی پریس کانفرنس کا تعلق ہے، اعلان کیا گیا ہے کہ وہ آئندہ روز (۲۵؍ مارچ) کو میڈیا سے باقاعدہ خطاب کریں گے۔ اس سے اُن کی سنجیدگی اور سوجھ بوجھ کا اندازہ کیا جاسکتا ہے۔ ٹرمپ کی طرح کچھ بھی بول کر نکل جانا ہوتا تو پریس کانفرنس میں اتنی تاخیر نہ ہوتی۔ خیال کیا جاتا ہے کہ ۲۵؍مارچ کو جب بائیڈن میڈیا سے گفتگو کریں گے تو اپنی دو ماہی کارکردگی کا خلاصہ پیش کریں گے بالخصوص یہ کہ ان کے انتظامیہ نے کورونا کی وباء کے خلاف کون کون سے اقدامات کئے۔ 
 ٹرمپ کا دور ایسا زخم تھا جس کی ہر ٹیس کو بھول جانا ہی بہتر ہے مگر یہ اسی وقت ہوگا جب اُس دور کے منفی اقدامات سے نجات حاصل کرلی جائے۔ سابقہ دور میں نسلی امتیاز اس حد تک بڑھ گیا تھا کہ سیاہ فام شہریوں کو سڑکوں پر آنا پڑا۔ ٹرمپ نے ان کے جمہوری احتجاج کے خلاف طاقت کے استعمال کی حمایت کی تھی جس سے نسل پرستوں کو شہ ملی تھی۔ بائیڈن سے اُمید کی جاتی ہے کہ وہ ایسے نئے قوانین کو راہ دیں گے اور ملک میں ہم آہنگی اور بھائی چارہ کا ایسا ماحول پیدا کریں گے جس سے نسل پرستی کو زیر کیا جاسکے۔ اس سلسلے میں ان کا حالیہ بیان قابل ستائش ہے کہ امریکہ کیلئے اُن قوانین میں تبدیلی ناگزیر ہے جو نسلی امتیاز کو بڑھاوا دیتے ہیں۔

متعلقہ خبریں

This website uses cookie or similar technologies, to enhance your browsing experience and provide personalised recommendations. By continuing to use our website, you agree to our Privacy Policy and Cookie Policy. OK