Inquilab Logo

بہار اسمبلی انتخابات: یہ اونٹ کس کروٹ بیٹھے گا؟

Updated: October 18, 2020, 11:02 AM IST | Dr Mushtaque Ahmed

اس بار کا اسمبلی الیکشن کئی معنوں میں گزشتہ انتخابات سے الگ ہے۔ اس بار کہیں بھی براہِ راست مقابلے کا امکان نہیں ہے بلکہ سہ رخی اور چہار رخی مقابلے کا امکان ہے، ایسے میں بہار کی سیاست کا اونٹ کس کروٹ بیٹھے گا، یہ کہنا ابھی بہت مشکل ہے

Bihar Assembly Election 2020 - Pic : INN
بہار اسمبلی اللیکشن ۲۰۲۰ ۔ تصویر : آئی این این

بہار میں اسمبلی انتخاب کا بگل بج چکا ہے اور تمام سیاسی جماعتیں اپنی کامیابی کو یقینی بنانے کی ہر وہ ترکیب اپنا رہی ہیں جس کے ذریعہ اس کے امیدوار اپنے مقابل کو شکستِ فاش دے سکیں، مگر حقیقت یہ ہے کہ اس بار کے اسمبلی انتخاب کا مطلع گزشتہ انتخاب کی طرح اتنا صاف نہیں ہے۔ ایک طرف حکمراں جماعت اپنی ۱۵؍ سالہ کارکردگی کو لے کر عوام الناس کے سامنے کھڑی ہے تو دوسری طرف مخالف جماعتیں حکومت کی ناکامیوں کو گنا کر اپنی حمایت میں ووٹ حاصل کرنے کیلئے کوشاں ہیں۔ دریں اثنا کئی چھوٹی چھوٹی جماعتیں بھی دوبڑے اتحادیوں کو چونکانے کی مہم میں سرگرداں ہیں۔
 واضح ہو کہ ایک طرف قومی جمہوری اتحاد ہے جس میں وزیر اعلیٰ نتیش کمار کی قیادت والی جنتا دل متحدہ اور بی جے پی شامل ہیں تو دوسری طرف عظیم اتحاد میں راشٹریہ جنتا دل اور کانگریس کے ساتھ کئی علاقائی جماعتوں نے خود کو اس میں ضم کرلیا ہے۔ کچھ ماہ پہلے تک جیتن رام مانجھی عظیم اتحاد میں تھے لیکن اب وہ این ڈی اے میں شامل ہیں اور مکیش سہنی کی وی آئی پی نے بھی جنتا دل متحدہ کا دامن تھام لیا ہے جبکہ عظیم اتحاد میں شامل اوپیندر کشواہا نے خود کو اس اتحاد سے الگ کرلیا ہے اور ایک نیا اتحاد وجود میں آیا ہے جس میں دیویندر پرساد یادو، اوپندر کشواہا اور مجلس اتحاد المسلمین شامل ہیں۔ بہار میں این ڈی اے اور عظیم اتحاد دونوں سے الگ راہ اپنانے والے راجیش رنجن عرف پپو یادو نے بھی ان دونوں سے الگ رہ کر اپنے وجود کا احساس کرانے کا فیصلہ کیا ہے۔ یہ ایک عجیب اتفاق ہے کہ مرکز میں آنجہانی رام ولاس پاسوان کی لوک جن شکتی پارٹی قومی جمہوری اتحاد کے ساتھ ہے لیکن بہار اسمبلی انتخاب میں لوک جن شکتی پارٹی  بی جے پی کے امیدوار کے سامنے اپنے امیدوار نہیں کھڑا کرنے کا فیصلہ کیا مگر جنتا دل متحدہ کے امیدواروں کے خلاف اپنے امیدوار اتار دئیے ہیں۔
 چوں کہ بہار میں الگ الگ اضلاع میں مرحلہ وار ووٹنگ ہونی ہے، اسلئے سیاسی جماعتیںاپنے امیدواروں کی لسٹ بھی قسطوں میں شائع کررہی ہیں ۔ نتیجہ ہے کہ ایک پارٹی کے ویسے لیڈر جنہیں ٹکٹ سے محروم ہونا پڑ رہا ہے وہ دوسری جماعت کے ساتھ کھڑے ہو رہے ہیں اور کم وبیش تمام سیاسی جماعتوں میں یہی صورتحال دیکھنے کو مل رہی ہے۔ غرض کہ باغیوں کی تعداد بھی کم نہیں ہے۔ اسلئے کوئی بھی سیاسی جماعت یہ دعویٰ کرنے سے پرہیز کر رہی ہے کہ وہ اکثریت حاصل کرے گی البتہ اپنی جیت کا دعویٰ سبھی کر رہی ہیں۔کورونا کی وبا اور پھر لاک ڈائون سے پیدا شدہ مسائل کی وجہ سے اس اسمبلی انتخاب میں وہ چہل پہل دیکھنے کو نہیں مل رہی ہے ۔عوام الناس کے اندر کوئی جوش نظر نہیں آرہا ہے بلکہ سیاسی جماعتوں کے کل وقتی کارکن بھی بجھے بجھے سے نظر آرہے ہیں۔ اب بڑے لیڈروں کی آمد کا سلسلہ شروع ہوا ہے اور انتخابی جلسے بھی منعقد ہونے لگے ہیں لیکن سچائی یہ ہے کہ مقامی لیڈروں کے ذریعہ لاکھ کوششوں کے باوجود وہ بھیڑ جمع نہیں ہو پا رہی ہے جس کے وہ متمنی رہتے ہیں۔ اب دیکھنا یہ ہے کہ اس بار کا سیاسی نتیجہ کیا ہوتا ہے کیوں کہ ۱۵؍ برسوں سے حکومت کرنے والے وزیر اعلیٰ نتیش کمار اپنے کام کی بنیاد پر ووٹ مانگ رہے ہیں اور عوام الناس کے سامنے آئندہ کا خاکہ بھی پیش کررہے ہیں جبکہ مخالف سیاسی جماعتوں کی جانب سے انہیں نشانہ بنایا جا رہاہے اور ان کی کارکردگی پر سوالیہ نشان لگایا جا رہاہے۔عوام الناس کی خاموشی ایک بڑے سیاسی طوفان کی آمد کا پیش خیمہ ہے ۔
 بہار کی سیاست میں قومی مسائل کبھی بھی مرکز میں نہیں رہا ہے بلکہ علاقائی مسائل اور مقامی ترقیاتی ایجنڈا کو سامنے رکھ کر ہی انتخاب ہوتا رہاہے ۔ اس بار بھی ترقیاتی ایجنڈے کی دُہائی دی جا رہی ہے ۔ ہر ایک سیاسی جماعت ترقیاتی منصوبوں کو لے کر عوام کو رجھانے کی  کوشش میں سرگرداں ہے لیکن سچائی تو یہ ہے کہ آخر میں ذات برادری کے نام پر ووٹرمتحد ہوتے ہیں اوران کے تمام تر مقامی مسائل پسِ پشت چلے جاتے ہیں ۔نتیجہ ہے کہ بہارترقی کے اس نشانے کو حاصل نہیں کرپایا جہاں اسے ہونا چاہئے تھا۔ بہار میں کوئی بڑا صنعتی کارخانہ نہیں ہے اور نہ قدرتی معدنیات ہے ۔ کیوں کہ تقسیم بہار کے بعد تمام قدرتی معدنیات جھارکھنڈ کے حصے میں چلا گیا اور بہار میں صرف بالو اور پانی رہ گیا ۔ شمالی بہار سیلاب کی تباہی سے جوجھتا رہتا ہے تو جنوبی بہار میں قحط کی نوبت آجاتی ہے۔ یہی وجہ ہے کہ بہار سے مزدوروں کی ہجرت کا سلسلہ مسلسل جاری رہتا ہے ۔ ملک کے کسی بھی خطے میں بہاری مزدور کی اذیت ناک زندگی دیکھی جا سکتی ہے۔یہ اور بات ہے کہ بہار کے مزدوروں نے دوسری ریاستوں کی ترقیاتی رفتار کو تیز کرنے میں اہم کردار اداکیا ہے مگر اسے ہمیشہ تعصب کا شکار ہونا پڑا ہے۔ اس بار کے اسمبلی انتخاب میں مزدوروں کی ہجرت کو بھی کئی سیاسی جماعتوں نے اپنے انتخابی منشور میں شامل کیا ہے۔ساتھ ہی ساتھ تعلیمی اداروں کی کمی کو بھی انتخابی موضوع بنایا ہے۔
 واضح ہو کہ قومی سیاست میں بہار کی سیاست کو غیر معمولی اہمیت حاصل ہے ۔اس بار بھی اسمبلی انتخاب کے نتائج سے قومی سیاست متاثر ہو سکتی ہے، اسلئے حکمراں جماعت جی توڑ کوشش میں ہے کہ وہ اپنی پوزیشن کو بر قرار رکھے جبکہ تمام مخالف سیاسی جماعتوں کی کوشش ہے کہ حکمراں جماعت کو بے دخل کیا جائے۔ ظاہر ہے کہ جمہوریت میں سیاسی ماحول سازی بھی نتیجے کو اثر انداز کرتا ہے لہٰذا ہر سیاسی جماعت اپنے اپنے طریقہ کار سے ماحول سازی میں مصروف ہے۔ اب دیکھنا یہ ہے کہ اس بار کا اسمبلی انتخاب کیا واقعی ترقیاتی ایجنڈے کی بنیاد پر ہوگا یا پھر ماضی کی طرح کسی خاص لہر کا شکار ہوجائے گا۔ البتہ ایک خوش آئند بات یہ ضرور ہے کہ اس بار فرقہ وارانہ کشیدگی نہیں ہے اور ہر ایک سیاسی جماعت اپنا یہ موقف دہرا رہی ہے کہ وہ سماجی خیر سگالی کی خواہاں ہے اور وہ اپنے ترقیاتی ایجنڈے کو ہی اہمیت دینا چاہتی ہے۔اگر ایسا ہوتا ہے توواقعی بہار کی سیاست کی تاریخ میں ایک نئے باب کا اضافہ ہوگا اور شاید بہار کی ترقی کا راستہ بھی ہموار ہوگا۔
  چوں کہ ابھی پرچہ نامزدگی کا دور چل رہا ہے اور ہر ایک سیاسی جماعت طاقتور امیدوار کی تلاش میں ہے ۔اب کوئی سیاسی جماعت یہ دعویٰ نہیں کرسکتی کہ وہ اپنے نظریئے پر قائم ہے کیوں کہ ہر ایک سیاسی جماعت میں ایسے چہرے شامل ہو رہے ہیں جو کل تک اپنی جماعت کے وفادار سمجھے جاتے تھے مگر اب وہ اپنی پرانی پارٹی کو چھوڑ کر کسی دوسری پارٹی میں نظر آرہے ہیں۔ اسلئے یہ کہنا مشکل ہے کہ کون امیدوار اپنی پارٹی کا سچا وفادار ہے۔حالیہ دنوں میں کئی ریاستوں میں یہ دیکھنے کو ملا ہے کہ انتخابی نتائج کے بعدکامیاب امیدوار اپنی پارٹی کوالوداع کہہ کر دوسری پارٹی کا حصہ بن کر اپنا سیاسی مفاد حاصل کرتے ہیں۔ بہر کیف! بہار کا یہ اسمبلی انتخاب کئی معنوں میں گزشتہ انتخاب سے الگ ہے کہ اس بار کہیں بھی براہِ راست مقابلے کا امکان نہیں ہے بلکہ سہ رخی اور چہار رخی مقابلے کا امکان ہے اور ایسے میں بہار کی سیاست کا اونٹ کس کروٹ بیٹھے گا یہ کہنا ابھی بہت مشکل ہے

متعلقہ خبریں

This website uses cookie or similar technologies, to enhance your browsing experience and provide personalised recommendations. By continuing to use our website, you agree to our Privacy Policy and Cookie Policy. OK