Inquilab Logo

بلقیس بانومعاملہ : اتنا سناٹا کیوں ہے بھائی؟

Updated: August 24, 2022, 1:17 PM IST | Parvez Hafeez | Mumbai

بلقیس گینگ ریپ کے مجرمین کی رہائی پرہندوستانی معاشرے کی خاموشی اس کی بے حسی کی گواہ ہے۔ یہ افسوسناک خاموشی اس بات کا ثبوت ہے کہ معاشرے پر پوری طرح فرقہ پرستی کا رنگ چڑھ گیا ہے۔

Picture .Picture:INN
علامتی تصویر ۔ تصویر:آئی این این

ملک میں اچانک ایک گہرا، مہیب سناٹا چھاگیا ہے۔ آپ نے غور کیا ہوگا کہ ابھی پچھلے ہفتے تک ’’ہر گھر ترنگا‘‘ اور آزادی کے امرت مہوتسوکا کس قدر شورو غوغا تھا اور اب اچانک ایک دم سے خاموشی چھاگئی ہے۔کل تک جودیش بھکتی، سچائی اور انصاف کا اپدیش دے رہے تھے،انہوں نے آج چپی سادھ لی ہے۔ بلقیس بانو کے اجتماعی ریپ اور چودہ افرادکے قتل کے سزایافتہ مجرموں کو گجرات سرکار نے معافی دے کر رہا کیا کردیا گویا ہم لوگوں کی اجتماعی قوت گویائی چھن گئی۔کانگریس کے علاوہ کسی دوسری اپوزیشن پارٹی نے’’ انصاف کے قتل ‘‘پرزبان تک کھولنا گوارا نہیں کیا۔    دس سال قبل دہلی کی سرکاری بس میں نربھیا کی اجتماعی آبروریزی پرتو ان تمام سیاسی لیڈروں، ٹیلی وژن چینلز اور سماجی کارکنوں نے صدائے احتجاج بلند کرکے منموہن سنگھ  کا سنگھاسن ہلادیا تھا۔ کہاں ہیں انا ہزارے اور اروند کیجریوال؟ کہاں ہیں کرن بیدی اور سمرتی ایرانی؟کہاں ہیں سدھیر چودھری اور ارنب گوسوامی؟ ان سب کی خاموشی پھر بھی سمجھ میں آتی ہے لیکن معاشرے نے جو اپنے ہونٹ سی لئے ہیں یہ تو بالکل ناقابل فہم ہے۔ جنتر منتر پر اکٹھا ہوکر’’ نربھیا کے زانیوں کو پھانسی دو‘‘ کے نعرے لگانے والے وہ ہزاروں پروفیسر، بینک منیجر، ڈاکٹر، سیلز مین،آٹو ڈرائیور، طلباء اور طالبات اچانک کہاں غائب ہوگئے ہیں؟  سوشل میڈیا کے سوااس سلگتے ہوئے ایشو پر کہیں اور کوئی چرچا کیوں نہیں ہورہی ہے؟ ایک مقبول یو ٹیوبر اجیت انجم نے سماج سے براہ راست مخاطب ہوکر یہ تیکھا سوال کیا ہے کہ اگر بلقیس کی جگہ ظلم کا شکار ہونے والی لڑکی کا نام کویتا سویتایانربھیا ہوتا اور گنہگاروں کے نام سلمان، رحمٰن، عمران اور آصف ہوتے تو بھی کیا در ندوں کی رہائی پر آپ یوں ہی چپ رہتے۔ ترنمول کانگریس کی شعلہ بیان ایم پی مہوا موئترا کا قوم کو یہ مشورہ کہ وہ یہ فیصلہ کرلے کہ’’بلقیس عورت ہے یا مسلمان‘‘بھی متنازع رہائی کے فیصلے میں پوشیدہ مذہبی منافرت اور عصبیت پرایک سخت حملہ ہے۔  گجرات کے ایک بی جے پی رکن اسمبلی نے ہمیں یہ گیان دیا ہے کہ مجرمین برہمن ہیں اور برہمنوں کے اچھے سنسکار ہوتے ہیں۔ شاید اسی لئے جب وہ جیل سے رہا ہوکر نکلے تو مالائیں پہناکر اور آرتی اتار کر ان کا استقبال کیا گیا۔ ایسا لگا گویا وہ سنگین جرائم کی سزا کاٹ کر گودھرا جیل سے نہیں، بلکہ جنگ آزادی میں حصہ لینے کی پاداش میں سزا کاٹ کر انڈمان کے سیلولر جیل سے نکلے ہوں۔  اب تو ایسا لگتا ہے کہ بی جے پی کی نظر میں ہر وہ شخص قومی ہیرو کا درجہ رکھتا ہے جس کے ہاتھ اقلیتوں، دلتوں اور دبے کچلے لوگوں کے خون سے رنگے ہوتے ہیں اور جوشخص عورت کو جنسی درندگی کا نشانہ بناتا ہے اسے تو سر آنکھوں پر بٹھایا جاتا ہے۔ابھی چار سال قبل جھارکھنڈ کے علیم الدین انصاری کی ماب لنچنگ کے آٹھ مجرمین ضمانت پر رہا ہوئے تو مرکزی وزیرجینت سنہا نے بھی پھولوں کے ہار پہناکر اور مٹھائی کھلاکر ان کا سواگت کیا تھا۔  اس کے قبل بھی بی جے پی حکومت نے ماب لنچنگ کے شکار اخلاق احمد کے قاتلوں کو بچانے کی پوری کوشش کی تھی۔اٹھارہ ملزمین میں سے ایک روی سسودیا کی حراست میں اتفاقی موت کے بعد اس کی لاش قومی پرچم میں لپیٹی گئی اور اس کے انتم سنسکار میں مرکزی وزیر سیاحت مہیش شرما نے سرکار کی نمائندگی کی۔ میں نے کہا نا مظلوموں کے قاتلوں کو ہیرو بنانے میں بی جے پی دیر نہیں لگاتی ہے۔ اس لئے اس بات کا امکان کم نظر آتا ہے کہ گجرات سرکار نے وزیر اعظم مودی یا وزیر داخلہ امیت شاہ کی اجازت یارضامندی کے بغیر بلقیس کے گنہگاروں کی معافی اور رہائی کا فیصلہ کیا ہوگا۔ ویسے بھی سپریم کورٹ  نے ۲۰۱۵ء  کے ایک فیصلے میں یہ واضح کردیا تھا کہ مجرموں کو معافی دینے کا اختیار صرف مرکزی حکومت کو ہے۔گجرات کے دنگوں میں شروع سے ریاستی حکومت مظلوموں کو انصاف دلانے کے بجائے مجرموں کی کھال بچانے میں مصروف رہی ہے۔ اس لئے ہزاروں چشم دید گواہوں اورثبوتوں کے باوجود نسل کشی کے مجرمین شان سے کھلی فضا میں زندگی گزار رہے ہیں۔ بلقیس کے گنہگاروں کو بچانے کیلئے بھی گجرات حکومت نے پوری کوشش کی تھی۔ اسی لئے سپریم کورٹ نے کیس کو گجرات کے بجائے مہاراشٹر کی عدالت میں منتقل کردیا تھا جس کے بعد ملزمین کو عمر قید کی سزا کا مستحق قراردیا گیا۔
    ۲۰۱۸ء  میں جموں کے کٹھوا میں ایک آٹھ سالہ بچی کو ریپ اور ٹارچر کرکے قتل کرنے والے وحشی درندوں کی گرفتاری کے خلاف بی جے پی نے ترنگا لہراتے ہوئے احتجاجی ریلی نکالی تھی جس میں دو صوبائی وزیر وں نے بھی حصہ لیا تھا۔ مظلومہ ایک غریب مسلم گڈریے کی بیٹی تھی اور کلیدی مجرم ایک سنسکاری ہندو تھا جس نے اس گھناؤنے جرم کا ارتکاب ایک مندر میں کیاتھا۔اس جرم کے ماسٹر مائنڈ پجاری سانجی رام اور اس کے دو ساتھیوں کو عمر قید کی اور تین پولیس اہلکاروں نے جنہوں نے جرم کا ثبوت مٹانے کی کوشش کی تھی پانچ سال کی سزا سنائی گئی۔  جج نے اپنے فیصلہ میں یہ واضح کردیا تھا کہ’’عمرقید کی سزا مجرمین کی آخری سانس ‘‘تک برقرار رہے گی۔ شایدپٹھان کوٹ کی عدالت کو اندیشہ تھا کہ چودہ سال کی سزا پوری ہونے کے بعد کوئی مہربان حکومت انہیں معافی دے کر رہا کرسکتی ہے۔ کاش ممبئی کی عدالت نے بلقیس گینگ ریپ کیس کے مجرمین کو عمر قید کی سزا سناتے وقت اپنے آرڈر میں ایسی ہی وضاحت کردی ہوتی!  بلقیس گینگ ریپ کے مجرمین کی رہائی پرہندوستانی معاشرے کی خاموشی اس کی بے حسی کی گواہ ہے۔ یہ افسوسناک خاموشی اس بات کا ثبوت ہے کہ معاشرے پر پوری طرح فرقہ پرستی کا رنگ چڑھ گیا ہے اور اس کے اخلاقیات کا جنازہ نکل چکا ہے۔ جب ریاست اورعدلیہ شہریوں کو انصاف دینے میں تعصب اور تفریق برتنے لگتا ہے توسمجھ لینا چاہئے کہ ملک میں جمہوریت اور قانون کی حکمرانی کے دن اب گنتی کے رہ گئے ہیں۔ اپنے ستم گروں کی رہائی پر بلقیس نے حیرت سے پوچھا ’’کیا انصاف کا خاتمہ ایسے ہوتا ہے؟‘‘ہے کوئی جواب ہمارے پاس بلقیس کی اس فریاد کا؟پس نوشت: دوسری جنگ عظیم شباب پر تھی اور لندن پر مسلسل کئی ہفتوں سے جرمنی کی بمباری سے بے پناہ تباہی ہورہی تھی۔جب ونسٹن چرچل کو ہلاکتوں اور معاشی تباہیوں کا علم ہوا تو انہوں نے پوچھا کہ کیا برٹش عدالتیں اپنا کام کررہی ہیں۔جب انہیں بتایا گیا کہ عدالتیں اپنا کام نارمل طریقے سے کررہی ہیں تو انہوں نے کہا:’’ خدا کا شکر ہے جب تک ملک میں انصاف قائم ہے کوئی ہمار ا کچھ نہیں بگاڑ سکتا ہے۔‘‘کیا آج ہندوستان کے بارے میں بھی یہ بات کہی جاسکتی ہے؟

متعلقہ خبریں

This website uses cookie or similar technologies, to enhance your browsing experience and provide personalised recommendations. By continuing to use our website, you agree to our Privacy Policy and Cookie Policy. OK