Inquilab Logo

بلقیس کیس :ملزمین کی رہائی کا ذمہ دار کون ؟

Updated: August 18, 2022, 1:42 PM IST | Khalid Sheikh | Mumbai

گجرات حکومت نے سزا یافتہ مجرمین کو یہ کہہ کر چھوڑ دیا کہ انہوں نے ۱۴؍ سالہ مدت پوری کرلی۔ یہ اسلئے ممکن ہوا کہ مجرمین میں سے ایک نے سپریم کورٹ سے رجوع کیا تھا جس پر عدالت نے ریاستی حکومت کو غورکرنے کی ہدایت دی تھی۔

Picture .Picture:INN
علامتی تصویر ۔ تصویر:آئی این این

 اس بار یوم آزادی کا جشن کچھ زیادہ ہی دھوم دھام سے منایا گیا۔ ایسا نہیں کہ اس بار جو ہوا وہ کچھ الگ تھا، قطعی نہیں۔ ترنگا گھر گھر نہ سہی لیکن بڑی تعداد میں عمارتوں، مکانوں اور دکانوں میں لگایا جاتا تھا۔ ترنگاریلیاں نکالی جا تی تھیں۔ نعرے لگائے جا تے تھے اور حب الوطنی پر مبنی فلمی گیت بجائے جاتے تھے۔ فرق صرف اتنا ہے کہ اس بار انہیں زیادہ بڑی تعداد میں زیادہ جوش وخروش کے ساتھ منایا گیا جس کا کریڈٹ مودی اوران کے نعرے ’’ ہرگھرترنگا‘‘ کو جاتا ہے۔ مودی ایک اچھے ’شومین‘ کے ساتھ ا چھے ’ایونٹ منیجر‘ بھی ہیں اور اہم موقعوں پر اس طرح کی نمائشی و علامتی پھلجڑیاں چھوڑتے رہتے ہیں۔ یہ اور بات ہے کہ کبھی کبھی لینے کے دینے پڑ جاتے ہیں۔ کووڈ۔۱۹؍ کی قہرسامانی کے موقع پر انہوںنے کورونا کو بھگانے کے لئے ’تالی وتھائی بجاؤ‘ کا نسخۂ کیمیا پیش کیا تھا۔ کورونا تو نہیں بھاگا لیکن اکیلے ہندوستان میں اس نے لاکھوں کو دنیا سے رخصت کردیا۔ مشہورکہاوت ہے ’چور چوری سے جائے ہیرا پھیری سے نہ جائے‘ ۔ بی جے پی لیڈر اس میں طاق  ہیں۔ انہوں نے آزادی کے امرت مہوتسو کوبھی نہیں بخشا۔ مہاراشٹرمیں شندے حکومت کے  وزیر ثقافت نے سرکاری ملازمین کے لئے فون کرنے یا ریسیو کرنے پر ’ہیلو‘ کی جگہ ’وندے ماترم ‘ کہنے کا حکم دیا۔ وجہ یہ بتائی کہ ’ہیلو‘ بدیسی لفظ ہے جبکہ ’وندے ماترم‘ سودیشی ہے اور آزادی کی  جدوجہد میں حب الوطنی کے جذبات جگانے میں اس کا بڑا ہاتھ تھا۔ جب سیاسی پارٹیوں نے ہنگامہ مچایا تو پلٹی کھاگئے۔ وضاحت کی کہ وندے ماترم کہنا فرمان نہیں ، مشورہ تھا اور سرکاری ملازمین وندے ماترم کی جگہ ’جے مہاراشٹر‘ بھی کہہ سکتے ہیں۔  ملک کے پہلے وزیراعظم پنڈت نہرو اور ان کے خاندان سے بی جے پی کی دشمنی اظہرمن الشمس ہے۔ انہیں نیچا دکھانے میں بی جے پی لیڈر اور حکومتیں کوئی موقع نہیں چھوڑتی ہیں لیکن اس بار کرناٹک کی بی جے پی حکومت نے انتہا کردی۔ ترنگامہم اوریوم آزادی کے لئے اخبارات میں فریڈم فائٹرس کی تصاویر کے ساتھ دیئے گئے اشتہارات سےنہرو کو غائب کردیا اور مہا سبھائی لیڈر وی ڈی ساورکر کو نمایاں جگہ دی جن کے بارے میں مشہور ہے کہ جناح سے پہلے دوقومی نظریہ کی وکالت انہوںنے کی تھی۔ ترنگا مہم بھی اس وقت نزاع کا سبب بن گئی جب اخبارات میں جھنڈوں کی قیمت کی وصولی کی خبریں شائع ہوئیں۔ پنڈت نہرو کو بدنام کرنے کا اظہار ۱۴؍اگست کو تقسیم وطن کی ہولناکیوں کو زندہ رکھنے کے لئے منائے جانے والے ’وبھاجن ابھیشیک دوس‘ کے موقع پر بھی ہوا جب بی جے پی نے اپنے ٹوئیٹر پر تقسیم کیلئے نہرو کو ذمہ دار ٹھہرایا۔ ہم نے ان واقعات کو دُہرانا اس لئے ضروری سمجھا کہ آزادی کے امرت مہوتسو کے مبارک موقع پر اس طرح کی باتیں زیب نہیں دیتی ہیں اور بی جے پی لیڈروں اور حکومتوں کے ذہنی دیوالیہ پن کا ثبوت ہیں۔
 پچھلے دنوں دوایسی خبریں میڈیا میں سننے اور پڑھنے کو ملیں جنہوںنے ملک کو ایک بار پھر شرمسار کردیا۔ پہلی خبر کا تعلق راجستھان کے ’جالور‘ سے ہے ، دوسری کا خود مودی کی آبائی ریاست سے۔ سنیچر ۱۳؍ اگست کو جب پورا ملک آزادی کی ۷۵؍ویں سالگرہ کا جشن منانے کی تیاریوں میں مصروف تھا، اس وقت جالور میں ایک ۹؍ سالہ دلت بچہ اپنے ٹیچر کے ہاتھوں پٹائی کے زخموں کی تا ب نہ لاکر دم توڑ گیا ۔ اس کا قصور صرف اتنا تھا کہ پیاس بجھانے کے لئے اس نے اعلیٰ ذات کے ٹیچروں کے لئے رکھی گئی مٹکی سے پانی پیا۔ اِس پر ٹیچر نے اسے بری طرح پیٹا کہ اندرونی چوٹ کی تاب نہ لاکر اس کی موت ہوگئی۔ دلتوں اور ایس سی ، ایس ٹی پر تشدد کا یہ پہلا واقعہ نہیں، نہ راجستھان تک محدود ہے۔ متعدد رپورٹیں اور سروے اس پر دال ہیں کہ پورے ملک میں اس طرح کی وارداتیں ہوتی رہتی ہیں اور آئینی حقوق وتحفظات کے باوجود ان میں کمی نہیں آئی ہے۔ نیشنل کرائم ریکارڈس بیورو کے مطابق ۲۰۲۰ء میں نچلی ذات والوں پر ہردس منٹ میں ظلم و تشدد کے پہاڑ توڑے جاتے ہیں۔ان میں دو تہائی جرائم کے ساتھ راجستھان، بہار، یوپی اور ایم پی سرفہرست ہیں۔ ۲۰۱۶ء میں راجستھان میں دلتوں کے خلاف ہونے والے جرائم کی تعداد ۶۰۰۰؍ تھی جو ۲۰۲۰ء میں بڑھ کر ۸۵۰۰؍ ہوگئی۔ تشویش کی بات یہ ہے کہ اثبات جرم کی جو تعداد ۲۰۱۶ء میں ۱۱؍ فیصد تھی وہ ۲۰۲۰ء میں گھٹ کر ۸؍ ہوگئی۔
 دوسرے واقعہ کا تعلق گجرات اور ۲۰۰۲ء میں وہاں ہونے والے مسلم کش فسادات سے ہے۔ مودی اس وقت وز یراعلیٰ تھے ۔ یوں تو ہندوستان میںفرقہ وارانہ فسادات کی تاریخ  بہت پرانی ہے لیکن گجرات میں جو کچھ ہوا اور جس سفاکی کا مظاہرہ کیا گیا اس کی نظیر نہیں ملتی۔بلقیس بانو ایسے ہی ظلم کا نشانہ بننے والی خاتون ہے۔ ۳؍ مارچ ۲۰۰۲ء کو جب یہ لوگ اپنی جان بچانے کیلئے لمکھیڈا گاؤں سے فرار ہونے کی کوشش کررہے تھے تب ہی اُنہیں شرپسندوں نے گھیرلیا۔ بلقیس، اس کی والدہ اور دو بہنوں کے ساتھ روح کو تڑپا دینے والے واقعات ہوئے۔ بلقیس کی ۳؍ سالہ بچی کو ماردیاگیا۔ کل ملا کر خاندان کے ۱۴؍ افراد کا قتل ہوا۔ بلقیس کے حوصلے کی داد دینا چاہئے کہ اتنا سب جھیلنے کے باوجود اس نے ہمت نہیں ہاری اور انصاف کے حصول میں ڈٹی رہی۔ سپریم کورٹ نے اس کا ساتھ دیا۔ اس کی درخواست پر کیس کی شنوائی گجرات سے ممبئی منتقل کردی گئی۔ یکم جنوری ۲۰۰۸ء کو سی بی آئی اسپیشل کورٹ کے جج نے گینگ ریپ اور قتل کے الزام میں ۱۳؍ میں سے ۱۱؍ ملزمین کو عمر قید کی سزا سنائی۔ مئی ۲۰۱۷ء کو ممبئی ہائی کورٹ نے اس پر تصدیق کی مہر ثبت کردی۔  ۱۵؍ اگست کو جب مودی لال قلعہ کی فصیل سے ناری شکتی اور ناری سمان کی باتیں کررہے تھے اس کے کچھ گھنٹوں بعد گجرات حکومت نے عمرقید کی سزا پانے والے مجرمین کو یہ کہہ کر معاف اوررہا کردیا کہ انہوں نے عمر قید کی ۱۴؍ سالہ مدت پوری کرلی۔ یہ اس لئے ممکن ہوا کہ مئی میں مجرمین میں سے ایک نے قبل از وقت رہائی کیلئے سپریم کورٹ سے رجوع کیا تھا جس پر عدالت نے ریاستی حکومت کو غورکرنے کی ہدایت دی تھی۔  ماہرین قانون بتاتے ہیں کہ سنگین قسم کے وحشیانہ گینگ ریپ اور قتل معاملات میں عموماً معافی کی گنجائش نہیں رہتی۔ ہم سوچ رہے ہیں مجرمین کی رہائی کیلئے کسے ذمہ دار ٹھہرائیں۔ گجرات حکومت کو یا عدالت کو جس نے بلقیس اور دیگر مظلومین کو انصاف دلانے میں بھرپور تعاون دیا اوراب ملزمین کی رہائی کا سبب بن رہے ہیں؟ ہمارے خیال میں  یہ سپریم کورٹ کو ہی  یقینی بنانا  ہوگا کہ مجرموں کو معافی نہ ملے

متعلقہ خبریں

This website uses cookie or similar technologies, to enhance your browsing experience and provide personalised recommendations. By continuing to use our website, you agree to our Privacy Policy and Cookie Policy. OK