Inquilab Logo

بجٹ اور عام آدمی

Updated: January 23, 2021, 11:27 AM IST | Editorial

عنقریب بجٹ پیش کیا جائیگا۔ یہ پہلا موقع ہوگا جب اتنے خوفناک وبائی دور کے گزرنے کے بعد بجٹ منظر عام پر آئےگا۔ ماضی میں خستہ عالمی حالات حتیٰ کہ کساد بازاری کے بعد بھی بجٹ پیش ہواہے مگر ایسی ہلاکت خیز وباء ہی چونکہ عالمی سطح پر پہلی بار پھیلی تھی اس لئے اس بجٹ میں وباء کے نقصانات کی تلافی کو اولیت حاصل رہے گی۔

Budget - Pic : INN
بجٹ ۔ تصویر : آئی این این

 عنقریب بجٹ پیش کیا جائیگا۔ یہ پہلا موقع ہوگا جب اتنے خوفناک وبائی دور کے گزرنے کے بعد بجٹ منظر عام پر آئےگا۔ ماضی میں خستہ عالمی حالات حتیٰ کہ کساد بازاری کے بعد بھی بجٹ پیش ہواہے مگر ایسی ہلاکت خیز وباء ہی چونکہ عالمی سطح پر پہلی بار پھیلی تھی اس لئے اس بجٹ میں وباء کے نقصانات کی تلافی کو اولیت حاصل رہے گی۔ وزیر مالیات کی ہر ممکن کوشش ہوگی کہ ملک کی معیشت کو سنبھالا دینے پر توجہ مرکوز رہے۔ سنا جارہا ہے کہ کورونا سیس (کورونا ٹیکس) عائد کیا جائیگا۔ چونکہ اس کی تفصیل سامنے نہیں ہے اسلئے اس سے بحث نہیں کی جاسکتی مگر اتنا ضرور کہا جاسکتا ہے کہ اگر یہ ’’سپر رچ‘‘ (غیر معمولی امیر) لوگوں پر نافذ کیا جاتا ہے تو ٹھیک ہے مگر عام آدمی اس سے متاثر نہ ہو۔ عام آدمی نے وباء کے آٹھ دس ماہ میں اپنا بہت کچھ گنوایا ہے۔ وہ جہاں جذباتی طور پر دباؤ میں رہا وہیں معاشی طور پر بھی پریشان کن حالات سے گزرا۔ وزیر مالیات سے اُمید کی جاتی ہے کہ بجٹ کی زنبیل میں عام آدمی کیلئے راحت و اطمینان کی تجاویز ہوں گی، فکرمند کرنے والی نہیں۔اس سے معیشت کو سنبھالنے میں مدد ملے گی کیونکہ عام آدمی ہی مارکیٹ میں ڈیمانڈ پیدا کرتا ہے جو معاشی دائرہ کو مکمل کرنے میں اہم کردار ادا کرتا ہے۔ اگر اس کا کاروبار جاری نہیں رہا، چھوٹے موٹے روزگار کو رفتار نہیں مل سکی، لوگوں کے ہاتھوں میں (خرچ کے لئے) پیسے نہ ہوئے اور انہیں حالات سنورتے ہوئے دکھائی نہ دیئے تو مارکیٹ ویسی ہی سو‘نی سو‘نی رہے گی جیسی اِس وقت ہے۔ اِدھر کچھ عرصہ سے بازاروں میں چہل پہل اور تھوڑی بہت بھیڑ نظر آرہی ہے مگر دکانداروں سے گفتگو کی جائے تو اُن کے جواب میں مایوسی اب بھی ہے۔ 
 عام آدمی کو وبائی دور میں سب سے زیادہ پریشانی طبی نظام کے اُن نقائص سے ہوئی جو سخت آزمائش کا سبب بنے۔ کیوں نہ ہو کہ ہمارا ملک جی ڈی پی کا صرف ۱ء۵؍ فیصد ہی صحت عامہ پر خرچ کرتا ہے۔ نیتی آیوگ کے رکن ڈاکٹر وی کے پال کو اعتراف ہے کہ کسی بھی کسوٹی پر پرکھا جائے تو یہ بجٹ کم بلکہ انتہائی کم ہے۔ چین ۵؍ فیصد خرچ کرتا ہے اور یورپی ممالک ۷؍ تا ۸؍ فیصد۔ اس میں کوئی شک نہیں کہ ہماری ادویہ سازی کی صنعت کا بڑا شہرہ ہے۔ وبائی دور میں بھی ویکسین تیار کرنے والے ادارے ہندوستان سے اچھی اُمیدیں وابستہ کررہے تھے کہ اگر پروڈکشن کے معاملے میں ہندوستان نے مدد کی تو یہ بہت بڑی مدد ہوگی۔ مگر ادویہ سازی ایک تجارتی سرگرمی ہے اور صحت عامہ کی فکر سرکاری ذمہ داری۔ بجٹ کو اس ذمہ داری کا پورا پورا خیال رکھنا ہوگا تاکہ عام آدمی نے وبائی دور میں طبی نظام کا جو دلدوز مشاہدہ کیا اس سے نجات ملے۔ اس دور میں ہم نے سنا کہ جو لوگ فرنٹ لائن پر مصروفِ خدمت تھے انہوں نے اپنی جیب خاص سے پیسے خرچ کئے اور مریضوں کو ضروری اشیاء فراہم کیں۔ خود اُنہیں حفاظتی اسباب فراہم نہیں کئے گئے تھے۔ یہ صرف اس لئے ہوا کہ ہمارا صحت عامہ کا بجٹ بہت کم ہے جس کی وجہ سے اسپتالوں کو دواؤں اور مشینوں کیلئے جتنا سرمایہ ملنا چاہئے، نہیں ملتا۔ اسپتالوں کی تعداد کم ہونے اور جو موجود ہیں اُن پر بہت زیادہ بوجھ بڑھ جانے کی وجہ سے کئی ایسے لوگ اس دارِ فانی سے کوچ کرگئے جنہیں بروقت طبی امداد ملتی تو جی جاتے۔ 
 خلاصہ ٔ کلام یہ ہے کہ اگر ہم وباء سے بھی کچھ سیکھ نہ سکے اور اسپتالوں کو ضروری سازو سامان سے لیس نہیں کیا، طبی عملے کی ضروریات کی تکمیل کو ترجیح نہیں دی تو اس کا مطلب یہ ہوگا کہ ہم نے کچھ نہیں سیکھا۔

متعلقہ خبریں

This website uses cookie or similar technologies, to enhance your browsing experience and provide personalised recommendations. By continuing to use our website, you agree to our Privacy Policy and Cookie Policy. OK