Inquilab Logo

بلڈوزرراج یا جنگل راج : جس کی لاٹھی اس کی بھینس

Updated: April 28, 2022, 10:08 AM IST | Khalid Shaikh | Mumbai

بلڈوزر کے استعمال کا بنیادی اصول یہ ہے کہ پیشگی نوٹس اور قانونی چارہ جوئی کے بغیر کسی اسٹرکچر کو ہاتھ نہیں لگایاجاسکتا۔ یوپی ، کھرگون اورجہانگیر پوری میں یہ نہیں ہوا۔

Picture.Picture:INN
علامتی تصویر۔ تصویر: آئی این این

جس طرح گنپتی، دسہرہ اور درگاہ کے جلوسوںکی روایت صدیوں پرانی ہے اسی طرح جلوسوں پر پتھراؤ اور فرقہ وارانہ تشدد کی بھی ایک طویل تاریخ ہے اور ان پر دیئے جانے والے بیانیہ میں بھی کوئی فرق نہیں آیا ہے۔ وہی گھِسی پٹی کہانی دہرائی جاتی ہے کہ تہواروں کے موقعوں پر جب ہندو پرامن جلوس نکالتے ہیں تو مسلم علاقوں سے گزرتے ہوئے ان پر پتھراؤ ہوتا ہے جو فساد میں تبدیل ہوجاتا ہے۔ اِن  دنوں تان اس پر ٹوٹتی ہے کہ ہندوخود اپنے وطن میں محفوظ نہیں ہیں ۔ سوال یہ ہے کہ مودی کے اقتدار میں آنے کے بعد ہی ہندوؤں میں یہ احساس کیوں پیدا ہوا یا پیدا کیا گیا کہ وہ اوران کا مذہب خطر ے میں ہے۔ وجہ ظاہر ہے، مودی جس تنظیم اور نظریات کے پروردہ اور پرچارک ہیں ان میں مسلمانوں کے لئے کوئی جگہ نہیں ، اس لئے پتھر کہیں سے آئیں الزام مسلمانوں پر ڈال دیاجاتا ہے، جس کا مقصد برادران ِ وطن کے دلوں میں مسلمانوں کے خلاف نفرت اور غصہ کو بڑھاوا دینا ہوتا ہے، کبھی جلوس کے نام پر تو کبھی گئورکشا کے نام پر اورکبھی لوجہاد کے نام پر ۔ بی جے پی لیڈروں نے فرقہ وارانہ ماحول کو ہندو۔ مسلم سیاست سے اس قدر آلودہ کردیا ہے کہ نام نہاد سیکولر پارٹیاں مسلمانوں کے حق میں بولنا تو کُجا ان کا نام لینے سے بھی گریز کرتی ہیں۔ جہاں تک جلوسوں کا تعلق ہے تو ان کی حیثیت مذہبی نہ ہوکر سیاسی رہ گئی ہے اور اب تو بھگوائیوں کے حوصلے اتنے بڑھ گئے ہیں کہ دھرم سنسدجیسے پلیٹ فارم سے ڈھونگی سنت سادھو کھلے عام ہندوؤں کو مسلمانوںکے خلاف ہتھیار اٹھانے اور قتل پر اکسارہے ہیں، ان کی عورتوں کو بے آبرو کرنے کی دھمکیاں دی جارہی ہیں اور سوشل میڈیا پر ان کی نیلامی کو رواج دیاجارہا ہے۔ ایسے تمام موقعوں پر اور  فسادات کے معاملات میں پولیس منہ پھیرلیتی ہے یا بھگوائیوں کے ساتھ نظرآتی ہے۔ کارروائی کے نام پر اگر گرفتاری ہوتی بھی ہے تو عدلیہ ملزمین کو ضمانت پر رہا کرکے مزید زہرافشانی کا پروانہ عطاکرتا ہے جبکہ حکومت اور پردھان سیوک ہمیشہ کی طرح خاموش رہتے ہیں۔  ہم نے مذکورہ تہواروں میں رام نومی اور ہنومان جینتی کا ذکر   اس لئے نہیں کیا کہ چند مہینے پہلے تک ان کے جلوس اور یاترائیں بڑی حد تک  شرانگیزی سے محفوظ تھیں۔ غالباً یہ پہلا موقع ہے جب ان تہواروں کو بطور ہتھیار استعمال کیا گیا۔ ۱۶؍ اپریل کو جہانگیر پوری میں جو ہوا، اس کی کرونولوجی پر غور کیجئے تو محسوس ہوگا کہ سب کچھ ایک طے شدہ اسکرپٹ کے تحت تھا۔ ورنہ کیا بات ہے کہ اُس دن رام نومی کے دو جلوس اُسی علاقے سے پرامن طورپر گزرگئے ۔ کہیں کچھ نہیں ہوا جبکہ شام میں نکلنے والی شوبھا یاترا میدانِ جنگ میں تبدیل ہوگئی۔ دراصل یہ یوپی اور ایم پی میں بلڈوزر کے ذریعے کئے جانے والے کامیاب تجربات کو دہرانے کی کوشش تھی۔ یوپی میں ’بلڈوزربابا‘ نے مسلمانوں کو سماجی اور معاشی طورپر تباہ کرنے کے لئے بلڈوزر کا استعمال شہریت ترمیمی قانون کے خلاف مظاہرہ کرنے والوں اور سماج دشمن عناصر کے خلاف کیا تو ایم پی میں وزیراعلیٰ شیوراج سنگھ چوہان نے اس کا استعمال کھرگون کی ایک مسجد کے کمپاؤنڈ میںبنے مسلمانوں کے مکانات کو غیرقانونی بتاکرکیا۔ سچ یہ ہے کہ کھرگون کا معاملہ فرقہ وارانہ نہیں تھا ، جلوس میں شامل ہندوؤں اورپولیس کے مابین ٹکراؤ تھا جسے ہندو مسلم  بنا دیاگیا۔ مودی۔ یوگی راج میں بلڈوزر ’فوری انصاف ‘ کی علامت بن گیا ہے۔
 جہانگیرپوری کے تعلق سے جو بیانات سامنے آئے ہیں ان میں تضاد پایاجاتا ہے ۔ جس پولیس انسپکٹر کی شکایت پر ایف آئی آر درج کی گئی اس میں بتایا گیا ہے کہ پولیس کی اجازت سے نکالا جانے والا جلوس پُرامن تھا۔ مسجد کے پاس مقامی مسلمانوں اور یاترا میں شریک لوگوں کے درمیان تناتنی ہوئی جس سے پتھر بازی کا سلسلہ شرو ع ہوا۔ پولیس کی مداخلت سے جلوسیوں کی طرف سے پتھراؤ بند ہوگیا لیکن دوسری طرف سے برابر جاری رہا۔ یہ تصویر کا ایک رُخ ہے۔ اسی دن نیوزچینلوں پر پولیس کے ایک اعلیٰ افسر نے  دعویٰ کیا کہ یاترا کو پولیس  کی  اجازت   حاصل نہیں تھی  اور ملزم کوئی بھی ہو، بخشا  نہیں جائے گا۔ویڈیو کلپ سے یہ بھی پتہ چلا کہ یاترا میں شامل لوگوں کے پاس مہلک ہتھیار تھے اور مسجد کے پاس رُک کر وہ اشتعال انگیز نعرے لگارہے تھے۔ خبریں یہ بھی  ہیں کہ یاترا میں شامل چند لوگ مسجد میں گھس گئے تھے  اور بھگوا جھنڈا لہرانے کی کوشش کی تھی۔ پولیس کے اعلیٰ افسر کی شرپسندوں کے خلاف کارروائی کی قلعی اس طرح کھلی کہ گرفتار شدگان میں  جس  واحد ہندو لیڈر کو گرفتار کیا گیا، وی ایچ پی کی طرف سے ملنے والی دھمکی کے بعد اسے رہا کردیا گیا۔ پولیس کی سخت نگرانی میں جہانگیر پوری میں حالات تین دن تک قابو میں رہے لیکن چوتھے دن جو ہوا وہ کسی کے وہم وگمان میں نہ تھا۔ اسے سرکاری غنڈہ گردی ہی کہا جاسکتا ہے جب ۴۰۰؍ پولیس اہلکاروں کی موجودگی میںمیونسپل اسٹاف نے ۹؍ بلڈوزروں کی مدد سے غیر قانونی تعمیرات کے بہانے  مسلمانوں کی دکانوں اور اسٹالوں کو تہس نہس کیا۔ان   میں چند  دکانیں ہندؤوں کی تھیں۔ وہ تو بھلا ہو جمعیۃ العلماء (ارشدمدنی گروپ) کا جنہوںنے بروقت سپریم کورٹ سے انہدامی کارروائی پر روک لگانے کا حکمنامہ حاصل کیا اور مارکسی لیڈر برندا کرات کا جو حکمنامہ کے باوجود جاری رہنے والی کارروائی کو بند کرنے کے لئے بلڈوزر کے سامنے کھڑی ہوگئی تھیں۔ بلڈوزر کا انصاف قانون کی طرح اندھا ہوتا ہے وہ ہندو مسلمان میں کوئی تمیز نہیں کرتا لیکن غیر قانونی تعمیر ات کے انہدام میں اپنے سیاسی وسرکاری آقاؤں کی پیروی کرتا ہے۔ مودی دور میں جس طرح آئین وقانون کی دھجیاں اُڑائی جارہی ہیں ، لگتا ہے ہم جنگل راج کی طرف بڑھ رہے ہیں ۔ بدقسمتی سے خود کو ۱۳۵؍ کروڑ شہریوں کا پردھان سیوک کہلانے والا لیڈر صرف اپنی پارٹی اور ہم مذہبوں کا وزیراعظم بن کر رہ گیا ہے۔ بلڈوزر کا استعمال اسی جنگل  راج کی علامت ہے جس میں سیاسی فائدہ حاصل کرنے ، سماج میں خوف کا ماحول پیدا کرنے اور عوام کواپنا مطیع بنانے کیلئے اصول وضوابط کو بالائے طاق رکھ دیا گیا۔ بلڈوزر کے استعمال کا بنیادی  اصول یہ ہے کہ  پیشگی  نوٹس اور قانونی چارہ  جوئی کے بغیر کسی اسٹرکچر کو ہاتھ نہیں لگایاجاسکتا۔ یوپی ، کھرگون اورجہانگیر پوری میں یہ نہیں ہوا۔ اگر اس پر روک نہیں لگی تو یہ سلسلہ بی جے پی  ریاستوں سے ہوتا ہوا غیر بی جے پی ریاستوں میں بھی دَرآئے گا۔ اقتدار کے نشے میں چور مودی اور امیت شاہ سے اس کی توقع نہیں کی جاسکتی۔ دیکھنا یہ ہے کہ سپریم کورٹ کا اگلا قدم اس سلسلے میں کیا ہوگا۔

new delhi Tags

متعلقہ خبریں

This website uses cookie or similar technologies, to enhance your browsing experience and provide personalised recommendations. By continuing to use our website, you agree to our Privacy Policy and Cookie Policy. OK