Inquilab Logo

نبویؐ طریقہ ٔتدریس اپناکر کامیاب معلم بن سکتے ہیں

Updated: August 13, 2021, 3:59 PM IST | Mudassir Amed Qasmi

نبی اکرم ؐ نے فعال طرزِ تعلیم کے مختلف طریقے اپنائے،جس کی وجہ سے تعلیم و تعلم کے تمام مقاصد حاصل ہوئے اور دنیا کو اس باب میں مثالی رہنمائی ملی۔

To make education more effective if the method of education is enlightened .Picture:INN
تعلیم و تدریس کو زیادہ مؤثر بنانے کیلئے اگر نبویؐ طریقۂ تعلیم سے روشنی حاصل کی جائے اور اسی کو اپنایا جائے تو تدریس اس قدر مؤ ثر ہوگی کہ طلبہ بڑی توانائی محسوس کریں گے۔تصویر :آئی این این

اسلام میں علم کی اہمیت مسلم ہے۔ شریعت کی روشنی میں اس کی بنیادی وجہ یہ ہے کہ علم کے ذریعہ  ہی صحیح اور غلط کے درمیان فرق کو سمجھا جاسکتا ہے۔ جس طرح سورج کی روشنی میں ہم اپنے ارد گردکی دنیا کواچھی طرح دیکھ سکتے ہیں، با لکل اسی طرح علم کی روشنی میں حقائق اور سچائی سے بخوبی واقف ہو سکتے ہیں۔ علم اور اسلام کے تعلق سے ایک اہم بات یہ ہے کہ جہاں نبی اکرم ﷺ پر وحی کی ابتداء اقراء(پڑھو)سے ہوئی وہیں پورے قرآن میں تقریباًآٹھ سو جگہوں پر علم سے متعلق الفاظ استعمال ہوئے ہیں۔ یہی وہ پس منظر ہے جس نے نبی اکرم ﷺ کو اسلام میں معلمِ اول اور صحابہ کرامؓکو اولین طلباء بنایاجن کا فیض آج بھی جاری و ساری ہے۔
نبی اکرم ﷺ نے تعلیم سے مزین کر نے کے لئے سب سے پہلے صحابہ کرام ؓ کے دل پر کام کیا اور اُس کو پاک و صاف کر کے قابلِ کاشت بنایا ،پھر اُس پر علم کی بارش کی؛ جس کے نتیجے میں علم کے ثمر آور درخت لگے اور افادہ عام ہوا۔ دوسرے نمبر پر اپنی تعلیم کو انقلاب کا ذریعہ بنانے کے لئے نبی اکرم ﷺ نے ایکٹیو یعنی فعال طرزِ تعلیم کے مختلف طریقے اپنائے، جس کی وجہ سے تعلیم و تعلم کے تمام مقاصد حاصل ہوئے اور دنیا کو بھی اس باب میں مثالی رہنمائی ملی۔ ذیل کی سطروں میں نبی اکرم ﷺ کے اسی اسلوبِ تعلیم میں سے چند پر مختصراً روشنی ڈالی جائیگی تاکہ افہام و تفہیم کے سنت طریقوں کا علم ہوجائے اور ہمارا طریقہ تعلیم مستحکم و مستند بن جائے۔ 
نبی اکرم ﷺ کی تعلیم میں ایک نمایاں پہلو یہ تھا کہ آپ ﷺ جب تعلیم دیتے تو صاف صاف گفتگو فرماتے تاکہ متعلم آسانی سے سمجھ سکے اور کسی الجھن کا شکار نہ ہو۔ چنانچہ اُم المومنین حضرت عائشہ صدیقہ ؓ فرماتی ہیں کہ نبی اکرم ﷺ اس انداز سے گفتگو فرماتے کہ اگر کوئی شخص (الفاظ)گننا چاہتا ہو تو( بآسانی )گن سکتا تھا۔ (بخاری)۔ اسی طرح ایک اور روایت میں حضرت انس بن مالک ؓ فرماتے ہیں کہ نبی اکرم ﷺ جب بات کرتے تو اُسے تین بار دُہراتے تاکہ وہ ذہن نشیں ہو جائے۔(ترمذی) مذکورہ دونوں احادیث میں رہتی دنیا تک کے تمام اساتذہ کے لئے رہنمائی موجودہے کہ جب وہ طلبہ  سے کلاس میں خطاب کر یں اور پڑھائیں تو ٹھہر ٹھہر کر اور صاف بولیں تاکہ طلبہ  تمام باتیں اچھی طرح سمجھ جائیں، اسی طرح کوئی اہم یا پیچیدہ سبق ہو تو اُسے اتنی مرتبہ سمجھائیں کہ سبق حل ہوجائے اور طلبہ کی پریشانی دور ہو جائے۔نبی اکرم ﷺ اپنے اسلوب تعلیم میں تمثیل کا بھی استعمال فرماتے تھے جو کہ افہام و تفہیم کا ایک موثر طریقہ ہے۔ چنانچہ ایک حدیث میں حضرت ابو ہریرہ رضی اللہ عنہ روایت کرتے ہیں  کہ میں نے رسول اللہ ﷺ کو فرماتے ہوئے سنا: ’’تمہارا کیا خیال ہے کہ اگر تم میں سے کسی شخص کے دروازے پر نہر بہتی ہو اور وہ روزانہ اس سے پانچ دفعہ نہائے، تو کیا اس کے بدن پر کچھ بھی میل کچیل باقی رہ سکتا ہے؟ صحابہؓ نے عرض کیا کہ نہیں، اس کے جسم پر کچھ بھی میل کچیل باقی نہیں رہے گا۔ آپ ﷺ نے فرمایا: یہی مثال پانچوں وقت کی نمازوں کی ہے کہ اللہ پاک ان کے ذریعہ گناہوں کو مٹا دیتا ہے۔‘‘ (مسلم) غور کریں کہ کتنے دل پزیر اور خوبصورت انداز سے ایک تمثیل کے ذریعے نبی کریم ﷺ نے نماز کی اہمیت کو اُجاگر فرمایا ہے۔اگر اساتذہ بھی ضرورت کے مطابق تمثیل کا استعمال کریں تو طلبہ کے لئے بہت آسانی ہوجائے۔
جس طرح نبی اکرم ﷺ طرزِ تعلیم میں تمثیل کا استعمال فرماتے تھے، اسی طرح کبھی کبھار کسی مسئلے کو آئینے کی طرح صاف کرنے کیلئے گرافک کا بھی استعمال فرماتے تھے۔ چنانچہ حضرت سہل بن سعد رضی اللہ عنہ سے مروی ہے کہ نبی اکرم ﷺ نے فرمایا: ’’میں اور یتیم کی کفالت کرنے والا شخص جنت میں اِس طرح ہوں گے (آپ ﷺنے اپنی شہادت کی انگلی اور درمیانی انگلی سے اشارہ کیا اور دونوں کے درمیان کچھ فاصلہ رکھا۔‘‘ (ابو دائود) اِس سے یہ بات سمجھ میں آتی ہے کہ ضرورت پڑنے پر اساتذہ کلاس روم میں بلیک یا وہائٹ بورڈکا استعمال کریں اور گرافک کے ذریعے بھی چیزوں کو سمجھائیں۔ یہاں اِس امر کی طرف اشارہ ضروری ہے کہ بہت سے اسکولوں میں اِس طرزِ تعلیم کا استعمال ہوتا ہے لیکن اکثر مدارس میں اِس تعلق سے فعالیت نظر نہیں آتی ، بہر حال جہاں بھی کمی ہو وہاں اِس کمی کو دور کرنے کی ضرورت ہے۔
آپ ﷺ کی تعلیم کا ایک امتیازی پہلو یہ بھی تھا کہ آپ خود پریکٹیکل (عملی طور پر)کر کے دکھلاتے تھے۔اس کی ایک مثال ذیل کی حدیث ہے۔ حضرت ابو طلحہ ؓ سے مروی ہے وہ بیان کرتے ہیں: ’’ہم نے نبی اکرم ﷺ سے بھوک کی شکایت کی اور اپنے پیٹ کھول کر دکھائے، جن پر ایک ایک پتھر بندھا ہوا تھا۔ یہ سن کر آپ ﷺ نے اپنا شکم مبارک کھول کر دکھایا، اس پر دو پتھر بندھے ہوئے تھے۔‘‘(عربوں میں بھوک دبانے کے لئے پیٹ پر پتھر باندھنے کا رواج تھا) (ترمذی)۔ اِس حدیث سے یہ رہنمائی ملتی ہے کہ اگر آپ اپنے متبعین یا شاگردوں سے کچھ کروانا چاہتے ہیں تو پہلے وہ خود کر کے دکھائیں یعنی اپنے عمل کی مثال پیش کریں، اِس سے شاگردوں کو حوصلہ ملتا ہے اور اُن کا مشکل کام بھی آسان بن جاتا ہے۔
  آپ  ﷺ نے اپنے طریقہ تعلیم میں سوال و جواب کو خاص اہمیت دی۔ اِس حوالے سے ایک خاص بات یہ ہے کہ جب طالب علم سوال کرے تو جو مناسب اور با مقصد جواب ہے وہی دینا چاہئے کیونکہ جواب سے فائدہ پہنچا نا مقصود ہوتا ہے، نبی اکرم ﷺ نے اسی طریقے کو اپنا یا تھا، جس کی روشن مثال یہ حدیث ہے: حضرت انس بن مالک رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ ایک شخص نے نبی کریم ﷺ سے پوچھا قیامت کب آئے گی؟ آپؐ نے ارشاد فرمایا: قیامت کے لئے تم نے کیا تیار کررکھا ہے؟ اس نے عرض کیا: میں نے قیامت کے لئے نہ تو زیادہ (نفلی) نمازیں نہ زیادہ (نفلی) روزے تیار کئے ہیں اور نہ زیادہ صدقہ، ہاں ایک بات ہے کہ اللہ تعالیٰ اور اس کے رسولؐ سے محبت رکھتا ہوں۔ آپ ﷺ نے ارشاد فرمایا تو پھر (قیامت میں) تم ان ہی کے ساتھ ہوگے جن سے تم نے (دنیا میں) محبت رکھی۔ (بخاری) طریقہ تعلیم میں سوال و جواب کی اہمیت سمجھنے اور نبی اکرم ﷺ کے عمل کو جاننے کے بعد، اساتذہ کے لئے ضروری ہے کہ وہ طلبہ کو سوال کرنے کی ترغیب اور موقع دیں اور مناسب جواب سے ان کی تشفی کا سامان کریں۔
اگر اساتذہ کرام، نبویؐ طریقۂ تعلیم کا بھرپور مطالعہ کریں اور مزید روشنی حاصل کرتے ہوئے  اُنہیں عمل میں لائیں تو سنت کا ثواب بھی ملے گا اور وہ کامیاب مدرس بھی ثابت ہوں گے جن کی تقلید ان کے شاگرد کریں گے (ان شاء اللہ)۔n

متعلقہ خبریں

This website uses cookie or similar technologies, to enhance your browsing experience and provide personalised recommendations. By continuing to use our website, you agree to our Privacy Policy and Cookie Policy. OK