Inquilab Logo

شعبہ ٔ قانون میں کریئر

Updated: February 16, 2020, 9:40 AM IST | Editorial

یہ بہت اچھا ہے کہ ان دنوں چہار جانب آئین پر گفتگو ہورہی ہے، آئین کی قسمیں کھائی جارہی ہیں اور آئین ہی کو بنیاد بنا کر ملک کے سیکولر مزاج اور مشترکہ تہذیب کے تحفظ کی جدوجہد کی جا رہی ہے۔ آئین نوازی کے اس دَور میں کیا اس سوال پر غور کرنا ضروری نہیں کہ ہماری قوم میں ایسے کتنے لوگ ہیں جنہیں آئین کا شارح یا تشریح کرنے والا قرار دیا جاسکے؟

وکیل ۔ تصویر : آئی این این
وکیل ۔ تصویر : آئی این این

 یہ بہت اچھا ہے کہ ان دنوں چہار جانب آئین پر گفتگو ہورہی ہے، آئین کی قسمیں کھائی جارہی ہیں اور آئین ہی کو بنیاد بنا کر ملک کے سیکولر مزاج اور مشترکہ تہذیب کے تحفظ کی جدوجہد کی جا رہی ہے۔ آئین نوازی کے اس دَور میں کیا اس سوال پر غور کرنا ضروری نہیں کہ ہماری قوم میں ایسے کتنے لوگ ہیں جنہیں آئین کا شارح یا تشریح کرنے والا قرار دیا جاسکے؟ جو آئین کی روح کو سمجھ اور سمجھا سکتے ہوں؟ تعلیم اور کریئر پر ہونے والی گفتگو اور مذاکرہ کے دوران ڈاکٹر، انجینئر اور دیگر پیشوں کی بات تو ہوتی ہے، عام طور پر لیگل ایکسپرٹ یا کانسٹی ٹیوزنل ایکسپرٹ کا ذکر نہیں کیا جاتا۔ یہی وجہ ہے کہ ہم میں نانی پالکھی والا، رام جیٹھ ملانی، فالی نریمان، ہریش سالوے، سولی سوراب جی یا  ایل ایم سنگھوی  جیسے لوگ نہیں ہیں۔ دراصل ہم نے قانون دانی اور قانون فہمی کو کبھی اہم اور ضروری نہیں سمجھا۔ عدلیہ کے اعلیٰ مناصب پر چند مسلمان ضرور فائز ہوئے مگر ان کی تعداد ہمیشہ بہت کم رہی۔ جو آئین ہمارے حقوق کا محافظ ہے، اُس سے اتنی بے اعتنائی ہرگز نہیں ہونی چاہئے۔ 
 اگر قانونی ماہرین (لیگل ایکسپرٹ) نہیں تو ہماری قوم میں با اثر اور باکمال لیگل پروفیشنل بھی زیادہ نہیں ہیں۔ ملک کی عدالتوں میں جن شخصیات کو جج بننے کا موقع ملتا ہے اُنہیں مقابلہ جاتی امتحان (اسٹیٹ جوڈیشیل سروس اکزام) پاس کرنا ہوتا ہے جو صرف تین مرحلوں (پرلیمنری، مین اور وائیوا) پر مشتمل ہوتا ہے۔ کسی جج کو دیکھ کر ہمارے دلوں میں جذبۂ احترام از خود پیدا ہوتا ہے مگر  ججوں کو دیکھنے یا ان کے بارے میں سننے کے باوجود ہمارے طلبہ قانون سے وابستگی کا خواب نہیں دیکھتے۔ 
 ایسا بھی نہیں کہ ملک کو لاء پروفیشنلس یا ججوں کی ضرورت نہ ہو۔ معاشرہ کا روزمرہ کا مشاہدہ ہے کہ وکلاء بالخصوص اچھے وکلاء آسانی سے دستیاب نہیں ہوتے جبکہ ملک میں جرائم کی بڑھتی ہوئی شرح، لوٹ کھسوٹ، حق تلفی، استحصال،  ناانصافی اور  دور حاضر میں سائبر کرائم کی وجہ سے عدالتوں پر مقدمات کا بوجھ بڑھتا جا رہا ہے۔ کئی معاملات میں تیز رفتار عدالتوں کا قیام بھی ناگزیر ہوجاتا ہے۔ معلوم ہوا کہ اچھے وکلاء کی تعداد کم تو تھی ہی، ججوں کی بھی قلت پیش آرہی ہے۔ قارئین کو یاد ہوگا کہ مئی ۲۰۱۶ء میں اُس وقت کے  چیف جسٹس آف انڈیا ٹی ایس ٹھاکور ایک تقریب کے دوران باقاعدہ آنسوؤں سے رو پڑے تھے۔  اُس وقت انہوں نے بتایا تھا کہ ملک کی چھوٹی بڑی عدالتوں میں ۷۰ ؍ ہزار ججوں کی ضرورت ہے کیونکہ ان عدالتوں میں ۳؍ کروڑ ۱۴؍ لاکھ مقدمات زیر التواء ہیں۔بار کاؤنسل آف انڈیا کے صدر منن کمار مشرا کے مطابق ملک بھر میں وکلاء کی تعداد کم و بیش ۲۰؍ لاکھ ہے مگر بڑھتی آبادی اور بڑھتے جرائم کو دیکھتے ہوئے محسوس کیا جاسکتا ہے کہ یہ تعداد بھی کم ہے۔ اگر مخصوص شعبوں (سول، کارپوریٹ، کریمنل، سائبر وغیرہ) کی بات کی جائے تو ان میں ماہر اور تجربہ کار وکلاء کی تعداد اور بھی کم ہے۔ 
 بعض مبصرین اور ماہرین نے سابق چیف جسٹس ٹھاکور کی بات پر حیرت کا بھی اظہار کیا اور اسے مبالغہ آمیز تصور کیا تھا۔ بالفرض یہ مبالغہ آمیز تھا اور ججوں کی اتنی تعداد درکا نہیں بلکہ اس کا صرف  ۵۰ فیصد درکار تھا تب بھی یہ بہت بڑی تعداد ہوگی  جس کا اگر ایک سبب ججوں کی تقرری میں تاخیر ہے تو دوسرا ججوں کی قلت ہے۔ اس سے اندازہ کیا جاسکتا ہے کہ ملک میں اچھے قانون دانوں کی کتنی ضرورت ہے اور اگر ایسے افراد پیدا ہوں تو انہیں کس طرح ہاتھوں ہاتھ لیا جاسکتا ہے۔ 
 ایک انجینئر، ڈاکٹر، آرکیٹکٹ یا پروفیسر، اپنے اپنے شعبے میں ممتاز اور کامیاب ہو تب بھی کسی کو انصاف دلانے جیسی خدمت انجام نہیں دے سکتا۔ یہ کارِ خیر  وکیل، ماہر قانون یا جج ہی انجام دے سکتا ہے اسلئے وہ تمام طلبہ جو انصاف دلانے کی کوشش کو خدمت اور عبادت سمجھتے ہیں اُن کیلئے شعبہ ٔ قانون سے وابستگی نعمت  ہے۔ والدین کو چاہئے کہ قانون داں بننے کیلئے  اپنے بچوں کی حوصلہ افزائی کریں۔

متعلقہ خبریں

This website uses cookie or similar technologies, to enhance your browsing experience and provide personalised recommendations. By continuing to use our website, you agree to our Privacy Policy and Cookie Policy. OK