Inquilab Logo

مرکزی بجٹ اور عوامی توقعات

Updated: February 01, 2022, 8:36 AM IST | Mumbai

عوام کے بے شمار طبقات کے گوناگوں مطالبات پر بجٹ کو اس طرح اتارنا کہ ہر طبقہ مطمئن ہوسکے، تقریباً ناممکن ہے اس لئے یہ امید کرنا حقیقت پسندی نہیں ہوگی کہ بجٹ نئے مالی سال میں معاشی ترقی کے نئے سنگ میل قائم کرے گا۔

Central budget
مرکزی بجٹ

 عوام کے بے شمار طبقات کے گوناگوں مطالبات پر بجٹ کو اس طرح اتارنا کہ ہر طبقہ مطمئن ہوسکے، تقریباً ناممکن ہے اس لئے یہ امید کرنا حقیقت پسندی نہیں ہوگی کہ بجٹ نئے مالی سال میں معاشی ترقی کے نئے سنگ میل قائم کرے گا۔ تاہم بجٹ سے یہ امید بے جا نہیں کہ اس سے معیشت کو سمت و رفتار ملے گی اور معاشی طور پر ناآسودہ طبقہ آسودگی کی جانب قدم بڑھا سکے گا۔ عام طور پر بجٹ میں معاشی طورپر پسماندہ طبقات کی دہائی دینے میں بخل سے کام نہیں لیا جاتا مگر مطلب برآری صرف بڑے تاجروں اور صنعتی گھرانوں کی ہوتی ہے۔ یہ ہماری پرانی روایت ہے اور شاید یہی وجہ ہے کہ جب معیشت نئے گل کھلا رہی تھی، دورونزدیک اس کا چرچا تھا اور جی ڈی پی کے بارے میں بڑی خوش آئند قیاس آرائی کی جارہی تھی، تب بھی ان لوگوں کے ہاتھ خالی ہی تھے جو معاشی طور پر حاشئے پر رہتے آئے ہیں۔ چھوٹی صنعتوں اور چھوٹے کاروباروں کو کچھ مل رہا ہوتا تو وہ اتنے کمزور نہ ہوجاتے کہ نوٹ بندی انہیں تباہ کردیتی یا لاک ڈاؤن سے ان کا بیڑہ غرق ہونے کے قریب پہنچ جاتا۔
 اس لئے بجٹ کو ان معنوں میں انقلابی ہونا چاہئے کہ اس کا زور بڑے صنعتی گھرانوں کے مفادات کی تکمیل پر صرف نہ ہو بلکہ معاشی طور پر پسماندہ طبقات کو ملحوظ رکھے جن کی محنت و مشقت اور جی ڈی پی میں بھرپور شرکت ہمیشہ اس قابل رہی ہے کہ اس کا عملی اعتراف کیا جائے۔ یہاں یہ بات ذہن نشین رہنی چاہئے کہ جو طبقات نوٹ بندی کے سبب شدید بحران سے دوچار ہوئے تھے وہ کورونا سے پہلے تک سنبھل نہیں پائے تھے۔ کورونا نئی افتاد ثابت ہوا جس نے رہی سہی کسر بھی پوری کردی۔ پچھلے چار تا پانچ بجٹ ان کیلئے راحت کا سامان نہیں کرسکے۔ بے شک ’’کورونا کال‘‘ میں حکومت نے غریب طبقات کیلئے راشن کی فراہمی کا بندوبست کیا جو اب بھی جاری ہے مگر نچلے درجے کی معاشی سرگرمیوں کی بدحالی کے سبب ان میں اپنی طاقت سے اٹھ کھڑا ہونے کی صلاحیت نہیں پیدا ہوسکی۔ حکومت راشن کب تک دے گی؟ ظاہر ہے اس کی وجہ سے وہ فاقہ کشی سے بچ جائینگے مگر حکومت کی مدد یا احسان کے بوجھ تلے دبے رہیں گے اور خود کما کر کھانے کا سکھ ان سے دور ہی رہے گا۔ اس لئے حکومت مدد دینے کے بجائے ایسا ماحول بنائے کہ ان کا روزگار بحال ہو اور یہ اپنی محنت پر بھروسہ کریں، حکومت کی امداد کی آرزو اور انتظار نہیں۔
 تنخواہ دار طبقہ یہ امید کرے تو بے جا نہیں کہ روزگار مارکیٹ کے محدود ہوجانے کے اس دور میں آمدنی ٹیکس میں رعایت ملے۔ حکومت رعایت دے کر روزگار میسر ہونے کے باوجود کورونا کی وجہ سے مقروض ہونے اور تنگدستی کی مار سہنے  والے اس طبقے کیلئے تھوڑی بہت آسانی پیدا کرسکتی ہے۔ یہ طبقہ دیگر طبقات کے بشمول یہ امید بھی کرتا ہے کہ وہ ایک مہنگائی کم ہو جو تمام لازمی اشیاء کو مہنگا کرتی ہے۔ وہ ہے پیٹرول اور ڈیزل کی ہوش ربا گرانی۔ اس کے ذریعہ مرکزی و ریاستی حکومتوں نے اپنی آمدنی کا انتظام تو کرلیا مگر یہ انتظام عوام کے سکھ چین کی قیمت پر ہوا ہے۔ مرکز کا بجٹ ایندھن پر عائد ٹیکسیز کو کم کرے تو یہ نظیر بنے گی اور ریاستی حکومتیں بھی اس پر عمل کرنے کو مجبور ہوں گی۔ بجٹ میں منریگا کیلئے مختص کیا جانے  والا فنڈ بڑھانے کی بھی سخت ضرورت ہے۔
 چھوٹے روزگارکیلئے مراعات کے دروازے کھولنا اس لئے ضروری ہے کہ یہی طریقہ ہے جس سے امیری اور غریبی کے فرق کو کم کیا جاسکتا ہے۔ n

متعلقہ خبریں

This website uses cookie or similar technologies, to enhance your browsing experience and provide personalised recommendations. By continuing to use our website, you agree to our Privacy Policy and Cookie Policy. OK