Inquilab Logo

امریکہ میں تبدیلیٔ اقتدار اور مسئلۂ فلسطین

Updated: January 19, 2021, 1:20 PM IST | Editorial

امریکہ میں نئے صدر کی حلف برداری آئندہ روز (۲۰؍ جنوری ۲۰۲۱ء کو) ہوگی۔ اس حلف برداری سے امریکی عوام ہی خوش نہیں ہیں، پوری دُنیا میں اطمینان پایا جارہا ہے۔

Joe Biden - Pic : PTI
جو بائیڈن ۔ تصویر : پی ٹی آئی

  امریکہ میں نئے صدر کی حلف برداری آئندہ روز (۲۰؍ جنوری ۲۰۲۱ء کو) ہوگی۔ اس حلف برداری سے امریکی عوام ہی خوش نہیں ہیں، پوری دُنیا میں اطمینان پایا جارہا ہے۔ اس کی وجہ ٹرمپ کا تباہ کن چار سالہ دور ِ اقتدار ہے جو خدا خدا کرکے اختتام کو پہنچ رہا ہے۔ بائیڈن تجربہ کارسیاستداں ہیں۔ ٹرمپ کی پالیسیوں کے طفیل ہر گزرتے دن کے ساتھ زیادہ سے زیادہ منفی خبروں کا حصہ بننے والے امریکہ کو نئے صدر کی حیثیت سے شاید بائیڈن جیسے ہی کسی معاملہ فہم سیاستداں کی ضرورت تھی۔ اُن کے اولین ۱۰۰؍ دنوں کے مجوزہ اقدامات کے بارے میں یہ سن کر ڈھارس بندھتی ہے کہ ان کے ذریعہ مکافات ِعمل کی کوشش کی جائے گی تاکہ ٹرمپ کے دور کی کثافت کو ختم یا کم کیا جاسکے۔ مجوزہ اقدامات میں سے ایک ’’سفری پابندی‘‘ کا خاتمہ بتایا جارہا ہے جس کے ذریعہ ٹرمپ نے متعدد مسلم ملکوں سے آنے والے لوگوں کا امریکہ میں داخلہ روک دیا تھا۔ یہ غیر انسانی فعل تھا جس کی وجہ سے ہزاروں خاندان ٹوٹ کر رہ گئے۔ اسی نوع کا دوسرا اقدام امریکہ میکسیکو سے آمدورفت پر لگنے والی پابندی کا ہٹایا جانا بھی بتایا گیا ہے جس کے ذریعہ ٹرمپ نے بے شمار افراد کو اپنے خاندانوں سے جدا کردیا تھا۔ اکتوبر ۲۰ء کے ایک صدارتی مباحثے میں بائیڈن نے ٹرمپ کی اس پالیسی کو مجرمانہ قرار دیا تھا۔ 
 یہ اور ایسے اقدامات ہوئے تو ان سے بہتری کی اُمید کی جاسکتی ہے بالخصوص یہ اُمید کہ بائیڈن کا دورِ اقتدار اُن کے فوری پیش رو ہی سے بہتر نہیں بلکہ ماضی کے کئی دیگر صدور سے بھی بہتر ہوگا۔ کل سے شروع ہونے والے اِس دور میں بائیڈن انتظامیہ کی مشرق وسطیٰ پالیسی بھی توجہ کا مرکز بنے گی اور خاص طور پر یہ دیکھا جائے گا کہ فلسطین کے تئیں اُن کی ترجیحات کیا ہیں۔ ٹرمپ کے فیصلے کو بدلنے اور پلٹنے کی کوشش میں وہ امریکی سفارت خانے کو واپس تل ابیب لائیں گے یا نہیں، فلسطین کی گرانٹس جو ٹرمپ نے روک دی تھیں اُنہیں بحال کریں گے  یا نہیں، اسرائیل کو جارحیت سے باز رکھیں گے یا نہیں اور اُسے اقوام متحدہ کی قراردادوں کا سنجیدگی سے نوٹس لینے پر آمادہ کریں گے یا نہیں۔ امریکی صدور اسرائیل نواز ہوتے ہیں۔ بائیڈن کے بارے میں یہ سوچنا خود کو دھوکہ دینے جیسا ہوگا کہ وہ فلسطین کے ساتھ اس حد تک تعاون کرینگے کہ امریکہ میں موجود طاقتور اسرائیلی لابی ناراض ہوجائے ۔ اس کے باوجود اُن سے یہ اُمید بے جا نہیں کہ وہ انسانی اور اُصولی بنیادوں پر فیصلہ کرتے ہوئے حقدار تک حق پہنچانے کی جدوجہد سے پیچھے نہیں ہٹیں گے۔ اُن کی زبان سے حقوق انسانی کے تعلق سے کوئی بھی بات اسی وقت اچھی لگے گی جب وہ فلسطین میں انسانی حقوق کی بدترین پامالی کا نوٹس لیں گے اور اسے ختم کروانے میں کلیدی کردار ادا کریں گے۔
 بائیڈن نے اپنے طویل سیاسی تجربے سے جتنا کچھ سیکھا ہے اُس کی بنیاد پر وہ جانتے ہیں کہ جذباتی وابستگی اور اُصولی ذمہ داری کے درمیان فرق ہے۔ ٹرمپ کے دور میں کئی گنا زیادہ رفتار سے پروان چڑھنے والی نسل پرستی، عصبیت، جارحیت اور بے اُصولی کا تریاق ضروری ہے۔ اگر بائیڈن نے عزم کیا ہے کہ وہ ٹرمپ کی پالیسیوں کو فوراً سے پیشتر بدلنے کو ترجیح دیں گے تو اُنہیں ٹرمپ کی فلسطین پالیسی کو بھی بدلنا ہوگا۔ بائیڈن نے لوگوں، برادریوں اور ملکوں کو جوڑنے کا عہد کیا ہے تو اس میں فلسطین کو اولیت حاصل ہونی چاہئے جسے ہر عہد میں اور ہر صدر کے دور میں بے آواز کرنے کی کوشش کی گئی اور اس کے حقوق چھینے گئے۔

متعلقہ خبریں

This website uses cookie or similar technologies, to enhance your browsing experience and provide personalised recommendations. By continuing to use our website, you agree to our Privacy Policy and Cookie Policy. OK