Inquilab Logo

تغیر زمانہ کے ساتھ خود کو بدلنا، وقت کا تقاضا

Updated: August 09, 2020, 3:37 PM IST | Dr Mushtaque Ahmed

ہماری آبادی ۱۵؍ سے۲۰؍ کروڑ ہوگئی ہے لیکن یہ بڑھتی آبادی اس وقت تک مستحکم نہیں ہوسکتی جب تک کہ ہمارے معاشرے کااقتصادی تصویر نہیں بدلے گا۔ مسلم طبقے کے تعلیم یافتہ لوگوں کی یہ ذمہ داری ہے کہ وہ اپنے طورپر بھی معاشرے میں خصوصی بیداری مہم چلائیں، بالخصوص بنیادی سطح ہی سے معیاری تعلیم کیلئے جد وجہدکریں کہ اب سب کچھ معیاری تعلیم کی بدولت ہی حاصل کیا جا سکتا ہے

Students - Pic : INN
طلبہ ۔ تصویر : آئی این این

ہندوستان کے سیاسی، سماجی ، معاشرتی ،تعلیمی ،اقتصادی اور مذہبی خطوط جس برق رفتاری سے تبدیل ہو رہے ہیں، اس سے اگر کوئی طبقہ بے خبر رہتا ہے اور بدلتے حالات کے ساتھ خود کو نہیں بدلتا ہے تو اس کی پسماندگی کی وجہ وہ خود ہےکیونکہ ترقی کے دو ر میں کسی فردِ واحد کو شامل ہونے کیلئے بیدار تو کیا جا سکتا ہے لیکن دوڑنا تو اسے ہی ہوگا۔  اگر کوئی بیدار ہو کر بھی اس دوڑ میں شامل نہیں ہوا تو اس کی پسماندگی یقینی ہے ۔یہی کچھ حال ہندوستان کی ایک بڑی اقلیت مسلم طبقے کی ہے کہ وہ بدلتے زمانے کی رفتار کے ساتھ چلنے کو تیار نہیں ہے اور سیاست کی شطرنجی چال کے کچھ اس طرح شکار ہوگئے ہیں کہ اپنے دامن پہ لگے بد نما داغ کو بھی فخریہ پیش کرنے سے گریز نہیں کرتے۔ مثلاً سچر کمیٹی کی رپورٹ نے ملک کی مسلم اقلیت کو دلت طبقے سے بھی پسماندہ قرار دیا تھااور گزشتہ ڈیڑھ دہائی سے بس اسی رپورٹ پر سردُھنا جا رہا ہے اور سرکاری اعلانات پر کبھی جشن منایا جاتا ہے تو کبھی سرکار کو اپنی پسماندگی کیلئے موردِ الزام ٹھہرایا جا رہاہے جبکہ سچائی یہ ہے کہ دنیا کی تاریخ میں یہ حقیقت واضح ہے کہ کسی بھی قوم کی تقدیر اسی وقت بدلتی ہے جب وہ قوم خود اپنے معاشرتی تصویر کو بدلنے کیلئے کوشاں ہوتی ہے۔ قرآن نے اس حقیقت کو عیاں کردیا ہے کہ ’’ان اللہ لا یغَیِّر بقوم حتی یغیر ما بانفسہم‘‘ مگر افسوسناک صورتحال یہ ہے کہ مسلم طبقہ اب بھی طرح طرح کے فروعی مسائل میں الجھا ہوا ہے اور ترقی کی کلید کی طرف گامزن نہیں ہورہاہے۔
  جب کبھی قومی اور ریاستی مقابلہ جاتی امتحانات کے رزلٹ آتے ہیں تو خوشیاں بھی منائی جاتی ہیں اور اس بات کا بھی رونا ہوتا ہے کہ بہت کم مسلم بچے کامیاب ہوئے ہیںاور اس پر سیاسی بیان بازی بھی خوب ہوتی ہےلیکن کبھی اس پر غور نہیں کیا جا تا کہ جس امتحان کا نتیجہ سامنے آیا ہے اس میں ہمارے کتنے امیدوار شامل ہوئے تھے۔ ہم نتائج کا فیصد اپنی آبادی کی شرح کے تناسب میں دیکھتے ہیںجبکہ قومی سطح کے بیشتر مقابلہ جاتی امتحان کا نتیجہ ایک سے ڈیڑھ فیصد پر مبنی ہوتا ہے ۔ ظاہر ہے کہ جب ہمارے امیدوار کم ہوں گے تو نتیجہ بھی کم آئے گا۔اسلئے اگر ملک کے بدلتے مجموعی حالات میں ہم اپنی شناخت بر قرار رکھنا چاہتے ہیں تو معیاری تعلیم اور پھر سرکاری امتحانات میں ہماری بھرپور حصہ داری لازمی ہے۔ اس میں کوئی شک نہیں کہ حالیہ دہائی میں تعلیم کے تئیں بیداری آئی ہے لیکن وہ محض ڈگری کے حصول تک محدود ہےجبکہ تقاضائے عہد یہ ہے کہ معیاری تعلیم کی بنیاد پر ہی طلبہ کا مستقبل روشن ہو سکتاہے۔ بالخصوص قومی سطح کے جو مقابلہ جاتی امتحانات ہیں، اس کیلئے شروع ہی سے ذہن سازی ہونی چاہئے کیونکہ جب تک بنیادمستحکم نہیں ہوگی، اس وقت تک ان مقابلہ جاتی امتحانات میں کامیابی یقینی نہیں ہو سکتی اور یہ حقیقت بھی اپنی جگہ مسلّم ہے کہ اب سرکاری اور غیر سرکاری اداروں میں معمولی سے معمولی ملازمت کیلئے بھیڑ کو کم کرنے کیلئے بھی مقابلہ جاتی امتحانات کا انعقاد کرایا جا تا ہے۔ ظاہر ہے کہ خالی اسامیوں کے مقابلے ہی امیدواروں کا انتخاب ہونا ہے، اسلئے مسلم امیدواروں کو دیگر طبقے کے طلبہ سے کہیں زیادہ محنت کرنے کی ضرورت ہے لیکن مایوسی تب ہوتی ہے جب قومی سطح کے مقابلہ جاتی امتحانات میں ہمارے طبقے کی امیدواری کم ہوتی ہے۔ نتیجہ ہے کہ سرکاری محکموں میں دنوں دن ہماری نمائندگی بھی کم ہوتی جا رہی ہے۔
  حال ہی میں یونین پبلک سروس کمیشن۲۰۱۹ءکا رزلٹ آیا ہے اور اس میں الحمد للہ۴۴؍مسلم امیدواروں نے کامیابی حاصل کی ہے۔ ان کی رینکنگ کے مطابق دو چار آئی اے ایس اور اس کے بعد دیگر عہدوں پر اُن کی تقرریاں ہوں گی۔ یو پی ایس سی کیلئے حالیہ دنوں میں کئی مراکز پر مفت کوچنگ کا اہتمام کیا گیاہے مثلاً زکوٰۃ فائونڈیشن دہلی، جامعہ ملّیہ اسلامیہ ، حج بھون ممبئی، حج بھون پٹنہ اور جنوبی ہند کے کرناٹک وتمل ناڈو میں بھی خصوصی کوچنگ برائے اقلیت طبقہ وجود میں آیا ہے ۔ جموںکشمیر میں بھی اس طرح کی کوچنگ ہو رہی ہے۔ جموں کشمیر ریاست کے طلبہ کس طرح کی فضا میں سانس لے رہے ہیں یہ جگ ظاہر ہے ۔ اس کے باوجود وہاں کے طلبہ اچھا نتیجہ دے رہے ہیں۔اس کا مطلب یہ ہے کہ وہاں بنیادی اور ثانوی تعلیم معیاری ہے اور مقابلہ جاتی امتحانات کیلئے ذہن سازی بھی ہو رہی ہے۔ اس سال بھی نادیہ بیگ نے اچھا مظاہرہ کیا ہے جبکہ گزشتہ ایک سال سے کشمیر کے حالات ناگفتہ بہ ہیں۔ انٹرنیٹ اور دیگر ذرائع ابلاغ کی سہولیت میسر نہیں ہے، اس کے باوجود  وہاں کئی بچوں نے کامیابی حاصل کی ہے۔ جن بچوں نے کامیابی حاصل کی ہے، ان کے بیانات اور کوائف بھی سامنے آئے ہیں ۔ اس سے یہ اندازہ ہوتا ہے کہ بیشتر امیدوار دیہی علاقے کے ہیں اور انہوں نے سخت محنت سے یہ کامیابی حاصل کی ہے۔ ہمیں ان کی کامیابی پر صرف جشن ہی نہیں منانا چاہئے بلکہ  معاشرے میں یہ پیغام بھی جانا چاہئے کہ اگر ہمارے اندر صلاحیت ہے تو کامیابی یقینی ہے۔ہم اپنی ناکامی کا بہانہ صرف ذہنی تعصب اور تحفظ کو نہیں بنا سکتے۔ ہاں ملک کی فضا بدلی ہوئی ہے لیکن اسی فضا میں ہمارے طلبہ اپنی محنت کی بدولت کامیابی کا پرچم بھی بلند کر رہے ہیں۔
 اس سے پہلے بھی میں نے کئی بار اشارہ کیا ہے کہ یو پی ایس سی کے علاوہ مرکزی حکومت کے تمام دفاتر میں ایس ایس سی یعنی اسٹاف سلیکشن کمیشن کے ذریعہ بحالیاں ہوتی ہیں اور یوپی ایس سی کے مقابلے ایس ایس سی میں ایک سال میں لاکھوں اسامیاںآتی ہیں جبکہ یو پی ایس سی میں ہزار ڈیڑھ ہزار تک ہی اسامیاں رہتی ہیں۔ محکمہ افواج میں بھی بڑی تعداد میں سال بھر اسامیاں پُر کی جاتی ہیں لیکن اس کی طرف بھی ہمارے بچے توجہ نہیں دے رہے ہیں جبکہ ایس ایس سی کے امتحان کا نصاب بھی متعین ہے اور اگر ذرا سی سنجیدگی کے ساتھ ہمارے طلبہ اس کی تیاری کریں تو اس میں خاطرخواہ کامیابی حاصل کر سکتے ہیں۔
 واضح ہو کہ مرکزی حکومت کے تمام محکموں کے علاوہ مرکز کے زیر انتظام چلنے والی ریاستوں میں بھی ایس ایس سی کے ذریعہ ہی بحالیاں ہوتی ہیں۔محکمہ ریلوے میں بھی ہر سال بڑی تعداد میں اسامیاں آتی ہیں مگر سچائی یہ ہے کہ ہماری آبادی اور تعلیمی شرح کے مقابلے ان مقابلہ جاتی امتحانات میں بھی ہماری امیدواری تشفی بخش نہیں ہوتی ۔ نتیجہ یہ ہے کہ نمائندگی بھی نہیں ملتی ۔اسلئے ضرورت اس بات کی ہے کہ ہم دیگر تمام مسائل کا رونا دھونا چھوڑ کر اور جذباتی مسائل سے کنارہ کش ہو کر ملک کے مین اسٹریم میں شامل ہونے کیلئے  یو پی ایس سی ، ایس ایس سی ، ریلوے، بینکنگ اور محکمہ افواج کی ملازمتوں میں اپنی نمائندگی کو یقینی بنانے کیلئے امیدواری بھی بڑھائیں اور اس کیلئے سنجیدہ ماحول سازی ضروری ہے ۔کئی ریاستی حکومتوںکے ذریعہ بھی مقابلہ جاتی امتحانات کیلئے مفت کوچنگ کا اہتمام ہے اور مرکزی حکومت کے ذریعہ بھی کوچنگ مراکز کیلئے فنڈ دیئے جاتے ہیں ۔ بہار میں عامر سبحانی ، چیف پرنسپل سیکریٹری محکمہ داخلہ اور محکمہ اقلیتی فلاح وبہبود کی کوششوں سے پٹنہ کے حج بھون اور کئی اضلاع میں کوچنگ قائم کئے گئے ہیں اور یہاں طلبہ کو مفت کوچنگ کرائی جا رہی ہے لیکن سچائی یہ ہے کہ مسلم معاشرے میں جیسا جوش وخروش نظر آنا چاہئے وہ نہیں ہے بلکہ دیگر فروعی مسائل میں ہمارا وقت زیادہ ضائع ہو رہا ہے اور ہم طرح طرح کی شطرنجی چالوں کے شکار ہوتے جا رہے ہیں جبکہ بدلتے ہندوستان کا اشارہ یہ ہے کہ ہمیں بھی بدلنا ہوگا۔ اس تبدیلی کی واحد کنجی معیاری تعلیم حاصل کرنا اور اس کی بنیاد پر قومی اور ریاستی سطح کے مقابلہ جاتی امتحانات میں شامل ہو کر اپنی موجود گی کا احساس کرانا ضروری ہے ورنہ ہم دن رات صرف یہ کہتے رہیں کہ ہماری آبادی ۱۵؍  سے۲۰؍ کروڑ ہوگئی ہے لیکن یہ بڑھتی آبادی اس وقت تک مستحکم نہیں ہوسکتی جب تک کہ ہمارے معاشرے کی اقتصادی تصویر نہیں بدلے گی۔ مسلم طبقے کے تعلیم یافتہ لوگوں کی بھی یہ ذمہ داری ہے کہ وہ اپنے طورپر بھی معاشرے میں خصوصی بیداری مہم چلائیں اور بالخصوص بنیادی سطح سے ہی بلند معیاری تعلیم کیلئے جد وجہدکریں کہ اب سب کچھ معیاری تعلیم کی بدولت ہی حاصل کیا جا سکتا ہے۔ محض ڈگری کی بنیاد پر ہم ایک بڑی بھیڑ میں اپنی کوئی شناخت مستحکم نہیں کر سکتے۔اس لئے تقاضائے وقت کو مدنظر رکھتے ہوئے ایک سماجی انقلاب کی ضرورت ہے کہ اب اس کے بغیر ہماری تقدیر نہیں بدل سکتی

متعلقہ خبریں

This website uses cookie or similar technologies, to enhance your browsing experience and provide personalised recommendations. By continuing to use our website, you agree to our Privacy Policy and Cookie Policy. OK