Inquilab Logo

چین۔بھارت تنازع رہے گا، جنگ نہیں ہوگی

Updated: June 02, 2020, 9:45 AM IST | Hasan Kamal

اس حقیقت کے باوجود کہ چین لداخ کے کچھ علاقوں پر قابض ہے، جنگ کا کوئی امکان نہیںہے۔جنگ کا امکان اسلئے بھی نہیں ہے کہ مودی سرکار نے ملک کی معیشت کو اس حال میں پہنچا دیا ہے کہ ایک دن کی جنگ بھی تباہ کن ثابت ہوگی۔

India and China - Pic : INN
انڈیا اور چین ۔ تصویر : آئی این این

  نریندر مودی نے ۲۰۱۴ءمیں وزیر اعظم بننے سے پہلے منموہن سنگھ سرکار کو ڈانتے ہوئے نصیحت کی تھی کہ چین کو آنکھیںلال کرکے  سمجھانا چاہئےکہ وہ جارحانہ حرکتوں سے باز رہے۔ہمیں نہیںمعلوم کہ ’’آنکھیں لال کرکے سمجھانا ‘‘ کس بھاشا کا محاورہ ہے۔ کم از کم ہندی کا تو نہیں ہے۔بہر حال اب جب کہ چین کے مبینہ طور پر دس ہزار فوجی لداخ میں حقیقی لائن آف کنٹرول کو پار کرکے ہماری سرحدوں کے کئی کلو میٹر اندر تک گھس آئے ہیں ،سیکڑوں خیمے گاڑ چکے ہیں اور خندقیں کھود کر یہ اشارہ کر رہے ہیں کہ ان کا اپنےسرحدوں میں واپس جانے کا فی الحال کوئی ارادہ نہیںہے،مودی جی بالکل خاموش ہیں۔  حالانکہ چین کو لال لال آنکھوں سے سمجھانےکی اگر کبھی ضرورت تھی تو آج ہی تھی۔نہ صرف مودی، بلکہ راج ناتھ سنگھ بھی خاموش ہیں۔ وزیر دفاع کی حیثیت سے سب سے زیادہ ذمہ داری ان ہی کی تھی کہ قوم کو حقیقت حال سے آگاہ کرتے۔وزیر داخلہ امیت شاہ کی خاموشی اور بھی زیادہ پر اسرار ہے۔ریاست جموں کشمیر کی دفعہ ۳۷۰ ؍کے  خاتمہ کا اعلان کرتے ہوئے سینہ پر ہاتھ رکھ کر انہوں نے یہ،وعدہ بھی کیا تھا کہ جلد ہی پاک ،مقبوضہ کشمیر اور چین مقبوضہ  اقصائے چن کو بھی ہندوستان میں شامل کر لیا جائے گا۔ انہیں اطلاع تو ضرور ملی ہوگی کہ فی الحال تو چین اس لداخ کے کچھ علاقےپر قابض ہے، جسے انہوں نے مرکز کے زیر انتظام صوبہ قرار دیاتھا۔ہم یہ بتاتے چلیں کہ جہاں تک ہماری بہادر مسلح افواج کا تعلق ہے، ہمیں اس کی صلاحیتوںکے بارے میں ذرّہ برابر بھی شبہ نہیں ہے۔ ہماری فوجیں ۱۹۶۲ء  میں نہیں ہیںوہ کسی بھی ملک کی جارحیت کا منہ توڑ جواب دے سکتی ہیں۔ہمیں شبہ ہےتو اس سیاسی قیادت کی صلاحیت پر ہے،جسے  الیکشن لڑنے، الیکشن جیتنے اور ہر جائز ناجائز طریقہ سے سرکاریں بنانے کے سوا کچھ نہیں آتا۔ وہ سیاسی قیادت  ہے  جو یہ سمجھتی ہے کہ اگر اہم سے اہم معاملہ کو ایک رنگین تماشہ بناکر پیش کیا جائے تودنیا کی آنکھیں خیرہ ہو جائیں گی اوروہ باقی سب کچھ بھول جائے گی۔ یہ وہ    قیادت  ہے جو سمجھتی ہے کہ شی جن پنگ کو  جھولا جھلاکر اور ڈونالڈ ٹرمپ کو ’’ اب کی بار ٹرمپ سرکار‘‘ کہہ کر اس نے دنیا کی دو بڑی طاقتوں کو اپنی جیب میں ڈال لیا ہے۔ موجودہ حالات کی پیچیدگی کی ذمہ دار یہی نا اہل سیاسی قیادت ہے۔
چین کی اس موجودہ جارحیت کو اچانک افتاد کہنا درست نہیں ہوگا۔اس کے اشارے بہت پہلے سے مل رہے تھے۔مودی سرکار نہ جانے کس زعم میں انہیں نظر انداز کرنے پر تلی ہوئی تھی۔
 در اصل دفعہ ۳۷۰؍کے خاتمے ، اورلداخ کو یونین ٹریٹری قرار دیئے جانے پر چین نے شدید رد عمل کااظہار کیا تھا۔لداخ کے ایک بڑے حصہ پر چین کا ہمیشہ سے ملکیت کا دعویٰ ہے۔ یوں بھی لداخ میں دنیا کی سب سے زیادہ اونچائی پر واقع پینگ گانگ جھیل  کا دو تہائی حصہ چین کے قبضہ میں ہے۔ صرف ایک تہائی جھیل ہندوستان کے قبضہ میں ہے۔چین نے اسی وقت کہہ دیا تھا کہ  اسے  لداخ کا بدلا ہوا نقشہ منظور نہیں۔چین نے یہ بھی کہا تھا کہ وہ کشمیر کو ہند پاک کے مابین دو فریقی مسئلہ نہیںمانتا۔ وہ اسے سہ فریقی  مسئلہ مانتا ہے اور تیسرا فریق  چین ہے۔ہماری سیاسی قیادت نے اسے زبانی جمع خرچ سمجھا۔ اس کا خیال تھا کہ معاملات شانت پڑنے کے بعد وہ چین کو بھی سمجھا بجھا کر شانت کر دے گی۔ہماری سیاسی قیادت نے  اس وقت بھی    غفلت برتی، جب چین کشمیر کے مسئلہ کو اقوام متحدہ کی سلامتی کونسل میں لے گیا۔چین کی تجویز کو فرانس نے ویٹو کر دیا، کیونکہ ہندوستان فرانس سے رافیل جہازخریدرہا تھا۔ لیکن ہماری سیاسی قیادت یہ سمجھنے سے معذور ہے کہ فرانس کی مدد دائمی نہیں ہے۔چین نے ہندوستان کو ون وے ون روڈ میں شامل ہونے کی دعوت بھی دی، جس میں جاپان کے ماسوا ایشیا کے تقریباًتمام ممالک شامل ہو چکے ہیں ،لیکن ہندوستان نے انکارکر دیا۔جنوبی چین کے سمندر کے استعمال کا معاملہ بھی دونوں ملکوں میں اختلاف کا سبب ہے۔ایک اور واقعہ قابل ذکر ہے۔کوئی دو ماہ قبل ایک چینی بینک نے ایچ ڈی ایف سی بینک کے ایک فیصد حصص خریدلئے تھے۔ مودی سرکار نے   اس کے فوراًبعد ایف ڈی آئی ایکٹ میں یہ تبدیلی کر دی کہ جن ممالک کی سرحدیں ہندوستان سے ملحق ہیں، ان کے سرمایہ کار اگر ہندوستان میں سرمایہ کاری کرنا چاہیں تو انہیں خصوصی اجازت لینی پڑے گی۔چین نےاسے بین الاقوامی تجارتی قوانین کی خلاف ورزی قرار دیا۔چین کی حالیہ جارحیت ان تمام واقعات کے خلاف مجموعی رد عمل ہے۔ چین شاید مئی کے مہینے کا  انتظار کر رہا تھا، جب پہاڑوں  کی برف پگھلنے لگتی ہے۔  
 یہ امر بلا شبہ افسوسناک ہے کہ چین کی اس جارحیت پر دنیا بالکل خاموش ہے۔تاریک ترین پہلو امریکہ کا رویّہ ہے۔صدر ٹرمپ نے چین کی  مذمت کرنے کے بجائے ثالثی کی پیش کش کر دی۔یعنی وہ دونوںمیں سے کسی بھی فریق کو بے قصور نہیں سمجھتے۔ ہماری نظر میں یہ خالص دغا بازی ہے۔انہیں اچھی طرح  معلوم تھا کہ مودی اور چین دونوں ثالثی کی پیش کش مسترد کر دیں گے او ر وہ دونوں میں سے کسی کی مدد نہیں کر سکیں گے۔حالانکہ  نریندر مودی نے ان کیلئے کیا کچھ نہیں کیاتھا۔ مگر ٹرمپ نے ان کی ساری محنت پر پانی پھیر دیا۔مودی کو یقیناًٹرمپ سے اس رویہ کی امید نہیں رہی ہوگی۔  ایک  خبر یہ بھی گشت کر رہی ہے کہ ٹرمپ نے امریکی میڈیا سے کہا کہ انہوں نے نریندر مودی کو فون کیا تھا، لیکن انہیں لگا کہ مودی کا موڈاچھا نہیں تھا۔بہر حال حالات کا ایک مثبت پہلو یہ ہے کہ ۱۹۹۳ کے ایک معاہدہ کی وجہ سے چین اور  ہندوستان کے درمیان ایل اے سی پر طرفین کی غیر مسلّح فوجیں تعینات ہیں۔یعنی  ان میں زیادہ سے زیادہ ہاتھا پائی یا دھینگا مشتی ہو سکتی ہے، ہتھیار بند جھڑپ نہیں ہو سکتی۔  اسی لئے ہندوستان اور دنیا  میں بہت ہنگامہ نہیں برپا ہوا۔اور   اس حقیقت کے باوجود کہ چین لداخ  کے کچھ علاقوں پر قابض ہے، جنگ کا کوئی امکان نہیںہے۔ جنگ کا امکان اسلئے بھی نہیں ہے کہ مودی سرکار نے  ملک کی معیشت کو اس حال میں پہنچا دیا ہے کہ ایک دن کی جنگ بھی تباہ کن ثابت ہوگی۔  جہاںتک چین کا تعلق ہے ، تو ہندوستان کو اشیائے ضروری کا ۷۲؍فیصد سامان چین ہی برآمد کرتا ہے۔یقیناً اتنا بڑا بازار کھونا اس کے تجارتی مفاد میںنہیں ہوگا۔اس لئے تنائو تو برقرارہے گا، لیکن جنگ نہیں ہوگی۔پھر بھی آنے ولے دن مودی سرکار کی داخلہ اور خارجہ پالیسی کے لئے خاصی تشویش اور آزمائش کا سبب ثابت ہوں گے۔چین کہہ رہا ہے کہ سب ٹھیک ٹھاک ہے۔سب ٹھیک ٹھاک ہے یا نہیں  ،یہ تو صرف وزیر اعظم مودی  ہی بتا سکتے ہیںاور وہ فی الوقت بالکل خاموش ہیں۔

china india Tags

متعلقہ خبریں

This website uses cookie or similar technologies, to enhance your browsing experience and provide personalised recommendations. By continuing to use our website, you agree to our Privacy Policy and Cookie Policy. OK