Inquilab Logo

کورونا کے بحران میں شہری ذمہ داریاں

Updated: March 30, 2020, 1:05 PM IST | Editorial

من کی بات‘‘ میں وزیر اعظم کی اس فہمائش کا خاص نوٹس لیا جانا چاہئے۔ اُنہوں نے کہا: ’’مجھے یہ جان کر دُکھ ہوا کہ کچھ لوگ، اُن افراد کے ساتھ بُرا سلوک کررہے ہیں جنہیں اندرون خانہ قرنطینہ (کیورینٹائن) کی طبی ہدایت دی گئی ہے یا جو کورونا کے مشتبہ مریض ہیں۔ یہ بڑی بدقسمتی کی بات ہے۔ سوشل ڈسٹنسنگ (ایک دوسرے سے دور رہنے) کی جو احتیاطی تدبیر بتائی جارہی ہے وہ جسمانی طور پر دور رہنے کیلئے ہے جذباتی طور پر نہیں

Man ki Baat - PIC : INN
من کی بات ۔ تصویر : آئی این این

 ’’من کی بات‘‘ میں وزیر اعظم کی اس فہمائش کا خاص نوٹس لیا جانا چاہئے۔ اُنہوں نے کہا: ’’مجھے یہ جان کر دُکھ ہوا کہ کچھ لوگ، اُن افراد کے ساتھ بُرا سلوک کررہے ہیں جنہیں اندرون خانہ قرنطینہ (کیورینٹائن) کی طبی ہدایت دی گئی ہے یا جو کورونا کے مشتبہ مریض ہیں۔ یہ بڑی بدقسمتی کی بات ہے۔ سوشل ڈسٹنسنگ (ایک دوسرے سے دور رہنے) کی جو احتیاطی تدبیر بتائی جارہی ہے وہ جسمانی طور پر دور رہنے کیلئے ہے جذباتی طور پر نہیں۔‘‘ 
 یہ بات کہی جانی چاہئے تھی اور چونکہ کہی گئی ہے اس لئے ہم اس کا خیرمقدم کرتے ہیں۔ یہ کہنے کی ضرورت اس لئے بھی تھی کہ مشتبہ مریضوں کو یا جن لوگوں کو ازخود قرنطینہ کی طبی ہدایت ملی ہے اُن کے ساتھ سماج میں کچھ ایسا طرز عمل اپنایا جارہا ہے جیسے وہ اچھوت ہوں اور اُن سے دور رہنا ضروری ہو۔ بعض جگہوں پر اس سے قبل کہ کسی مشتبہ بلکہ ممکنہ مریض کی طبی جانچ ہو، اُس سے لوگ دور بھاگنے لگتے ہیں۔ احتیاط الگ چیز ہے اور دور بھاگنا بالکل الگ۔ ظاہر ہے کہ یہ احتیاط نہیں بلکہ نفرت یا تحقیر کا اظہار ہے جو بیماری کے اُس خوف کی وجہ سے پیدا ہوا ہے جسے شکست دینے کی ضرورت ہے۔ ایسی حرکت کرنے والے لوگ خوف کو شکست دینے کے بجائے خدانخواستہ اُس خوف کو تقویت پہنچائیں گے اگر اُنہوں نے اس شعوری یا غیر شعوری طرز عمل سے اجتناب نہیں کیا۔ اس سلسلے میں یہ ذہن نشین رکھنا چاہئے کہ مریض یا مشتبہ مریض ہمدردی اور تعاون کا مستحق ہوتا ہے۔ اُس کے ساتھ نفرت نہیں کی جاسکتی۔ اُسے حقارت کی نگاہ سے دیکھا بھی نہیں جاسکتا۔ 
 ایسے وقت میں جبکہ ہر شخص اپنے گھر میں محصور ہے اور فاضل وقت میں کسی نہ کسی مصروفیت کو اپناکر وقت گزار رہا ہے، وہاٹس ایپ پر پھیلنے والی کچی پکی خبروں پر بھی زیادہ دھیان نہیں دیا جانا چاہئے۔ کوئی خبر جب بلا تصدیق وہاٹس ایپ پر ’’فارورڈ‘‘ ہوتی ہے اور سیکڑوں ہزاروں مرتبہ ’’ری فارورڈ‘‘ ہوتی ہے تو اس کی حیثیت ایک ایسے جھوٹ کی سی ہوجاتی ہے جسے بار بار کہا جائے تو اس پر سچ کا گمان ہونے لگتا ہے۔ موجودہ حالات میں ہر شہری کی ذمہ داری ہے کہ وہ طبی افسران اور اہلکاروں کے ساتھ بھی تعاون کرے اور پولیس افسران اور اہلکاروں کے ساتھ بھی۔ اگر کسی کچی پکی خبر کی بنیاد پر طبی افسران یا پولیس افسران کو الرٹ کردیا گیا، وہ حرکت میں آئے اور کسی علاقے کے کسی مکان یا سوسائٹی کو ’’کورڈن آف‘‘ (محاصرہ) کیا اور بعد میں وہ خبر غلط ثابت ہوگئی تو اس کا مطلب یہ ہوا کہ آپ نے مذکورہ تمام افسران کا وقت ضائع کیا جو اس بحرانی دور میں بڑے چیلنجوں کا سامنا کررہے ہیں۔ شہریوں کی مدد اور حفاظت کیلئے جو سرکاری عملہ دن رات مصروف عمل ہے وہ متاثرہ (پازیٹیو) قرار دیئے گئے افراد کیلئے ہے، افواہوں کے ذریعہ مریض ڈکلیئر کئے گئے لوگوں کیلئے نہیں ہے۔ وزیر اعظم نے کہا کہ اُن لوگوں کی حوصلہ افزائی کیجئے جو کورونا کے خلاف جنگ میں ہراول دستے کا حصہ ہیں، بالخصوص ڈاکٹرس اور نرسیز۔ یہ دوسرا موقع ہے جب یہ بات کہی گئی ہے۔ 
 اس سے قبل ۱۹؍ مارچ کو جب وزیر اعظم نے قوم کے نام خطاب کیا تھا تب بھی ملک کے شہریوں سے اپیل کی گئی تھی کہ وہ اس ہراول دستے میں شامل طبی عملے کی حوصلہ افزائی کیلئے اتوار، ۲۲؍مارچ کو شام ۵؍ بجے تالیاں بجائیں۔ تالیاں بجانے کی تجویز سے بحث کی جاسکتی ہے کہ اس کا کیا مفہوم ہے اور جو ہے وہ کتنا صحتمند ہے مگر اس سے یہ ضرور اُجاگر ہوا تھا کہ ملک کے طبی عملے کی ستائش کی جانی چاہئے۔ اس کا ایک مفہوم یہ بھی ہے کہ اُنہیں بلاوجہ پریشان نہ کیا جائے تاکہ اُن کا قیمتی وقت اور توانائی ضائع نہ ہو۔ 
 ایسے نادر المثال حالات میں ہر شہری کا قدم جتنا سوچا سمجھا اور وسیع تر مفاد میں ہو اُتنا اچھا ہے۔تب ہی ہم اتنے بڑے بحران سے نکل پائینگے۔

متعلقہ خبریں

This website uses cookie or similar technologies, to enhance your browsing experience and provide personalised recommendations. By continuing to use our website, you agree to our Privacy Policy and Cookie Policy. OK