Inquilab Logo

شہریت قانون پراب بیرون ملک بھی تنقید

Updated: January 29, 2020, 2:10 PM IST | Parvez Hafiz

اس بار یوم جمہوریہ کے موقع پر امریکہ کے ۳۰؍ سے زیادہ شہروں میں ہزاروں ہندوستانی مظاہرین نے سڑکوں پر نکل کر شدت سے کالے قانون کے خلاف احتجاج کرکے مودی کو یہ جواب دیا ہے کہ ہندوستان میں سب کچھ ٹھیک نہیں ہے۔

شہریت ترمیمی قانون اور این آر سی کیخلاف احتجاج جاری ہے
شہریت ترمیمی قانون اور این آر سی کیخلاف احتجاج جاری ہے

 آرٹیکل ۳۷۰؍کو منسوخ کر کے کشمیر کی خود مختاری چھین لینے کے بعد نریندر مودی حکومت کو ملک کے اندر بھی اور اقوام عالم کی جانب سے بھی کسی خاص ردعمل کا سامنا نہیں کرنا پڑا تھا۔ گودی میڈیا اور مودی بھکتوں نے تو ایک مسلم اکثریت والے صوبے کے ملک میں مکمل انضمام پر جشن منایا اور لاسمتی کا شکار حزب اختلاف نے بھی مودی اور امیت شاہ کے اس متنازع اقدام کو بلا چوں چرا قبول کرلیا۔ چونکہ مودی اور ڈونالڈ ٹرمپ میں نظریاتی مماثلت ہے اوران کی گاڑھی چھنتی ہے، اسی لئے واشنگٹن نے کشمیر تنازع میں ہندوستان اور پاکستان کے درمیان ثالثی کی پیش کش کرنے کے علاوہ اورکچھ نہیں کیا۔ عرب دنیا اور یورپین یونین نے بھی کشمیر ایشو کو ہندوستان کا اندرونی مسئلہ قرار دے کر کسی قسم کی مداخلت سے احتراز کیا۔اس سے حوصلہ پاکر مودی اور شاہ نے جب پارلیمان میں طاقت کے بل بوتے پر شہریت ترمیمی بل پاس کروالیا تو وہ اس خوش فہمی کا شکار تھے کہ ملک کے اندر یا باہرانہیں کسی قسم کی مخالفت کا سامنا نہیں کرنا پڑے گا۔لیکن ان کی یہ خوش گمانی جلد ہی دور ہوگئی جب سی اے اے، این آر سی اور این پی آر کے خلاف پہلے شاہین باغ اور بعد میں دیگر شہروں میں احتجاج شروع گئے جو دیکھتے ہی دیکھتے ملک گیر عوامی تحریک میں تبدیل ہوگئے۔ان عوامی احتجاج کی بازگشت اب ہندوستان سے باہر بھی سنی جارہی ہے۔ امریکہ اور یورپی یونین سمیت دنیا کے بہت سے ممالک میں اس غیر جمہوری قانون پر سخت تنقید ہونے لگی ہے۔ سوئٹزر لینڈ کے ڈاووس سے یورپی پارلیمنٹ تک کالے قانون کی کھل کر مذمت کی جارہی ہے۔ امریکی وزارت خارجہ کی ایک اہم اہلکار الیسیا ویلزنے دہلی کے حالیہ دورے سے لوٹ کر واشنگٹن میں یہ بیان دیا کہ سی اے اے کو ہندوستان کی سڑکوں پرسخت جمہوری امتحان کا سامنا کرنا پڑ رہا ہے۔ واشنگٹن میں ایمنسٹی انٹرنیشنل، ہیومن رائٹس واچ اور یو ایس کمیشن آن انٹر نیشنل ریلیجیس فریڈم(یوایس سی آئی آر ایف ) جیسی انسانی حقوق کی عالمی تنظیموں نے منگل کے دن امریکی کانگریس کو نئے قانون اور اس کے خلاف ہونے والے ملک گیر مظاہروں کے متعلق مفصل رپورٹ دی ہے۔ ادھر یورپی پارلیمنٹ میں بدھ کے دن ان چھ قراردادوں پر سیر حاصل بحث ہوگی جنہیں پارلیمنٹ کے۸۰؍ فیصد اراکین کی حمایت حاصل ہے۔ ان اراکین نے شہریت قانون کو متعصبانہ، تقسیم کرنے والا اور خطرناک قرار دیتے ہوئے یہ وارننگ دی ہے کہ اس کے نفاذ سے دنیا کا سب سے بڑا بے وطنی (statelessness) کا بحران پیدا ہوجائے۔ اس کا مطلب یہ ہوا کہ یورپین یونین کو بھی ہندوستانی عوام کی طرح مودی اور امیت شاہ کے اس دعوے پر یقین نہیں ہے کہ سی اے اے کے ذریعہ پڑوسی ممالک کے ستائے ہوئے لوگوں کو شہریت دی جائے گی۔ یورپین پارلیمنٹ کو بھی یہ خدشہ ہے کہ اس کے ذریعہ لاکھوں ہندوستانی شہریوں کی شہریت چھین لی جائے گی۔ ان قراردادوں میں اس بات پر بھی کافی تنقید کی گئی ہے کہ اس غیر آئینی قانون کے خلاف پر امن اور جمہوری طریقے سے کئے جا رہے احتجاج کو کچلنے کیلئے مودی سرکار طاقت کا بیجا استعمال کررہی ہے۔
 دو سال قبل جس ڈاووس کے ورلڈ اکنامک فورم میں مودی جی کو کلیدی خطبہ پیش کرنے کا اعزاز حاصل ہوا تھا اسی ڈاووس میں اس بار ان کی جارحانہ قوم پرستی، کشمیر پر کریک ڈاؤن اور مسلم دشمن شہریت قانون کو سخت تنقید کا نشانہ بنایا گیا۔ امریکی ارب پتی جارج سوروس نے مودی پر سخت حملہ کرتے ہوئے یہ الزام عائد کیا کہ وہ ہندوستان کو ہندو مملکت بنانے پر تلے ہیں۔ سوروس کا یہ انتباہ کہ جارحانہ قوم پرستی کے بڑھتے طوفان سے جمہوری معاشرے کو سب سے بڑا اور بھیانک جھٹکا ہندوستان میں لگا ہے مودی جی کے ہندوستان کو ’’وشو گرو‘‘ اور پانچ ٹریلین کی معیشت بنانے کے دعووں کی قلعی کھولنے کے لئے کافی ہے۔ نوے سالہ سوروس ہنگرین نژاد امریکی یہودی ارب پتی ہیں جنہوں نے بچپن میں اپنی آنکھوں سے یہودیوں کے خلاف نازیوں کی نسل کشی کا مشاہدہ کیا تھا۔ سوروس ہر قسم کی آمریت، فسطائیت،قوم پرستی اور نسل پرستی کے خلاف ہیں۔ اگر ان کے جیسا انسانیت نواز شخص مودی کی قوم پرستی کو جمہوری معاشروں کیلئے خطرہ قرار دے رہاہے تو ہر ہندوستانی شہری کے لئے یہ لمحۂ فکریہ ہے۔
  ا سی دن دنیا کے معتبر ترین جریدوں میں سے ایک دی اکنامسٹ کا تازہ شمارہ منظر عام پر آگیا جس کی کور اسٹوری کا یہ عنوان ’’ غیر روادار انڈیا: مودی کس طرح دنیا کی سب سے بڑی جمہوریت کو خطرے میں ڈال رہے ہیں‘‘ پوری داستان بیان کررہا ہے۔ چند دن قبل اسی رسالے کی جانب سے جاری کی گئی جمہوری ممالک کی فہرست میں ہندوستان دس پائیدان نیچے گر گیا۔ دنیا کی سب سے بڑی جمہوریت کے لئے کتنی شرم کی بات ہے کہ۱۶۵؍ممالک کی لسٹ میں اس کی پوزیشن گھٹتے گھٹتے۵۱؍ ویں ہوگئی ہے۔ 
  مودی سرکار ڈھٹائی کا مظاہرہ کرتے ہوئے بیرونی تنقیدوں کو یہ کہہ کر ڈسمس کررہی ہے کہ یہ ہندوستان کا اندرونی معاملہ ہے جس میں کسی دوسرے ملک کی مداخلت کی کوئی گنجائش نہیں ہے۔ لیکن یہ کج بحثی چلنے والی نہیں ہے ۔ ہمیں یہ بھی یاد رکھنا چاہئے کہ ہندوستان میانمار کی طرح ایک نیم فوجی ڈکٹیٹر شپ نہیں بلکہ دنیا کی سب سے بڑی جمہوریت ہے اور مسئلہ دس پندرہ لاکھ روہنگیاؤں کا نہیں بلکہ کروڑوں مسلمانوں، دلتوں اور دبے کچلے ہندوستانیوں کی شہریت کے تحفظ کا سوال ہے۔آزاد ہندوستان کی تاریخ میں ایمرجنسی کے بعد یہ دوسری بار ہوا ہے کہ عالمی سطح پر وطن عزیز کی جمہوریت کے بقا پر اس طرح تشویش کا اظہار کیا جارہا ہے۔لیکن اندرا گاندھی نے تو صرف جمہوریت کا گلا گھونٹ کر آمریت مسلط کرنے کی کوشش کی تھی۔ آج دنیا کو ہندوستان پر فسطائی آمریت کے بادل منڈلاتے ہوئے نظر آرہے ہیں جن سے لاکھوں شہریوں کے بے وطن ہوجانے کا خطرہ پیدا ہوگیا ہے۔
  یورپی پارلیمنٹ کی قراردادوں کو ہندوستان کے اندرونی معاملات میں بیجا مداخلت قرار دینے والی مودی سرکار نے تین ماہ قبل خود ہی یورپین یونین کے ایک پارلیمانی وفد کو کشمیر کی سیر کروائی تھی تاکہ دنیا کو یہ پیغام دیا جاسکے کہ وادی میں سب کچھ نارمل ہے۔ ستمبر میں مودی جی نے امریکہ میں مقیم ہندوستانیوں کی ایک بڑی ریلی سے خطاب کرتے ہوئے آٹھ زبانوں میں اعلان کیا تھا کہ ہندوستان میں ’’سب چنگا  ہے‘‘۔ اس بار یوم جمہوریہ کے موقع پر امریکہ کے ۳۰؍ سے زیادہ شہروں میں ہزاروں ہندوستانی مظاہرین نے سڑکوں پر نکل کر  پوری شدت سے کالے قانون کے خلاف احتجاج کرکے مودی کو یہ جواب دیا ہے کہ ہندوستان میں سب کچھ ٹھیک نہیں ہے۔

متعلقہ خبریں

This website uses cookie or similar technologies, to enhance your browsing experience and provide personalised recommendations. By continuing to use our website, you agree to our Privacy Policy and Cookie Policy. OK