Inquilab Logo

کانگریس کو دفاعی نہیں ، مسائل پر جارحانہ رُخ اپنانا ہوگا

Updated: February 16, 2020, 3:57 PM IST | Jamal Rizvi

دہلی کے اسمبلی الیکشن میں عام آدمی پارٹی کی شاندار کامیابی نے یہ ثابت کر دیا ہے کہ سماج میں مذہب اور قوم کے نام پر نفرت پھیلانے والی سیاست کے ذریعہ عوام کو ہمیشہ بیوقوف نہیں بنایا جا سکتا۔ بی جے پی نے اس الیکشن میں کامیابی حاصل کرنے کیلئے ہر وہ ہتھکنڈہ استعمال کیا جس کے سہارے اسے مرکز اور ملک کی بعض ریاستوں میں حکومت بنانے کا موقع ملا۔

کانگریس کو مسائل اور موضوعات پر واضح رخ کے ساتھ میدان میں آنا ہوگا ۔ تصویر : پی ٹی آئی
کانگریس کو مسائل اور موضوعات پر واضح رخ کے ساتھ میدان میں آنا ہوگا ۔ تصویر : پی ٹی آئی

دہلی کے اسمبلی الیکشن میں عام آدمی پارٹی کی شاندار کامیابی نے یہ ثابت کر دیا ہے کہ سماج میں مذہب اور قوم کے نام پر نفرت پھیلانے والی سیاست کے ذریعہ عوام کو ہمیشہ بیوقوف نہیں بنایا جا سکتا۔ بی جے پی نے اس الیکشن میں کامیابی حاصل کرنے کیلئے ہر وہ ہتھکنڈہ استعمال کیا جس کے سہارے اسے مرکز اور ملک کی بعض ریاستوں میں حکومت بنانے کا موقع ملا۔ دہلی کے اسمبلی الیکشن کے نتیجوں سے یہ بات بھی سامنے آئی کہ عوام کو زندگی کی بنیادی ضرورتوں کے حصول میں آسانی فراہم کرنے کو ترجیح دینے والی سیاست ہی کارگر اور کامیاب ہوتی ہے۔  اروند کیجریوال نے اس الیکشن سے قبل اپنی حکومت کی پانچ سالہ میعاد میں عوام کیلئے جو ترقیاتی کام کئے تھے، اس کو مد نظر رکھتے ہوئے دہلی کے رائے دہندگان نے انھیں ایک بار پھر حکومت بنانے کا موقع دیا ہے۔
  دہلی اسمبلی الیکشن کا یہ نتیجہ اس لحاظ سے بھی اہم ہے کہ ایک ایسے دور میں جبکہ ملک کی سیاسی فضاپر بڑی حد تک فرقہ واریت کا رنگ چڑھا ہو ،دہلی کے رائے دہندگان ووٹ دینے کے حق کا استعمال کرتے وقت اس رنگ سے متاثر نہیں ہوئے۔ دہلی کے رائے دہندگان کا یہ دانشمندانہ فیصلہ لائق ستائش ہے ۔ان کے اس فیصلے سے یہ امید پیدا ہو چلی ہے کہ فرقہ واریت اور مذہبی تعصب اور نفرت پر مبنی سیاست کا کاروبار اب بہت زیادہ  مدت تک عوام کا استحصال کرنے میں کامیاب نہیں ہوگا۔ ملک کے وزیر داخلہ سمیت بی جے پی کے دیگر بڑے لیڈروں نے بھی اعتراف کر لیا ہے کہ دہلی کے اسمبلی الیکشن میں فرقہ واریت پر مبنی ان کی سیاسی حکمت عملی ناکام ہوئی۔ یہ ضرور ہے کہ اس الیکشن کے بعد دہلی اسمبلی میںاس پارٹی کی سیٹ ۳؍ سے بڑھ کر ۸؍ ہوگئی لیکن ایک بڑی سیاسی پارٹی کانگریس اس بار بھی دہلی میں شرمناک حد تک ناکام ہوئی ۔دہلی کے گزشتہ اسمبلی الیکشن کی طرح اس بار بھی کانگریس کو ایک بھی سیٹ پر کامیابی نہیں حاصل ہو سکی۔
 آزاد ہندوستان میں کانگریس کی سیاسی تاریخ کے سیاق میں اس نتیجے سے یہ سوال بہرحال پیدا ہوتا ہے کہ آخر کیا وجہ ہے کہ جو پارٹی کبھی ملک میں حد درجہ مقبول تھی وہ آج اپنے سیاسی وقار کی بقا کیلئے جد و جہد کر رہی ہے۔ اس سوال پر غور کرتے وقت جو بات سب سے پہلے سامنے آتی ہے، وہ یہ کہ بی جے پی کے ذریعہ فرقہ واریت کی سیاست کو ایک منظم حکمت عملی کے ساتھ جس وسیع پیمانے پر مقبول بنانے کی مسلسل کوشش کی گئی، اس کو روکنے میں کانگریس ناکام رہی۔ اس ناکامی کا سب سے بڑا ثبوت یہ ہے کہ جن ریاستوں میں اس کا طوطی بولتا تھا، وہاں بھی اب اسے اپنے پیر جمانے میں دشواریوں کا سامنا کر نا پڑ رہا ہے۔ کانگریس نے بھگوا پارٹی کی اس سیاسی حکمت عملی کا ترکی بہ ترکی جواب دینے  کے بجائے بڑی حدتک دفاعی انداز اختیار کیا۔ اس کے اس سیاسی رویے کا نتیجہ یہ نکلا کہ دھیرے دھیرے یہ تصور عام ہوتا گیا کہ کانگریس کے پاس عوام کے بنیادی مسائل کا حل فراہم کرنے والی کوئی ایسی کارگر اور موثر حکمت عملی نہیں ہے جو عوام سے اس کے رابطے کو مستحکم بنا سکے۔ دوسرے یہ کہ بی جے پی نے کانگریس کے دور حکومت کے ان فیصلوں اور منصوبوں کی پرزور تشہیر کی جن کے سبب عوام کو سماجی اور معاشی سطح پر دشوار کن حالات سے روبرو ہونا پڑا تھا۔اگر چہ بی جے پی نے بھی ۲۰۱۴ء میں مرکزی اقتدار کے حصول کے بعد سے اب تک کئی ایسے فیصلے کئے ہیں جو سماجی اور معاشی اعتبار سے انتہائی ناقص ثابت ہوئے ہیں لیکن اپنے ان فیصلوں کو اس نے فرقہ واریت اور نام نہاد قسم کی وطن پرستی کے لیبل کے ساتھ عوام میں مشتہر کرنے کی جو حکمت عملی اختیار کی، اس میں وہ بہت حد تک کامیاب رہی ۔ اس کی اسی حکمت عملی کے نتیجے میں اسے دوبارہ مرکز میں حکومت بنانے کا موقع ملا۔ دہلی کے اسمبلی الیکشن میں بھی اس پارٹی کے قد آور لیڈروں نے یہی آزمودہ نسخہ آزمایا تھا لیکن اس بار انھیں منہ کی کھانی پڑی۔
  دہلی کے اسمبلی الیکشن کے تناظر میں اگر خصوصی طور سے کانگریس کی بات کی جائے تو یہ حقیقت بہت نمایاں طو رپر سامنے آتی ہے کہ اس پارٹی کی توانائی بیشتر اسی میں صرف ہوئی کہ وہ بی جے پی کے مقابلے خود کو کس طرح سیکولر ثابت کر سکتی ہے۔اس الیکشن میں اگرچہ پرینکا گاندھی نے بھی انتخابی مہم کے دوران بہت فعال کردار ادا کیا لیکن ان کی اس فعالیت کا نتیجہ بھی لاحاصل رہا۔اس سے یہ بھی ثابت ہوتا ہے کہ اگر عوام انھیں ایک لیڈر کے طور پر پسندیدہ نظروں سے دیکھتے  ہیں تو اس کا یہ مطلب قطعی نہیں کہ وہ اپنی اس پسندیدگی کی بنیاد پر اپنے مسائل سے چشم پوشی کرلیں۔ دوسرے یہ کہ پرینکا یا راہل نے دہلی میں جن انتخابی ریلیوں میں خطاب کیا اس میں عوام کے بنیادی مسائل کو حل کرنے کیلئے کوئی ٹھوس اور نتیجہ خیز منصوبہ نہ پیش کر سکے۔اس پارٹی نے اپنے انتخابی منشور میں مفاد عامہ کے لحاظ سے بعض اچھے اور مفید منصوبوں کو شامل ضرور کیا تھا لیکن اس کا کوئی خاطر خواہ فائدہ اس کے امیدواروں کو حاصل نہ ہو سکا۔ دہلی کے عوام کو درپیش مسائل کو حل کرنے میں اروند کیجر یوال نے گزشتہ معیاد حکومت میں جو کا م کئے تھے، ان کی بنا پر رائے دہندگان نے انھیں دوبارہ موقع دینے کا فیصلہ کیا ۔ عام آدمی پارٹی کی گزشتہ حکومت کے دوران بارہا یہ بھی دیکھنے میں آیا تھا کہ اروند کیجریوال کے بعض فیصلوں کی مخالفت میں کانگریس اور بی جے پی ایک ہی صف میں آگئے تھے۔ کانگریس کا یہ رویہ بھی اسمبلی الیکشن میں اس کی ناکامی کی ایک وجہ بنا۔
 دہلی میں اس شرمناک شکست کے بعد اب پارٹی ان نکات پر غور کررہی ہے جن کے سبب اس کا سیاسی قد بی جے پی سے بھی کم تر ہو گیا ہے ۔ اس غور و فکر کے عمل میں بعض کانگریسی لیڈروں نے اس تلخ حقیقت کا اعتراف کیا ہے کہ اقتدار سے دور رہنے کے باوجود ان کی پارٹی کے بعض لیڈروں کا رویہ ایسا تحکمانہ رہا جو عوام سے ان کی قربت میں مانع ثابت ہوا۔ کانگریس کے بعض قد آور لیڈر اب بھی اس نفسیات سے باہر نہیں آسکے کہ ان کی پارٹی اس ملک کی سیاسی سمت و رفتار طے کرنے میں فیصلہ کن کردار ادا کرتی ہے حالانکہ موجودہ حقیقت اس کے برعکس ہے۔کانگریس کے قد آور لیڈروں نے مقامی سطح پر پارٹی کی عوامی مقبولیت کو برقرار رکھنے میں کوئی ایسا سنجیدہ اقدام نہیں کیا جو ا نھیں الیکشن میں کامیابی حاصل کرنے کا موقع عطا کرسکے۔ یہ صورتحال صرف دہلی کی سطح تک نہیں ہے بلکہ اگر ملک گیر سطح پر کانگریس کے بڑے لیڈروں کے رویے پر نظر ڈالی جائے تو اسے ایک حقیقت کے طور پر قبول کرنا ہوگا۔جو پارٹی کبھی مرکز اور ملک کی بیشتر ریاستوں میں حکمرانی کر رہی تھی وہ آج دہلی جیسی چھوٹی ریاست میں بھی ایک سیٹ جیتنے کی اہل نہیں رہ گئی ہے ۔
 کانگریس میں تنظیمی سطح پر موثر قیادت کا فقدان بھی اس کی شکست کی ایک بڑی وجہ ہے۔ راہل گاندھی کی سیاسی بلوغت میں بتدریج اضافے کے باوجود اب بھی ان کی شخصیت میں وہ کشش اور اثر نہیں پیدا ہو سکا ہے جو عوام کی تالیوں کو ووٹ میں تبدیل کر سکے۔ اس کے برعکس اکثر یہ ہوا کہ انھوں نے وزیر اعظم سمیت مرکزی کابینہ اور بی جے پی پر تنقید کرتے وقت بعض ایسے بیانات جاری کئے جن سے ان کی سیاسی غیر سنجیدگی کا اظہار ہوتاہے ۔ دہلی کے اسمبلی الیکشن میں بھی ان کا یہ رویہ پارٹی کے نقصان دہ ثابت ہوا۔اس کے علاوہ انھوں نے اور ان کی پارٹی کے دوسرے کئی لیڈروں نے جس طرح عام آدمی پارٹی اور کیجریوال حکومت کو نشانہ بنایا اس میں بھی حقائق پر مبنی باتوں سے زیادہ عوام کے جذباتی استحصال کا پہلو نمایاں تھا۔ اس معاملے میں بعض اوقات ان کے اور بھگوا لیڈروں کے طرز تشہیر میں یہ یکسانیت بھی نظر آئی جو دہلی حکومت کے ذریعہ عوامی فلاح اور ترقی کے کاموں کی یکسر تردید پر مبنی تھی۔اگر وہ اس مرحلے پر کوئی منفرد حکمت عملی اختیار کرتے تو شاید دہلی کے رائے دہندگان چند ایک سیٹوں پر ان کی پارٹی کیلئے اطمینان بخش ووٹ پر آمادہ ہو جاتے۔
 دہلی اسمبلی الیکشن کا نتیجہ کانگریس کیلئے ایک سبق ہے کہ اگر اسے اپنے سابقہ سیاسی وقار کو دوبارہ حاصل کرنا ہے تو نفرت اور فرقہ واریت والی سیاست کے آگے دفاعی انداز اختیار کرنے کی بجائے عوام کے مسائل پر مخلصانہ اور سنجیدہ توجہ دینے کی ضرورت ہے ۔دوسرے یہ کہ پارٹی کو تنظیمی سطح پر اس قدر متحرک اور توانا بنانے کی ضرورت ہے کہ جس کے اس کا عوامی رابطہ وسیع اور مستحکم ہو سکے۔ کیوں کہ یہ ایک ناقابل تردید حقیقت ہے کہ انتخابی سیاست میں کسی پارٹی کے مستقبل کا انحصار اس کی عوامی مقبولیت پر ہوتا ہے ۔اس مقبولیت کو حاصل کرنے میں فرقہ واریت پر مبنی سیاست بس ایک حد تک ہی کامیاب ہو سکتی ہے جسے دہلی کے رائے دہندگان نے پورے وثوق کے ساتھ ثابت کردیا ہے اور اس کے لیے وہ بہرحال مبارک باد کے مستحق ہیں۔

متعلقہ خبریں

This website uses cookie or similar technologies, to enhance your browsing experience and provide personalised recommendations. By continuing to use our website, you agree to our Privacy Policy and Cookie Policy. OK