Inquilab Logo

بی جے پی کی اسمبلی الیکشن میں لگاتارچھٹی ہاربہت کچھ کہتی ہے

Updated: February 16, 2020, 3:47 PM IST | Aasim Jalal

شہریت ترمیمی ایکٹ کی منظوری کے بعد اور ملک بھرمیں جاری مظاہروں کے بیچ ہونے والے دہلی اسمبلی الیکشن میں بی جے پی کی شرمناک شکست قومی اہمیت کی حامل  اور کئی معنوں میں انتہائی  اہم ہے۔ بھلے ہی اسے شہریت ترمیمی ایکٹ، این پی آر اور این آرسی کے خلاف ریفرینڈم کے طور پر نہ دیکھا جائے مگر اس حقیقت سے بھی انکار نہیں کیا جاسکتا کہ بی جےپی کی اس کراری ہار کی مختلف وجوہات میں سے ایک اہم اور کلیدی وجہ شہریت ترمیمی ایکٹ کی منظوری اور اس کے بعد ملک بھر میں پیدا ہونے والے حالات بھی ہیں

امیت شاہ ۔ تصویر : پی ٹی آئی
امیت شاہ ۔ تصویر : پی ٹی آئی

شہریت ترمیمی ایکٹ کی منظوری کے بعد اور ملک بھرمیں جاری مظاہروں   کے بیچ ہونے والے دہلی اسمبلی الیکشن میں بی جے پی کی شرمناک شکست قومی اہمیت کی حامل  اور کئی معنوں میں انتہائی  اہم ہے۔ بھلے ہی اسے شہریت ترمیمی ایکٹ، این پی آر اور این آرسی کے خلاف ریفرینڈم کے طور پر نہ دیکھا جائے مگر اس حقیقت سے بھی انکار نہیں کیا جاسکتا کہ بی جےپی کی اس کراری ہار کی مختلف وجوہات میں سے ایک اہم اور کلیدی وجہ شہریت ترمیمی ایکٹ کی منظوری اور اس کے بعد ملک بھر میں پیدا ہونے والے حالات بھی ہیں۔ 
 یہی وجہ ہے کہ بی جے پی نے اس الیکشن کو جیتنے کیلئے ایڑی چوٹی کا زور لگادیا اور وہ، وہ حربے اپنائے جو اس سے پہلے کبھی نہیں اپنائے گئے تھے۔ بی جےپی کی اس تگ ودو کا مقصد جہاں کم وبیش ۲۱؍ سال بعد  دہلی میں اقتدار میں  واپسی تھا تو دوسرا اور اس سے بھی زیادہ  اہم مقصد یہ تھا کہ وہ  شہریت ترمیمی ایکٹ کی منظوری کے بعد ہونے والا پہلا ہی اسمبلی الیکشن قطعی نہیں ہارنا چاہتی تھی۔  اس کیلئے  جہاں الیکشن کو ہندوستان پاکستان  کے درمیان میچ سے تعبیر کیاگیا وہیں   انتخابی مہم کو’ دیش کے غداروں کو گولی مارو.... کو‘ جیسے نعروں سے مزید زہر آلود کیاگیا۔ اس ماحول کی تیاری کا اشارہ  جھارکھنڈ  میں  وزیراعظم نے اپنی ریلی میں یہ کہہ کر دے دیاتھا کہ احتجاج کرنے والوں کو ان کے کپڑوں سے پہچانا جا سکتا ہے۔ اس کو تقویت ملک کے وزیر داخلہ نے دہلی کی ہی انتخابی ریلی میں  یہ کہہ کر دیا کہ’’ بٹن اتنی زور سے دبانا کہ کرنٹ شاہین باغ میں لگے۔‘‘اسی محنت کا  نتیجہ تھا کہ کبھی کسی جنونی نے جامعہ ملیہ میں پہنچ کر فائرنگ کی تو کبھی شاہین باغ کے قریب کوئی سرپھرا  ہوائی فائرنگ کرنے پہنچ گیا۔     اس کے باوجود ۱۱؍ فروری کو جب بی جےپی  ۸؍ سیٹوں سے آگے نہ بڑھ سکی تو  اس نے ملک میں   جمہوریت اور جمہوری قدروں کے تحفظ  نیزآئین کی بالادستی کیلئے برسر پیکار   طبقے میں ایک نیا جوش بھر دیا ۔  
 دہلی الیکشن میں فرقہ پرستی کی شکست کے بعد بہار اور مغربی بنگال کیلئے بھی نئی امید جاگی ہے جہاں  رواں اور آئندہ سال الیکشن ہونے ہیں۔ ویسے اسمبلی الیکشن کے جو رجحانات ادھر کچھ عرصے سے دیکھنے کو مل رہے ہیں، ان سے یہ اندازہ لگایا جاسکتاہے پورے ملک کو زعفرانی رنگ میں  رنگ  دینے کا خواب دیکھنے والی بی جےپی کا اثر ورسوخ  ریاستی  سطح پر دھیرے دھیرے کم ہوتا جارہا ہے۔  پلوامہ حملے کے بعد  ملک کے بدلے ہوئے اور جذباتی ماحول میں منعقد ہونے والےپارلیمانی الیکشن میں اس نے بھلے ہی  غیر معمولی فتح حاصل کرلی ہو مگر اس کے بعد سے اب تک ہونے و الے ۴؍ ریاستوں کے اسمبلی انتخابات میں  وہ  فتح حاصل کرنے میں کامیاب نہیں ہوسکی۔ مہاراشٹر اور جھارکھنڈ میں اسے   اقتدار سے ہاتھ دھونا پڑا جبکہ ہریانہ میں دشینت سنگھ چوٹالہ کی پارٹی سے ہاتھ ملا کر وہ اقتدار پر قبضہ برقرار رکھنے میں کامیاب تو ہوئی مگر ۵؍ سال کی حکمرانی کے بعد یہاں وہ  اپنے بل بوتے پر حکومت سازی میں ناکام رہی۔   ۹۰؍رکنی اسمبلی میں  بی جےپی   ۴۰؍ سیٹوں پر سمٹ گئی جبکہ کانگریس نے سخت مقابلہ کرتے ہوئے ۳۱؍ سیٹیں  حاصل کیں۔  پارلیمانی الیکشن سے قبل بھی ریاستی سطح پر اسے  ناکامیوں کا ہی سامنا رہا۔  مدھیہ پردیش میں اسے ۱۵؍ سال کا اقتدار کھونا پڑا جبکہ راجستھان میں  ۵؍ سال میں ہی عوام نے اسے مسترد کردیا۔سب سے شرمناک شکست کا سامنا چھتیس گڑھ  میں کرنا پڑا جہاںامید کے برخلاف کانگریس نے واضح  اکثریت حاصل کی اور بی جے پی کو چاروں شانے چت ہونا پڑا۔  اس لئے اگر ہریانہ کے نتائج کو بی جے پی کی فتح مان لیں تب بھی  دہلی میں  ہونے والی اُس کی ہار اسمبلی انتخابات میں لگاتار چھٹی ہار ہے۔ 
سال ۲۰۱۲ میں انّا آندولن کے بعد پیدا ہونے والے حالات کا فائدہ اٹھاتے ہوئے اور ترقی کے نعرے کے ساتھ  جب بی جےپی مرکز پر برسراقتدار آئی اوراس کےبعد اسمبلی انتخابات میں بھی لگاتار فتوحات کا سلسلہ شروع ہواتو ایسا لگا کہ وزیراعظم مودی کا ’کانگریس مکت بھارت‘ کا نعرہ ہی صحیح نہیں ہونے جارہا بلکہ ہندوستان اب بہت جلد اپوزیشن مکت بھی ہوجائے گا۔  پارلیمانی الیکشن میں  جب مودی کی قیادت میں بی جےپی کی فتح   ہوئی تھی اس وقت پارٹی ملک کی تقریباً ۷؍ ریاستوں میں ہی برسراقتدار تھی مگر یہ تعداد تیزی سے بڑھی اور زعفرانی پارٹی ۲۱؍ ریاستوں میں اقتدار کا حصہ بن گئی۔ یہ الگ بات ہے کہ زیادہ تر ریاستوں  میں  یہ اقتدار واضح اکثریت کے بجائے جوڑ توڑ کی  سیاست اور ہر حال میں اقتدار پر قابض ہونے کے جنون کا نتیجہ تھا مگر ۲۰۲۰ء آتے آتے  بی جےپی کے اقتدار والی ریاستوں کی تعداد تیزی سے کم ہونے لگی ہے۔  رقبے کے حساب سے دیکھیں تو بی جےپی  ۲۰۱۷ء تک  ریاستی حکومتوں کے ذریعہ ملک کے ۷۱؍ فیصد رقبے پر حکمرانی کررہی تھی مگر جس تیزی سے اس نے  ریاستوں پر قبضہ کیا،اسی تیزی سے اس کی واپسی کا سفربھی شروع ہوا اور مہاراشٹر میں اقتدار کھونے کے ساتھ  ہی نومبر ۲۰۱۹ء تک وہ ۴۰؍فیصد پر سمٹ گئی۔ 
 ہر اسمبلی الیکشن میں  واضح اکثریت سے بھی زیادہ کا ٹارگیٹ طے کرکے  اور میڈیا کے ذریعہ یہ باور کراکر کہ بی جےپی اتنی سیٹیں جیتنے ہی والی ہے، مخالف پارٹیوں پر نفسیاتی دباؤ کا حربہ اپنانے والے امیت شاہ کی یہ حکمت عملی اب  مدھیہ پردیش، راجستھان اور چھتیس گڑھ سے لے کر جھارکھنڈ ، مہاراشٹر  اوردہلی تک    ناکام ہوتی نظر آرہی ہے۔ جسے ناقابل تسخیر قرار دے دیاگیاتھا ، اسے اب  پے درپے شکستوں کا سامنا ہے۔  زمینی حقیقت یہ ہے کہ اتر پردیش، کرناٹک  اور گجرات  کے علاوہ ملک کی کسی بھی  بڑی ریاست پر بی جےپی کی حکومت نہیں ہے۔ اتر  پردیش میں یوگی کی حکمرانی سے شہری جس قدر پریشان ہیں، اس کی وجہ سے اب اس کا امکان کم ہی ہے کہ ۲۰۲۲ء میں ملک کی اس سب سے بڑی ریاست کی کمان عوام ایک بار پھر زعفرانی پارٹی کو سونپیں گے۔   ہندو مسلم کی جو سیاست اب تک ووٹ دلانے میں کامیاب ہورہی تھی، وہ اب سیٹوں  میں  اضافے  کاذریعہ نہیں بن رہی ہے۔نتیجہ یہ ہے کہ دہلی  الیکشن کے تعلق سے  امیت شاہ خود اعتراف کرنے پر مجبور ہیں کہ گولی مارو کے  نعرے   اور الیکشن کیلئے  ہندوستان بمقابلہ  پاکستان  میچ  کے استعارہ نے پارٹی کو دہلی انتخابی مہم میں نقصان  پہنچایا ہے۔   بی جے پی کے سابق صدر کے اس اعتراف کے باوجود ہم نہیں سمجھتے کہ بہار، مغربی بنگال اوراس کے بعد تمل ناڈو جیسی اہم ریاستوں کے اسمبلی انتخابات میں جو آئندہ سال بھر میں ہونے ہیں ، زعفرانی پارٹی ہوش کے ناخن لے گی اور نفرت کی سیاست سے باز آئے گی۔  بہار میں ۲۰۱۰ء سے  پہلے  بی جےپی  پھر آر جے ڈی اور اب پھر بی جےپی کے سہارے اقتدار پر قابض نتیش کمار کیلئے بدلے ہوئے حالات میں  اپنی کرسی بچانا مشکل ہوسکتاہے۔  دوسری جانب مغربی بنگال میں  اگر سیکولر جماعتوں  نے حکمت عملی سے کام لیاتو شہری ترمیمی ایکٹ بی جےپی کیلئے سیلف گول ثابت ہوسکتاہے۔ تمل ناڈو  کے الیکشن میں حالانکہ بی جےپی کا بہت زیادہ رول نہیں ہوگا مگر اس کی اتحادی آل انڈیا انّا ڈی ایم کے کیلئے  دوبارہ اقتدار میں آنا یوں بھی مشکل ہے کیوں کہ یہاں ہر پانچ سال میں اقتدار کی تبدیلی ایک روایت مانی جاتی ہے۔

متعلقہ خبریں

This website uses cookie or similar technologies, to enhance your browsing experience and provide personalised recommendations. By continuing to use our website, you agree to our Privacy Policy and Cookie Policy. OK