Inquilab Logo

اسوۂ نبویؐ کو نئی نسل تک پہنچائیے اور برادرانِ وطن تک اس کا پیغام عام کیجئے

Updated: October 15, 2021, 2:43 PM IST | Maulana Khalid Saifulah Rahmani

ربیع الاول کا مہینہ شروع ہوچکا ہے، اسی مہینے میں آقا ومولانا جناب محمد رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی ولادت باسعادت ہوئی، اسی ماہ میں آپ ؐنے ہجرت فرمائی اور اسی ماہ میں آپ ؐ نے عالم آخرت کی طرف کوچ فرمایا۔ اس طرح اس ماہ کو رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی حیات طیبہ سے ایک خاص مناسبت ہے۔

In expressing love, your literature should be kept in mind in all circumstancesPicture:INN
رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم سے محبت کے اظہار میں آپؐ کا ادب ہر حال میں ملحوظ رہنا چاہئے۔ تصویر: آئی این این

ربیع الاول کا مہینہ شروع ہوچکا ہے، اسی مہینے میں آقا ومولانا جناب محمد رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی ولادت باسعادت ہوئی، اسی ماہ میں آپ ؐنے ہجرت فرمائی اور اسی ماہ میں آپ ؐ نے عالم آخرت کی طرف کوچ فرمایا۔ اس طرح اس ماہ کو رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی حیات طیبہ سے ایک خاص مناسبت ہے۔ یوں تو آپ ؐ سے محبت اور آپؐ کی عظمت کا تقاضہ ہے کہ مسلمانوں کا کوئی دن اور کوئی لمحہ ایسا نہ ہو، جب ان کے دل کی دنیا رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی یاد سے آباد نہ ہو؛ لیکن حیات محمدی صلی اللہ علیہ وسلم سے اس ماہ کی خصوصی نسبت کی وجہ سے عام طور پر اس موقع پر زیادہ جلسے کئے جاتے ہیں، اخبارات ورسائل کے نمبرات نکلتے ہیں اور مختلف طریقوں پر سیرت طیبہ کے تذکرہ کو تازہ کیا جاتا ہے۔ اس میں کوئی شبہ نہیں کہ آپ ﷺپر نہ صرف ایمان لانا ضروری ہے؛ بلکہ یہ بھی ضروری ہے کہ آپ ﷺکی بے انتہا عظمت اور تمام چیزوں سے بڑھ کر محبت ہمارے دلوں میں ہو، یہ محبت ہمارے ایمان کا جز واور ہمارے دین کی اساس ہے اور یہ حضورؐ  کا معجزہ ہے کہ اس امت کے دل میں آپؐ کی محبت کا جو غیر معمولی جذبہ کارفرما ہے، دوسرے مذاہب کے متبعین میں اپنے پیشواؤں سے متعلق اس کا سوواں حصہ بھی نہیں ملتا، اور کیوںنہ ہو کہ اللہ تعالیٰ کے بعد ہر مسلمان کے لئے آپؐ  ہی کی ذات ِ مبارکہ سب سے محبوب ترین ہستی ہے، ا س کو اپنے وجود سے بھی بڑھ کر آپؐ  سے محبت ہے اور اگر اس کا سینہ اس جذبہ سے خالی ہو تو وہ مسلمان ہی باقی نہیں رہے گا۔
محبت کے تقاضوں میں یہ بات شامل ہوتی ہے کہ انسان محبت کا اظہار کرے، اللہ اور رسول کی محبت تو مؤمن کے لئے معراج ہے؛ لیکن انسان تو دنیا میں بھی جب کسی سے محبت کرتا ہے تو اسے اظہار محبت کے بغیر چین نہیں ملتا؛ اس لئے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم سے محبت کا فطری تقاضا آپ سے محبت کا اظہار بھی ہے؛ لیکن سوال یہ ہے کہ اظہار محبت کا طریقہ کیا ہو؟ ----تو محبوب کے لحاظ سے محبت کا اظہار کیا جاتا ہے، انسان کو اپنے والدین سے بھی محبت ہوتی ہے اور اولاد سے بھی، استاذ اور شیخ سے بھی محبت ہوتی ہے اورشاگرد و مرید سے بھی، شوہر و بیوی بھی ایک دوسرے سے محبت کرتے ہیں، اور دوستوں میں بھی باہم محبت کا تعلق ہوتا ہے؛ لیکن ہرجگہ اظہار محبت کا ایک ہی انداز نہیں ہوتا،اظہارِ محبت میں دو باتوں کو خاص طور پر ملحوظ رکھا جاتا ہے، محبوب کا مقام ومرتبہ اور محبوب کی پسند۔ مقام ومرتبہ کا لحاظ بے حد ضروری ہے، ایک شخص اپنے بچوں سے پیار کرتے ہوئے محبت کے جو بول بولتا ہے اور جو طریقہ کار اختیار کرتا ہے، اگر وہی الفاظ اپنے ماں باپ سے کہے اور وہی طریقہ ان کے ساتھ اختیار کرے تو یہ محبت کی بجائے بے ادبی اور گستاخی ہوجائے گی، اسی طرح کسی شخص کو جو شےپسند نہ ہو، آپ اس کی پسند و ناپسند کی پروا کئے بغیر اس کی ناپسندیدہ شےبطور اظہار محبت کے اس کے سامنے پیش کردیں تو یا تو اسے بے وقوفی سمجھا جائے گا یا تمسخر۔
رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم سے محبت کے اظہار میں بھی ان دونوں پہلوؤں کو سامنے رکھنا ضروری ہے۔
بہت سی باتیں جو اختیار کی جاتیں ہیں، وہ ایسی ہیں، جن کو رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے ناپسند فرمایا ہے، آپؐ  نے کسی بھی انسان کو تکلیف پہنچانے کے عمل سے منع فرمایا، آپؐ  نے درخت کو کاٹنے سے منع فرمایا؛ کیوںکہ اس کی وجہ سے انسان سایہ سے محروم ہوتا ہے اور ماحولیاتی توازن متأثر ہوتا ہے، آپؐ نے گھر کی نالی راستے پر نکالنے سے روکا؛ تاکہ تعفن پیدا نہ ہو، آپؐ نے راستہ میں کچرا اور تکلیف دہ چیزیں ڈالنے سے منع فرمایا، یہاں تک کہ ارشاد ہوا کہ راستہ سے تکلیف دہ چیز کا ہٹانا بھی ایمان میں داخل ہے۔(صحیح مسلم، باب شعب الایمان، حدیث نمبر: ۱۶۲) تکلیف دہ چیزوں میں راستہ کی رکاوٹ بھی ہے، راستہ میں ایسی چیزیں رکھ دینا کہ ٹریفک کا بہاؤ متأثر ہوجائے، اس طرح کھڑا ہوجانا کہ چلنے والوں کے لئے رکاوٹ پیدا ہوجائے اُس اذی، (تکلیف دہ چیز)میں داخل ہے، جس کے ہٹانے کا آپؐ  نے حکم فرمایا ہے۔
 ایسی ریکارڈ نگ لگانا کہ محلہ کے لوگوں کے لئے سونا دشوار ہوجائے یا بیماروں کو تکلیف ہونے لگے، ایذا ہی کی ایک شکل ہے، حضرت مقداد رضی اللہ تعالیٰ عنہ سے روایت ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم رات کے وقت کسی جگہ جاتے تو ایسی آواز میں سلام فرماتے کہ جو لوگ بیدار ہو ں وہ سن لیں اور جو لوگ سوئے ہوئے ہوں، ان کی نیند میں خلل واقع نہ ہو۔(مسلم، حدیث نمبر: ۲۰۵۵)یہاں تک کہ آپ انے قرآن مجید بھی بہت اونچی آواز میں پڑھنے کو پسند نہیں فرمایا، حضرت ابو سعید خدری رضی اللہ تعالیٰ عنہ راوی ہیں کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم مسجد میں معتکف تھے، آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے صحابہ کو زور زور سے قرآن مجید پڑھتے ہوئے سنا تو پردہ ہٹایا اور فرمایا کہ تم سب اپنے پروردگار سے سرگوشی کررہے ہو؛ لہٰذا ایک دوسرے کو تکلیف نہ پہنچاؤ اورقرآن پڑھنے میں ایک دوسرے سے آواز بلند نہ کرو۔ (ابو داؤد، حدیث نمبر: ۱۳۳۲) آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے تکبیر کہنے میں بھی بہت بلند آواز کو پسند نہیں فرمایا، حضرت ابو موسیٰ اشعری ؓ سے روایت ہے کہ ہم لوگ ایک سفر میں رسولؐ اللہ کے ساتھ تھے، جب ہم بلندی پر چڑھتے تھے تو تکبیر کہتے، آپؐنے فرمایا: تم لوگ اپنے آپ پر نرمی سے کام لو، تم کسی ایسی ذات کو نہیں بلارہے ہو، جو سنتا نہ ہو یا موجود نہ ہو؛ بلکہ اس خدا کو پکار رہے ہو، جو خوب سننے والا، خوب دیکھنے والا اور تم سے قریب ہے۔(بخاری، حدیث نمبر: ۸۳۸۶، مسلم، حدیث نمبر: ۲۷۰۴) اس سے معلوم ہوا کہ ایسے ریکارڈ بجانا کہ جس کی آواز لوگوں کے لئے تکلیف دہ ہو اور جلسوں کے اسپیکر اتنی دور دور تک پھیلادینا کہ لوگوں کی نیند میں خلل ہوجائے، ایسے طریقے ہیں جو ہمارے نبی رحمت صلی اللہ علیہ وسلم کو پسند نہیں تھے۔
رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کو فضول خرچی نہایت ناپسند تھی، قرآن مجید میں تقریباً بیس آیتوں میں فضول خرچی سے منع کیا گیا ہے، یہاں تک کہ رسولؐ اللہ نے ارشاد فرمایاکہ کھانے اور کپڑے ہی میں نہیں؛ بلکہ صدقہ کرنے میں بھی اسراف نہ ہونا چاہئے۔(نسائی عن عبد اللہ بن عمرو ص، حدیث نمبر: ۲۳۹۹) ---- صدقہ میں اسراف کا مطلب یہ ہے کہ کسی خیر کے کام میں ضرورت سے زیادہ خرچ کردیا جائے، یا اتنا خرچ کردیا جائے کہ خود دوسروں کے سامنے ہاتھ پھیلانے کے حالات پیدا ہوجائیں، فضول خرچی کی دو صورتیں ہیں: کسی جائز کام میں ضرورت سے زیادہ خرچ کیا جائے یا کسی بے جا کام میں خرچ کیا جائے ----- اب غور کریں تو ربیع الاول میں اظہار مسرت کے لئے جو طریقے اختیار کئے جاتے ہیں، ان میں بعض صورتیں یقیناً فضول خرچی کے دائرے میں آجاتی ہیں، یہ اللہ اور اس کے رسولؐ کو ناراض کرنے والی بات ہے نہ کہ ان کو خوش کرنے والی۔
ایک بات جو آپ ﷺ کو بہت ہی ناپسند تھی، وہ ہے غیر مسلموں کی مشابہت اختیار کرنا، یوں تو آپؐ  لباس و پوشاک اور تہذیب و تمدن میں بھی غیرمسلموں کی مماثلت کو ناپسند فرماتے تھے؛ لیکن خاص کر دینی امور میں تو آپ صلی اللہ علیہ وسلم کو یہ بات حد درجہ ناپسند تھی؛ چنانچہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے ارشاد فرمایا: جو شخص کسی اور قوم کی مشابہت اختیار کرے، وہ ان ہی میں شامل ہے۔ (ابوداؤد، حدیث نمبر: ۴۰۳۱) آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے سورج کے نکلنے، سورج کے نصف آسمان پر رہنے اور سورج کے ڈوبنے کے وقت نماز پڑھنے سے منع فرمایا؛ اس لئے کہ جو قومیں آفتاب کی پرستار تھیں، وہ ان ہی اوقات میں آفتاب کی پوجا کیا کرتی تھیں، یہودی دیر سے روزہ افطار کرتے تھے تو آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے اپنی امت کو افطار میں عجلت کا حکم دیا، یہودی دس محرم کو روزہ رکھتے تھے، تو آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے اس کے ساتھ مزید ایک روزہ ملاکر روزہ رکھنے کا حکم فرمایا۔ (سنن الترمذی، حدیث نمبر: ۷۶۰) 
غرض کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی تعلیمات  روشن آفتاب کی طرح ہم سب کے سامنے ہیں، ہم ان کو پڑھ کر آپ صلی اللہ علیہ وسلم کی پسند وناپسند کو جان سکتے ہیں، اور اس کی ترازو میں اظہار محبت کے ان طریقوں کا تجزیہ کرسکتے ہیں، جن کو آج ہم نے اختیار کررکھا ہے۔
ہم اس ماہ میں ضرور اپنی خوشی کا اظہار کریں؛ لیکن طریقہ ایسا ہو کہ وہ شریعت کی میزان میں بھی درست ہو اور اس سے دینی نفع بھی ہو۔اظہار مسرت کا ایک بہتر طریقہ یہ ہوسکتا ہے کہ ہم لوگ اس یادگار مہینے میں رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی سیرت مبارکہ کے پڑھنے اور اپنی نئی نسل تک اس کو پہنچانے کا اہتمام کریں، اللہ کا شکر ہے کہ ہر زبان میں سیرت کا لٹریچر موجود ہے، یہ کتابیں مختصر بھی ہیں، متوسط ضخامت کی بھی ہیں اور ضخیم بھی، ہم خود ان کا مطالعہ کریں اور اپنے مطالعہ کونئی نسل تک پہنچائیں، خواتین اور بچوں کو سنائیں۔ آج صورت حال یہ ہے کہ بہت سے مسلمان نوجوانوں، اسکولوں، کالجوں اور یونیورسٹیوں کے اساتذہ اورطلبہ کو رسولؐ اللہ کی ازواجِ مطہرات اور اہل بیت کے نام تک یاد نہیں، اگر ان سے آپؐ کے صحابہ کا نام دریافت کیا جائے تو چاروں خلفاء کے بعد کم لوگ ہوںگے جو کسی پانچویں صحابی کا نام بتاسکیں، خود رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی زندگی کے دس بیس واقعات بھی ان کو معلوم نہیںہیں، کیا یہ بات محبت کے تقاضے میں داخل نہیں ہے کہ انسان اپنے محبوب کو جانے،پہچانے اور دوسروں سے اس کا تعارف کرائے؟ پس آئیے کہ اس مہینے کو ہم لوگ سیرت کے پڑھنے اور اپنی نئی نسل تک سیرت نبوی کو پہنچانے  کا مہینہ بنائیں، اس کے لئے ایک منصوبہ بنائیں، کوئز پروگرام منعقد کریں اور بچوں کو انعام دے کر انہیں سیرت نبویؐ سے واقف کرائیں۔
اظہار محبت کا دوسرا مناسب طریقہ یہ ہے کہ ہم برادران وطن تک رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے حالات اور آپؐ  کی انسانیت نواز تعلیمات کو پہنچائیں، اس وقت مغرب کی جانب سے ایک منظم کوشش کی جارہی ہے کہ اسلام اور پیغمبرؐ اسلام  کے بارے میں غلط فہمیاں پیدا کی جائیں، آپ ؐ کی توہین کے لئے مختلف حربے استعمال کئے جارہے ہیں، جب اس طرح کے واقعات پیش آتے ہیں تو ہم لوگ احتجاج کرتے ہیں اور ہم اس احتجاج میں حق بجانب بھی ہیں؛ لیکن یہ اس مسئلہ کا پائیدار اور مستقل حل نہیں ہے، اس کا اصل حل یہ ہے کہ غیر مسلم بھائیوں تک رسولؐ اللہ  کی سیرتِ طیبہ پہنچائی جائے، خاص کر آپ ؐکی بلند اخلاقی کے واقعات اور انسانیت نواز تعلیمات کو عام کیا جائے، مقامی زبانوں میں سیرت کا لٹریچر زیادہ سے زیادہ مقدار میں شائع کیا جائے اور ایک ایک غیر مسلم بھائی تک اس کو پہنچانے کی کوشش کی جائے، اگر ہر صاحب استطاعت مسلمان یہ طے کرلے کہ وہ انگریزی، ہندی یا ہندوستان کی کسی مقامی زبان میں موجود سیرت کی کتاب کے ایک سو تا ایک ہزار نسخے اپنے برادران وطن تک پہنچائے گا، ہاسپٹل جاکر مریضوں میں، ریلوے اسٹیشن اور بس اسٹینڈوں پر جاکر  مسافروں میں، اسکولوں اور کالجوں میں جاکر اساتذہ اور  طلبہ  میں تقسیم کرے گا، تو یہ رسولؐ اللہ سے محبت کا حقیقی اظہار ہوگا، اس طرح غلط فہمیوں کے بادل چھٹیںگے، لوگ آپؐ  کی ہستی کو پہچانیںگے اور آپ ؐکی محبت و عظمت لوگوں کے دلوں میں پیدا ہوگی۔اظہار محبت کا تیسرا طریقہ … جس کی خود آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے ترغیب دی ہے… درود شریف کی کثرت ہے، گھروں میں ایسا ماحول بنائیے کہ لوگ زیادہ سے زیادہ درود شریف پڑھیں، ہر مسلمان خاندان طے کرے کہ کم سے کم اس ماہ میں ہم سب مل کر ایک لاکھ دفعہ درود شریف پڑھیںگے اور آئندہ بھی سہولت کے لحاظ سے اس کا سلسلہ جاری رکھیںگے،تو آپ کی احسان شناسی کا مناسب اظہار ہوگا؛ کیوںکہ امت کا درود شریف رسولؐ اللہ کی خدمت میں پیش کیاجاتا ہے اوردرود کی یہ کثرت ان شاء اللہ آخرت میں بھی حضور ؐ کی شفاعت میں حصہ دار بنائے گی۔ اگر ہم سیرت کا پیغام مسلمانوں تک پہنچاکر، غیر مسلموں کو آپ ﷺ کی ذاتِ مبارکہ سے واقف کراکر اور درود شریف کی کثرت کے ذریعہ آپؐ سے محبت و تعلق کا اظہار کریں تو یہ اظہار محبت کی کتنی بہتر، مفید اور ثمر آور صورت ہوگی، کاش! ہم ٹھنڈے دل سے اور دینی تعلیمات کو سامنے رکھ کر اس مسئلہ پر غور کریں۔

متعلقہ خبریں

This website uses cookie or similar technologies, to enhance your browsing experience and provide personalised recommendations. By continuing to use our website, you agree to our Privacy Policy and Cookie Policy. OK