Inquilab Logo

کورونا وائرس اور عالمی معیشت

Updated: February 17, 2020, 2:57 PM IST | Bharat Jhunjhunwala

کورونا وائرس کے سبب ایپل جیسی کئی بڑی ملٹی نیشنل کمپنیوں نے چین میں موجود اپنے پروڈکشن پلانٹس بند کردیئے ہیں جس سے چین کی معیشت تنزلی کا شکار ہوگئی ہے اور اس کا اثر عالمی معیشت پر بھی پڑرہا ہے۔ دنیا بھر کے شیئر بازار متاثر ہورہے ہیں۔ اس وائرس کے سبب ہندوستان کی درآمد ۱۴؍ فیصد جبکہ برآمد ۵؍ فیصد متاثر ہوئی ہے۔

کورونا وائرس اور عالمی معیشت ۔ تصویر : آئی این این
کورونا وائرس اور عالمی معیشت ۔ تصویر : آئی این این

 کورونا وائرس نے دنیا بھر کے افراد کے دلوں میں دہشت پیدا کردی ہے۔ اس وائرس کی وجہ سے چین کی معیشت نہ صرف تنزلی کا شکار ہے بلکہ کئی اخبارات میں یہ دعویٰ بھی کیا گیا ہے کہ اگر حالات پر قابو نہیں پایا گیا تو چین کی معیشت برباد ہوجائے گی۔
 ایئر بس نے اپنے طیاروں کا اور فاکس کان، جو ایپل کیلئے موبائل فون بناتا ہے نے چین میں اپنا پرڈوکشن بند کردیا ہے۔ اسی طرح ایسی کئی موبائل فون کمپنیاں ہیں جن کا پروڈکشن چین میں ہوتا ہے، انہوں نے بھی اپنا اپنا پروڈکشن بند کردیا ہے۔اس وائرس کی وجہ سے چین کے شیئر بازار میں تیزی سے گراوٹ آرہی ہے اور یہ اپنے ساتھ عالمی بازاروں کو بھی متاثر کررہا ہے۔ چین جانے والے اور یہاں سے آنے والے سیاحوں کی تعداد اب صفر ہوگئی ہے۔ اس وائرس کے اثرات ہم پر بھی پڑے ہیں۔ چین سے ہماری درآمد کا ۱۴؍ فیصد حصہ متاثر ہوا ہے۔ یہاں سے ہماری فارماسوٹیکل صنعت کیلئے خام کیمیکلز اور آٹوموبائل صنعت کیلئے کل پرزے آتے تھے۔ اسی طرح ۵؍ فیصد تک ہماری برآمد بھی متاثر ہوئی ہے۔ ہم ہیرے، مچھلی، گرم مسالے اور ربڑ جیسی اشیاء چین کو برآمد کرنے سے قاصر ہیں۔ اگر چین سے درآمد کی جانے والی اشیاء میں کمی آئے گی تو ہمارے ملک کی فارماسوٹیکل اور آٹو موبائل صنعت کا پروڈکشن بہت کم ہوجائے گا۔ہمارے برآمد کنندگان بھی متاثر ہوں گے۔ اس کی وجہ سے ہماری ترقی کی شرح پر دباؤ پڑے گا۔
 کورونا وائرس کی وجہ سے ہماری معیشت کے وہ شعبے متاثر ہو رہے ہیں جو عالمی تجارت میں اہم کردار ادا کرتے ہیں۔ اگر ہم اپنے ہی ملک میں گاڑیوں کے کل پرزے تیار کرتے تو آج ہماری آٹو موبائل صنعت متاثر نہیں ہوتی۔ تاہم، سستے کل پرزے خریدنے کے فراق میں آج ہم اتنی بڑی مصیبت میں گرفتار ہوگئے ہیں۔ آج ہمارے پاس مقامی متبادلات موجود ہیں (جو تھوڑے مہنگے ہیں) مگر ہم بین الاقوامی بازار میں اپنی مصنوعات صحیح طریقے سے نہیں پہنچا پارہے ہیں۔ کورونا وائرس ہمیں عالمی اتفاق کی پالیسی پر دوبارہ غور کرنے پر مجبور کررہا ہے۔ 
 ایک کسان کی مثال کے ذریعے اسے سمجھا جاسکتا ہے۔ایک کسان یہ فیصلہ کرتا ہے کہ وہ کس حد تک شہر کی معیشت کو بہتر کرنے میں اپنا کردار ادا کرسکتا ہے۔وہ شہر سے کرائے پر ٹریکٹر لا سکتا ہے، ٹریکٹر چلانے والے یومیہ اجرت پر رکھ سکتا ہے، لیبر مارکیٹ سے مزدوروں کو کھیت میں کام دلوا سکتا ہے، بیج ، جراثیم کش ادویات اور کھاد وغیرہ خرید سکتا ہے اور بور ویل کی مرمت کیلئے میکینک کو بلا سکتا ہے۔ اس طرح وہ اناج کی پیداوار کم خرچ میں کرسکتا ہے کیونکہ شہر میں مذکورہ بالا تمام اشیاء سستے داموں میں میسر ہوتی ہیں۔ تاہم، اگر گاؤں سے شہر آنے کیلئے سڑک خراب ہے، شہر میں کوئی ہنگامہ برپا ہے یا کوئی بیماری پھیلی ہے تو اس کے اخراجات میں اضافہ ہوسکتا ہے۔ ان حالات میں اگر اسے فوری طور پر جراثیم کش ادویات چاہئیں تو وہ نہیں ملیں گی اور اس کی فصلیں خراب ہوجائیں گی۔ اگر وہ گھریلو جراثیم کش ادویات پر تکیہ کرتا تو اسے یہ پریشانی نہیں جھیلنی پڑتی۔ بہ الفاظ دیگر شہر کی معیشت میں اس کے کردار ادا کرنے کے ۲؍ متضاد اثرات پڑرہے ہیں۔ اول، پروڈکشن کے اخراجات کم ہو رہے ہیں مگر وہ شہر کی معیشت کو بہتر کرنے میں اہم کردار ادا کررہا ہے۔ دوم، شہر کی معیشت کو بہتر کرنے میں اس کا کردار جتنا اہم ہوتا جارہا ہے، اتنا ہی خطرات میں اضافہ ہوتا جارہا ہے۔ ان ۲؍ متضاد اثرات کے درمیان توازن قائم کیا جاسکتا ہے۔
 شہر سے ہائبرڈ بیج لانے سے زیادہ فوائد ہوسکتے ہیں کیونکہ اس گاؤں کے اندر کوئی متبادل نہیں ہے اور خطرہ بھی کم ہے۔ شہر میں دستیاب ملازمین سے گاؤں کا کسان فائدہ اٹھا سکتا ہے لیکن ان پر پوری طرح انحصار نہیں کرسکتا کیونکہ اگر تہواروں کے موسم میں یا چھٹیوں میں وہ افراد اپنے آبائی وطن چلے جائیں تو اس سے کسان کو بہت نقصان ہوگا۔لہٰذا کسان کو ہر فائدہ اور نقصان کا جائزہ لینے کے بعد ہی کوئی قدم اٹھانا چاہئے۔ اسے وہ حد پار نہیں کرنی چاہئے جہاں اسے کم فوائد ملیں اور خطرات زیادہ ہوں۔ 
 اسی طرح، معیشت کو مستحکم کرنے میں کسان مختلف سطحوں پر اپنا کردار ادا کرسکتا ہے۔مثال کے طور پر، فاسفیٹ کھاد یا کاشتکاری سے متعلق تکنالوجی کی درآمد کرکے وہ زیادہ فائدہ اٹھاسکتا ہے۔ اس میں خطرات بھی کم ہوں گے۔ تاہم، گاڑیوں کے کل پرزے کی درآمد سے ہماری معیشت خطرات سے دوچار ہوسکتی ہے، جیسا کہ اس وقت کورونا وائرس کی وجہ سے ہورہا ہے۔ مقامی سطح پر یہ کل پرزے آسانی سے تیار کئے جاسکتے ہیں لیکن ہم نے انہیں اپنے یہاں نہ بناتےہوئے ان کی درآمد صرف اس وجہ سے شروع کردی کہ یہ ہمیں کم قیمتوں میں دستیاب ہورہے تھے۔چھوٹے فائدے کے فراق میں ہماری معیشت بڑے خطرات سے دوچار ہوگئی ہے۔ خیال رہے کہ معیشت کو ایک مخصوص سطح تک ہی مستحکم رکھا جاسکتا ہے، اس کے بعد وہ کسی حد تک متاثر ہوتی ہے اور پھر استحکام کی جانب گامزن ہوجاتی ہے۔ ملٹی نیشنل کمپنیوں کی صورتحال تھوڑی مختلف ہوتی ہے۔ وہ دنیا بھر کے جتنے ممالک میں اپنی شاخیں قائم کرتی ہیں، انہیں اتنا فائدہ ہوتا ہے۔ کسی مصیبت کی صورت میں ان کے پاس متبادل موجود ہوتے ہیں۔ اگر وہ ایک ملک میں اپنا پروڈکشن بند کردیتی ہیں تو دوسرے ملک میں بڑھا دیتی ہیں۔ مثال کے طور پر،چین میں کورنا وائرس کے پھیل جانے کے سبب فاکس کان ایپل کے اسمارٹ فون کا پروڈکشن وہاں بند کرسکتا ہے لیکن ملائیشیا، چیک جمہوریہ، جنوبی کوریا، سنگاپور اور فلپائن میں موجود اپنی فیکٹریوں میں پروڈکشن بڑھا سکتا ہے۔ ایک ہندوستانی آٹو موبائل مینو فیکچرر کے پاس ہوسکتا ہے کہ اس قسم کی سہولت یا متبادل موجود نہ ہو۔ وہ ہندوستان کی معیشت میں اپنا کردار ادا کرنے کیلئے ملک کے کسی دوسرے حصے میں اپنی فیکٹری نہیں قائم کرسکتا کیو نکہ اسے گاڑیوں کے کل پرزے چین ہی سے درآمد کرنے ہوں گے۔ اس لئے حکومت کو چاہئے کہ وہ ایسی پالیسیاں بنائے یا اقدامات کرے کہ ایسی صورتحال پیش آنے پر ہندوستان کے کاروباری افراد متاثر نہ ہوں

متعلقہ خبریں

This website uses cookie or similar technologies, to enhance your browsing experience and provide personalised recommendations. By continuing to use our website, you agree to our Privacy Policy and Cookie Policy. OK