Inquilab Logo

ہمت مرداں

Updated: May 24, 2020, 10:57 AM IST | Prof Syed Iqbal

ڈاکٹر وکٹر فرینکل نے اپنی شہرہ آفاق کتاب ’مینس سرچ فار میننگ‘ میں اپنے پڑھنے والوں کوایک ہی پیغام دیا ہے کہ اگر ہم اپنی زندگی کا مقصد جان لیں تو دنیا کی کوئی طاقت ہمیں اس مقصد کے حصول سے نہیں روک سکتی۔ بلائیں ، وبائیں آتی ہیں اور آتی رہیں گی۔ جنگیں بھی ہوتی رہیں گی، مگر انسان امید کا دامن نہ چھوڑےتو کوئی اسے ہرا نہیں سکتا

Nazi Camp
یہ اسلئے قیدی ہیں کیونکہ انہوں کو خود کو قیدی تسلیم کرلیا ہے، جس دن یہ آزاد ہونا چاہیںگے، اس دن انقلاب برپا کردیںگے

شکرہے، ہم لوگ امن کی حالت میں جی رہے ہیں۔ اس لئے ہمیں اندازہ نہیں کہ جنگ کی حالت کیا ہوتی ہے؟ شاید فلموں میں دکھائے گئے کچھ مناظر ہمیں یاد ہوں کہ کس طرح  جنگ کے دوران شہروں پر بم برسائے جاتے ہیں ، لاشیں سڑکوں پر بے گوروکفن پڑی رہتی ہیں اور بے سہارا لوگ اپنے اپنے گھروں میں چھپے رہتے ہیں۔ انہیں نہ دوگھونٹ پانی نصیب ہوتا ہے، نہ کھانے کو دولقمے ۔ بلکہ اکثر وہ اپنی پناہ گاہوں ہی میں جان دے دیتے ہیں۔اس پر فوجیوں کا انہیں ڈھونڈھنا اور ہاتھ آ جائیں تو جیلوں میں ٹھونس دینے کا اپنا الگ خوف ہوتا ہے۔ غرض دوسری جنگ عظیم کی داستانیں پڑھ کر رونگٹے کھڑے  ہوجاتے ہیں۔ ان میں اذیت ناک واقعات ان یہودیوں کے ہیںجنہیں نازی فوجوں نے ٹارچر کیمپوں میں قید کر دیا تھا  اوران پر اس قدر تشدد کیا تھا کہ قیدیوں کی اکثریت نے ان کیمپوں میں دم توڑدیاتھا۔ اس دور کی تصاویر دیکھ کر حیرت ہوتی ہے کہ اس مہذب دنیا میں اتنے شقی القلب لوگ بھی موجود تھے جو اپنے ہی جیسے انسانوں کو بھیڑ بکریوں کی طرح ٹرک میں بھر کر گیس چمبر بھیج دیتے تھے۔ حد تویہ ہے کہ انہی قیدیوں سے قبریں کھدواتےاورانہیں کے سامنے ان کے عزیزوں کو قبروں میں پھینک بھی دیتے۔
  ایسے ہی ایک کیمپ میں وکٹرفرینکل نامی ایک آسٹرین نیورولوجسٹ اور سائیکاٹرسٹ بھی اپنے اہل خانہ کے ساتھ قید تھے۔ وکٹرفرینکل اپنی شہرۂ آفاق کتاب  Man`s search for meaningکیلئے جانے جاتے ہیں جو لاکھوں کی تعداد میں بک چکی ہے اور جس کا ترجمہ کئی زبانوں میں ہوچکا ہے۔  ڈیڑھ سو صفحات کی یہ چھوٹی سی کتاب ان تین برسوں کی کہانی ہے جب ڈاکٹر فرینکل نیم برہنہ اور ہڈیوں کے ڈھانچے والے قیدیوں کے درمیان قید تھے اور روزانہ بھوک پیاس سے جنگ کر رہے تھے۔ انہوںنے اسی کیمپ میں ہزارہا قیدیوں کو ’غیرانسانی ‘زندگی گزارتے دیکھا تھا کہ کس طرح یہ گوشت پوست کے انسان ہر لمحہ موت کے قریب ہوتے جارہے ہیں۔ انہوںنے  فوجیوں کی بےرحمی دیکھی، ان کے اندر کے جانور کو حیوانیت کا ناچ کرتے دیکھا اورنازی فوجیوں کی ذہن سازی کی عملی شکل بھی دیکھی۔ ہٹلر نے یہ عقوبت خانے صرف اس لئے بنائے تھے کہ اسے اپنے آریائی ہونے پر فخر تھا اور وہ اپنی ریاست سے یہودیوں کو نیست ونابود کرکے ایک صحت مند اور دانا قوم کی افزائش کرنا چاہتا تھا۔ اس کے لئے اس نے  پروپیگنڈہ کی ایسی حکمت عملی تیارکی تھی کہ اس کی بیوریو کریسی ، پولیس اور فوج ،سب اس کی اندھی تقلید کرنے لگے تھے۔یہ سب دیکھنے کے باوجود ڈاکٹر فرینکل پُرامید تھے کہ آج نہیں تو کل،  ایک نئی صبح ضرور طلوع ہوگی جب ظلم وتشدد کا دورختم ہوگا اور یہودی باعزت زندگی گزارنے کے قابل ہوسکیں گے۔
  آج دنیا میں ایسے کتنے لوگ ہیں جو مسلسل نئی صبح کے خواب دیکھتے ہیں اور اپنے خوابوں کی تکمیل کے لئے ہرطرح کی تکلیفیں سہتے ہیں؟ اسی کیمپ  میں ایک ایسا شخص بھی تھا جس نے ڈاکٹر فرینکل کو بتایا کہ اسے خواب میں کسی نے خبردی ہے کہ وہ اگلے ماہ کی پہلی تاریخ کو رہا کردیاجائے گا ۔ ڈاکٹر فرینکل کیلئے یہ بالکل انوکھی بات تھی۔ کیا یہ ممکن ہے کہ خواب میں کسی کو خبر ملے اور خواب دیکھنے والا اس غیبی آو از پر یقین بھی کرلے؟ مگر اس شخص کو اس آواز پر یقین ہوچلا تھا لہٰذا وہ ایک ایک دن گننے لگا۔ ہر دوسرے دن وہ ڈاکٹر صاحب کے پاس آتا اورانہیں خوشی خوشی خبر دیتا کہ اتنے دن پورے ہوچکے ہیں اور وہ جلد ہی رہا ہوجائے گا۔ آخرمہینے کی وہ تاریخ بھی آگئی جس کے دوسرے  دن اسے رہائی کی امید تھی مگر آزادی کا پروانہ دوسرے دن نہیں آیا۔ اب اس شخص کی حالت دیدنی تھی۔ چہرہ مرجھاگیا تھا اورایسا لگا جیسے وہ راتوں رات بوڑھاہوگیا ہو۔ اسے تیز بخار چڑھنے لگا اور وہ دو دن میں فوت ہوگیا۔انسان کو بیماری نہیں مارتی۔ امید کا ختم ہونا  ماردیتا ہے۔ یہ بھی تعجب خیز بات ہے کہ کیمپ میں اکثر اموات کرسمس اور یکم جنوری کے درمیان ہوتی تھیں۔ شاید قیدیوں کو امید ہوجاتی کہ کرسمس کے تہوار پر انہیں آزادکردیا جائے گا، یا نیا سال ان کے لئے آزادی کی نوید لائے گا مگر کتنی ہی کرسمس آئیں اور گزر گئیں مگر ان کی زندگی میں کوئی نیا سال نہیں آیا۔ جیسے جیسے امیدیں ٹوٹیں، ان قیدیوں کی قوت مدافعت میں کمی آنے لگتی اور وہ مایوسی اور نامرادی کی کھائی میں گرنے لگتے۔ پھر ایک دن ایسا آتا کہ وہ بری طرح ٹوٹ جاتے اوراس دنیا کی قید سے ہمیشہ کے لئے آزاد ہوجاتے۔
  شاید ان قیدیوں کے پاس جینے کا کوئی مقصد نہیں تھا۔ کسی ہدف کو حاصل کرنے کی آرزونہیں تھی۔ اگر ان کے پاس منزل تک پہنچنے کا عزم ہوتا تو یہ مایوس نہ ہوتے۔ ساری رکاوٹوں کو پھلانگ کر اپنی منزل تک پہنچ جاتے۔ لوگ عموماً اپنے چھوٹے چھوٹے مسائل میں مقصد حیات کو فراموش کر جاتے ہیں اوراپنی صلاحیتیں ان معمولی کاموں پر خرچ کر دیتے ہیں جن سے منزلیں دور ہوجاتی ہیں۔ ’الرسالہ ‘ میں مولانا وحیدالدین خان نے ایک واقعہ لکھا ہے کہ ایک صاحبزادے اپنے دوست کے ساتھ ایئرپورٹ جارہے تھے جہاں سے انہیں خلیج کی ملازمت کیلئے  ہوائی جہاز میں سفر کرنا تھا۔ اتفاق سے ان کی موٹر بائیک ایک آٹورکشا سے ٹکرا گئی اور وہ گرپڑے۔ چونکہ غلطی آٹو رکشا والے کی تھی اسلئے وہ اٹھتے ہی اس پر برس پڑے۔ اس سے پہلے کہ بات بڑھتی، ان کے دوست نے یاد دلایا کہ اس جھگڑے میں الجھ گئے تو ہوائی جہاز آ پ کو یہیں چھوڑ کر پرواز کرجائے گا۔ یہ سننا تھا کہ انہوںنے اس معاملہ کو وہیں چھوڑا اور بائیک اسٹارٹ کردی۔ شاید انہیں بروقت یادآگیا کہ بڑی منزل کا مسافر چھوٹےجھگڑے میں نہیں  پڑتا۔ انسان ہر بار راستے کے کتوں کی پرواہ کرنے لگے تواسے اپنی منزل کبھی نصیب نہیںہوگی۔
 ڈاکٹر فرینکل نے جا بجا یہی لکھا ہے کہ ہر مسئلہ کو منفی انداز میں دیکھنے سے ہم اپنے مسائل حل نہیں کرسکتے۔ مثال کے طورپر ہماری گاڑی اچانک راستے میں خراب ہوجائے تو ہم خود کو کوسنے لگتے ہیں، میکانک کو برا بھلا کہنے لگتے ہیں۔ اگر بجائے اس کے ہم یہ سوچیں کہ اس حادثے میں خداوند کریم کی کوئی مصلحت ہوگی اورکسی بڑے حادثے سے اس نے ہمیں بچالیا ہوتو ہم جھلاہٹ کے بجائے اس مسئلہ کا حل نکال سکیں گے۔ یہی دیکھئے کہ کوروناوائرس کے سبب ہم میں سے اکثر لوگ بے حد پریشان ہیں۔ سارا وقت شکایت کرتے رہتے ہیں مگراس کے مثبت پہلو پر نظر ڈالیں تو احساس ہوگا کہ آج ہم اپنے اہل خانہ کے ساتھ پہلے کے مقابلے میں زیادہ وقت گزار رہے ہیں، کل تک جن کتابوں کو چھونے کی فرصت نہیں تھی، آج انہیں اشتیاق سے پڑھ رہےہیں۔کل تک نمازیں جھٹ پٹ ادا کرکے فارغ ہو جاتے تھے آج انہی نماز کو سکون سے پڑھ رہے ہیں۔ یہاں تک کہ تفسیر قرآن اور احادیث مبارک بھی دل جمعی کے ساتھ پڑھنے لگے ہیں ۔کیا آج سے پہلے یہ ممکن تھا؟ بالفاظ دیگر ہم ردعمل کی نفسیات  سے ہٹ کر ایک مثبت عمل کو اپنا لیں تو عین ممکن ہے بدلے میں ہمیں راحت نصیب ہو۔
  اس کے لئے ضروری ہے کہ ہم ذہنی طورپر صحت مند ہوں اور ہمارے اعصاب مضبوط ہوں۔ کیوں کہ زندگی کے دشوارگزار راستوں پر صرف جسمانی صحت کا م نہیں آتی، ہر موڑ پر ہماری سوچ کا امتحان ہوتا ہے۔ کتنے ہی طلبہ ہیں جو سرکاری امتحانوں میں پہلی بار ناکام ہوجاتے ہیں لیکن ہمت جٹا کر اور خوب تیاری کرکے اسی امتحان میں دوسری بار کامیاب ہوجاتے ہیں۔ ایسے طلبہ کے پاس ایک ہدف تھا جس پر اپنی صلاحیتیں مرکوز کرکے انہوںنے ترقی کی ۔ ڈاکٹر فرینکل کے پاس بھی ایک مقصد تھا۔ وہ اپنے تجربات کی بنیادپر کتاب لکھنا چاہتے تھے۔ انہوںنے عزم کرلیا تھا کہ قیدسے رہائی کے بعد وہ ان کیمپوں کی دنیا کو بے نقاب کریں  گے۔ اوراس امید پر وہ ہر تکلیف برداشت کرتے رہے۔ انہیں یقین تھا کہ یہ فوجی ان سے جو جی چاہے چھین لیں، مگر ن کا عزم ان کی قوت فیصلہ نہیں چھین سکتے۔ اسی عزم وارادے نے عقوبت خانے میں انہیں تین سال تک اپنی تمامتر قوتوں کے ساتھ زندہ رکھا۔ رہائی کے بعد جب انہوں نے بدنصیب قیدیوں کی داستان رقم کی تو اس کے توسط سے ایک ہی پیغام دیا کہ ہم اپنی زندگی کا مقصد جان لیں تو دنیا کی کوئی  طاقت ہمیں اس مقصد کے حصول سے نہیں روک سکتی۔ بلائیں ، وبائیں آتی ہیں اور آتی رہیں گی۔ جنگیں بھی ہوتی رہیں گی، مگر انسان امید کا دامن نہ چھوڑےتو کوئی اسے ہرا نہیں سکتا۔

متعلقہ خبریں

This website uses cookie or similar technologies, to enhance your browsing experience and provide personalised recommendations. By continuing to use our website, you agree to our Privacy Policy and Cookie Policy. OK