Inquilab Logo

ٹائم کی تنقید

Updated: September 29, 2020, 12:07 PM IST | Editorial

’’ٹائم میگزین‘‘ نے ۱۰۰؍ با اثر ترین شخصیات کی فہرست میں وزیر اعظم مودی کو ۲۰۱۴ء، ۲۰۱۵ء اور پھر ۲۰۱۷ء میں شامل کیا تھا۔ یہ چوتھا موقع ہے جب اس فہرست میں ان کا نام موجود ہے

Time Magazine - Pic : INN
ٹائم میگزین ۔ تصویر : آئی این این

’’ٹائم میگزین‘‘ نے ۱۰۰؍ با اثر ترین شخصیات کی فہرست میں وزیر اعظم مودی کو ۲۰۱۴ء، ۲۰۱۵ء اور پھر ۲۰۱۷ء میں شامل کیا تھا۔ یہ چوتھا موقع ہے جب اس فہرست میں ان کا نام موجود ہے۔ اس سے یہ تو ثابت ہوجاتا ہے کہ ٹائم جیسے عالمی سطح پر مشہور میگزین کو ہندوستانی وزیر اعظم کے با اثر ترین شخصیات میں سے ایک ہونے کا اعتراف ہے مگر اس اعزاز کے ساتھ ہی میگزین نے ان پر لکھے گئے مضمون میں اُن کی شخصیت، سیاست اور اُن کی قیادت میں ملک کی سمت و رفتار سے جو بحث کی ہے وہ شدید تنقیدی زاویہ لئے ہوئے ہے۔ یقیناً اس مضمون سے اہل وطن کو افسوس ہوگا۔ افسوس اُن لوگوں کو بھی ہوگا جنہیں موجودہ حکمراں طبقے سے شکایت ہے اور جو اسے ہدف تنقید بناتے ہیں۔ تنقید، شکایت یا بے اطمینانی ہمارا داخلی معاملہ ہے۔ ہم اپنی حکومت پر لاکھ تنقید کریں مگر جب کوئی بیرونی شخص یا میگزین ایسا کرتا ہے تو افسوس ہوتا ہے، یہ الگ بات کہ تنقید اس لئے ہورہی ہے کہ بیرونی لوگوں کو تنقید کا موقع مل رہا ہے۔ آئیے دیکھتے ہیں کہ ’’ٹائم‘‘ نے کیا لکھا۔
 ’’جمہوریت کی کامیابی (کلید) شفاف انتخابات میں نہیں ہے۔ ان سے صرف اتنا پتہ چلتا ہے کہ کس کو زیادہ ووٹ ملے۔ اس سے زیادہ اہم ان لوگوں کے حقوق ہیں جنہوں نے کامیاب ہونے والوں کو ووٹ نہیں دیا۔ ہندوستان گزشتہ سات دہائیوں سے دُنیا کی سب سے بڑی جمہوریت ہے۔ اس کی ایک ارب ۳۰؍ کروڑ کی آبادی میں عیسائی، مسلم، سکھ، بودھ، جین اور دیگر مذہبی فرقے شامل ہیں۔ ان سب نے اس ملک سے خود کو جوڑے رکھا ہے جس کے بارے میں دلائی لامہ نے کہا تھا کہ یہ سرزمین یک جہتی و استحکام کی مثال ہے۔ نریندر مودی نے ان سب کو (ملک کی ان تمام خصوصیات کو) مشکوک بنادیا ہے۔‘‘
 ’’ٹائم‘‘ نے مزید لکھا ہے کہ’’ اب تک کے تقریباً تمام وزرائے اعظم کا تعلق اُسی اکثریتی فرقے سے تھا جس سے وزیراعظم مودی کا تعلق ہے مگر صرف مودی اس طرح حکومت کررہے ہیں جیسے کوئی اور ہے ہی نہیں۔‘‘ مضمون میں مسلمانوں کو ٹارگیٹ کرنے کی بات بھی کہی گئی ہے اور جمہوری مزاحمت کو دَبانے کا بھی تذکرہ موجود ہے۔ اس میں یہ بھی کہا گیا ہے کہ ان باتوں کی وجہ سے دُنیا کی سب سے متحرک جمہوریت دھندلکے میں مزید دھنس گئی ہے۔
 یہ تحریر ہمارے لئے نقصان دہ ہے۔ کاش ہم نے بیرونی لوگوں اور اداروں کو اس کا موقع نہ دیا ہوتا۔ عالمی سطح پر اُبھرنے والی کوئی بھی آواز ہماری عالمی شبیہ کو ہی متاثر نہیں کرتی، ہمارے معاشی و سفارتی تعلقات کو بھی نقصان پہنچاتی ہے خواہ وہ نقصان اور اثر پزیری فوری طور پر محسوس نہ ہو۔ مودی کی قیادت میں جاری حکومت این ڈی اے کی پہلی حکومت نہیں ہے۔ اس کے اولین سربراہ اٹل بہاری واجپئی کی حکومت پر ایسی تنقید نہیں ہوئی۔ اگر وزیراعظم مودی کے دورِ اقتدار میں اُن کے نعرے ’’سب کا ساتھ، سب کا وکاس‘‘ اور پھر اس میں جوڑے گئے فقرے ’’سب کا وشواس‘‘ کو عملی طور پر برتا جاتا اور جمہوری مزاحمت کو دَبانے کی کوشش نہ کی گئی جاتی جو کہ ہنوز جاری ہے تو ٹائم جیسے کسی میگزین کو تنقید کا موقع نہ ملتا۔ حال ہی میں عمر خالد کی گرفتاری کے خلاف جن ۲۰۰؍ دانشوروں نے آواز اُٹھائی اُن میں سے ایک عالمی شہرت یافتہ دانشور نوام چامسکی بھی ہیں۔ بارک اوبامہ نے بھی اپنے دورۂ ہند کے بعد حکومت کو مشورہ دیا تھا کہ وہ فرقہ وارانہ یکجہتی پر خاص توجہ دے، بعد ازاں ۲۰۱۷ء میں ہندوستان ٹائمس لیڈرشپ سمٹ میں بھی انہوں نے جہاں یہ کہا تھا کہ ہندوستان کو فرقہ وارانہ بنیاد پر تقسیم نہیں کیا جانا چاہئے وہیں یہ بھی کہ ہندوستانی مسلمان قابل ستائش ہیں جو اپنے ہندوستانی ہونے پر فخر کرتے ہیں جبکہ دیگر ملکوں کی اقلیتوں میں یہ قدر مشترک نہیں ہے۔ ایسی شخصیات حکومت کی ناقد نہیں، بہی خواہ ہیں۔ ان کی تنقید یا مشوروں کو شرف قبولیت میں اپنا ہی فائدہ ہے۔

متعلقہ خبریں

This website uses cookie or similar technologies, to enhance your browsing experience and provide personalised recommendations. By continuing to use our website, you agree to our Privacy Policy and Cookie Policy. OK