Inquilab Logo

ڈگری، استعداد، مولانا ابو الکلام آزاد اور یو جی سی

Updated: December 23, 2022, 10:29 AM IST | Shamim Tariq | Mumbai

مولانا آزاد نے تعلیم کا جو قومی ڈھانچہ بنا دیا تھا اس میں بعد میں آنے والوں نے شاید ہی کوئی بنیادی تبدیلی کی ہو مگر تعلیمی نظام سے باہر کے لوگوں میں ان کا وہ تعارف کبھی نہیں کرایا گیا جس کے وہ مستحق تھے۔

photo;INN
تصویر :آئی این این

ڈگری اور صلاحیت و استعداد میں براہِ راست کوئی تعلق نہیں ہے۔ ڈگری یافتہ شخص بے صلاحیت بھی ہوسکتا ہے اور کسی شخص میں کسی خاص مضمون کی ایسی استعداد بھی پیدا ہوسکتی ہے جس پر دنیا رشک کرے، اگرچہ اس مضمون میں اس کے پاس کوئی ڈگری نہ ہو۔ یوٹیوب پر ایک صاحب ملک کے پہلے وزیر تعلیم اور ہندوستان کی قومی تعلیمی پالیسی کے بنیاد گزار مولانا آزاد کے بارے میں ایسے الفاظ استعمال کررہے تھے جن کو سن کر شرم محسوس ہورہی تھی مگر آزاد ملک میں جہل اور ڈھٹائی کا مظاہرہ کرنے والوں کو بھی پوری آزادی ہے اس لئے کوئی کیا کہہ سکتا ہے؟ اسی دوران ایک خبر یا اطلاع پر نظر پڑی کہ اب گریجویشن کی ڈگری تین سال میں بھی حاصل کی جاسکے گی اور پی ایچ ڈی کرنے کے لئے پوسٹ گریجویشن کی بھی کوئی قید نہیں ہے۔ اگر کسی طالب علم نے گریجویشن کا چار سالہ کورس کیا ہے تو وہ پوسٹ گریجویشن کے بغیر بھی پی ایچ ڈی کرسکتا ہے۔ اس کا مطلب ہے کہ ڈگری حاصل کرنے یا عطا کرنے کا معیار بدلتا جارہا ہے۔ پہلے بھی یہی ہوتا تھا۔
 ملازمت حاصل کرنے کا معیار البتہ ڈگری ہے۔ کس کے پاس کون سی ڈگری ہے اسی کی بنیاد پر یہ طے ہوتا ہے کہ وہ کس عہدے کا اہل ہے یا اس کو کس عہدے یا کام پر متعین کیا جائے۔ یہی صحیح بھی ہے۔ ڈگری اور ڈگری کے لئے حاصل کئے ہوئے نمبروں کو معیار نہ بنایا جائے تو ملازمت یا عہدہ عطا کرنے کا کیا معیار ہو؟ ہاں، کسی ڈگری کی بنیاد پر کسی عہدے پر فائز یا کسی خاص شعبے میں تقرری حاصل کرلینے کے بعد پڑھنے یا مطالعہ کا شوق کم نہیں ہونا چاہئے۔ بدقسمتی سے ہر پیشے سے حتیٰ کہ پیشۂ تدریس سے وابستہ اشخاص اس وقت تک ہی مطالعہ کرنے یا کچھ سیکھنے کی کوشش کرتے ہیں جب تک انہیں ملازمت نہیں ملتی، ملازمت مل جانے کے بعد ان کے مطالعے کا سلسلہ رک سا جاتا ہے۔ یو جی سی نے اچھا کیا ہے کہ تین سال پر گریجویشن کی ڈگری اور چار سال کا گریجویشن کرنے والوں کو براہِ راست پی ایچ ڈی کرنے کی اجازت دے دی ہے۔ اس کا مطلب ہے کہ یو جی سی کے ذمہ داروں کے لاشعور میں یہ بات بیٹھی ہوئی ہے کہ ہندوستان کے نوجوانوں میں صلاحیت و استعداد کی کمی نہیں ان میں ایسے بھی ہیں جو صرف ایک جست میں کئی مراحل طے کرسکتے ہیں۔ اس کا سب سے بڑا ثبوت خود مولانا آزاد ہیں جنہوں نے ۱۹۱۱ء میں یعنی اپنی زندگی کے بالکل ابتدائی عہد میں جب ان کی عمر ۲۲، ۲۳؍ سال سے زیادہ نہیں تھی یہ فیصلہ کرلیا تھا کہ ان کا سفر اس مسافر کی طرح ہوگا جس نے سفر سے پہلے ہی راہ و منزل کے تمام مراحل پر غور کرلیا ہو۔ بعد میں اے پی جے عبدالکلام بھی اسی راہ کی مثال یا دانشمند مسافر کی حیثیت سے پہچانے گئے اور انہیں اس کا انعام بھی ملا۔ مثالیں اور بھی ہیں مگر خشت اول کی حیثیت مولانا آزاد ہی کو حاصل ہے۔ انہیں کی تعلیمی منصوبہ بندی ہے کہ اب گریجویشن کے پہلے سال سرٹیفکیٹ، دوسرے سال ڈپلومہ اور تیسرے سال ڈگری دینے یا چار سال کے گریجویشن کے بعد تحقیق کی وادیوں میں آزادانہ گھومنے اور نتیجہ اخذ کرنے کا موقع دیا گیا ہے۔ کہا جاسکتا ہے کہ مولانا نے جو تعلیمی پالیسی مرتب کی اس سے ملک کی ناخواندگی دور نہیں ہوئی۔ اب بھی بہت بڑی تعداد میں بچے اسکول نہیں بھیجے جاتے یا ایسے اسکولوں میں بھیجے جاتے ہیں جنہیں اسکول کہنا اسکول کی توہین ہے یا ایسے اسکولوں میں داخلہ لیتے ہیں جہاں کی فیس کا انتظام کرنا ان کے والدین کے لئے ممکن نہیں ہے لہٰذا وہ داخلہ تو لیتے ہیں مگر ایسی پڑھائی جاری نہیں رکھ پاتے۔ لیکن یہ تو تسلیم کرنا ہی پڑتا ہے کہ چین و جاپان کے بعد اس پورے خطے میں سائنسی تعلیم میں جو ملک سب سے آگے ہے وہ ہندوستان ہے اور ہندوستان وہ ملک ہے جہاں کے تعلیمی نصاب اور نظام میں بہت کم تبدیلیاں ہوئی ہیں۔ مولانا آزاد نے تعلیم کا جو قومی ڈھانچہ بنا دیا تھا اس میں بعد میں آنے والوں نے شاید ہی کوئی بنیادی تبدیلی کی ہو مگر تعلیمی نظام سے باہر کے لوگوں میں ان کا وہ تعارف کبھی نہیں کرایا گیا جس کے وہ مستحق تھے۔ ہوتا یہ تھا کہ اب سے پہلے کی حکمراں پارٹی کانگریس کے اقلیتی سیل کے جو ذمہ دار یا نگراں ہوتے تھے وہ مولانا آزاد سے منسوب پروگرام میں اپنی جی حضوری کرنے والوں کو بھر دیتے تھے۔ انہیں اور ان کے حواریوں کو مولانا آزاد کے بارے میں خود کچھ نہیں معلوم تھا وہ دوسروں کو کیا بتاتے؟ لہٰذا بیشتر یہی ہوا کہ مولانا آزاد کے نام پر منعقدہ پروگرام پارٹی میں عہدہ پانے کے لئے جی حضوری کرنے والوں کے اڈے بنے رہے۔ یہ روش اب اور بڑے پیمانے پر جاری ہے۔ تعلیم، ادب، ثقافت سب جی حضوری یا لگائی بجھائی کرنے والوں کے ہاتھوں کا کھلونا بنے ہوئے ہیں۔ جی حضوری اور لگائی بجھائی کرنے والوں کی سازشوں سے اچھے اچھے ادارے اور ثقافتی مراکز تباہ ہورہے ہیں اور یہ سمجھنے اور کہنے والے لوگ کم ہی رہ گئے ہیں کہ لگائی بجھائی کرنے والے دوسرا کوئی تعمیری کام کر ہی نہیں سکتے۔ مولانا آزاد اپنی گفتگو میں یا عام خطاب میں تاعمر کسی کو نشانہ بنانے سے گریز کرتے رہے مگر انہوں نے جو کام کئے وہ اس تناور درخت کی مانند ہے جو آندھیوں میں بھی محفوظ رہتا ہے لہٰذا ان کے کاموں کو تسلیم کرنے کی ضرورت ہے۔
 یو جی سی نے جو نئے فیصلے کئے ہیں ان میں یہ طے کیا جانا باقی ہے کہ سبھی یونیورسٹیوں میں چار سال کا گریجویشن کورس ہو یا تین سال کا۔ اس فیصلے کا انحصار یونیورسٹی کے ذمہ داران کے ذریعے اور انفراسٹرکچر کی بنیاد پر ہوگا۔ یہ اچھا بھی ہے کہ ماہرین ہی اس قسم کے فیصلے کریں۔ البتہ یہ بھی ضروری ہے کہ تعلیمی میدان میں سفارش اور لابنگ کے لئے کوئی جگہ نہ ہو۔ ایک شخص اپنے کو لاکھ ماہر قرار دیتا ہو اگر اس کا املا جملہ ترجمہ صحیح نہیں ہے یا اس نے پوری عمر دلالی کرنے اور اڑنگا لگانے کے سوا کچھ نہیں کیا ہے تو اس کی ڈگری کو اس کی ’کرسی ‘ کا پایہ نہیں بننے دینا چاہئے۔ شخصیت پرستی صرف یہ نہیں کہ کسی شخص کو اس نسبت کی بنیاد پر محترم تسلیم کرلیا جائے جو اس کو وراثت میں ملی ہے شخصیت پرستی یہ بھی ہے کہ یہ دیکھتے ہوئے بھی کہ فلاں شخص مضر ہے اور اداروں و شعبوں کو نقصان پہنچا رہا ہے اس کی ہاں میں ہاں ملائی جائے کہ اس کے پاس عہدہ، ڈگری یا علاقائیت کو فروغ دینے والی ٹولی اور ذہنیت ہے۔ اُردو اداروں اور شعبوں کی تباہی کی بڑی وجہ ایسے ہی لوگ ہیں۔

متعلقہ خبریں

This website uses cookie or similar technologies, to enhance your browsing experience and provide personalised recommendations. By continuing to use our website, you agree to our Privacy Policy and Cookie Policy. OK