ایک بھی ایگزٹ پول ایسا نہیں ہے جس نے ’’آپ‘‘ کو نوازنے والے رائے دہندگان کو اس خو ش خبری سے نوازا نہ ہو کہ کیجریوال کی پارٹی دہلی کے اقتدار کی ازسرنو حقدار قرار پائے گی۔ ہرچند کہ ایگزٹ پول پر بھروسہ نہیں کیا جاسکتا مگر چونکہ جو پیش گوئی کی گئی وہ زمینی حقائق کے بہت قریب ہے اس لئے، اس پر بھروسہ کرنے میں کوئی تامل نہیں ہوسکتا۔
دہلی اسمبلی الیکشن ۔ تصویر : پی ٹی آئی
سنیچر کو دہلی اسمبلی انتخابات کی پولنگ ختم ہونے کے بعد ایگزٹ پولس کے جو نتائج منظر عام پر آئے اُن میں عام آدمی پارٹی کو کسی نے ۴۴؍ سے ۵۰؍، کسی نے ۴۸؍ سے ۶۱؍، کسی نے ۴۹؍ سے ۶۳؍، کسی نے ۵۰؍ سے ۵۶؍ اور کسی نے ۵۹؍ سے ۶۸؍ سیٹوں کے ملنے کی پیش گوئی کی ہے۔ ایک بھی ایگزٹ پول ایسا نہیں ہے جس نے ’’آپ‘‘ کو نوازنے والے رائے دہندگان کو اس خو ش خبری سے نوازا نہ ہو کہ کیجریوال کی پارٹی دہلی کے اقتدار کی ازسرنو حقدار قرار پائے گی۔ ہرچند کہ ایگزٹ پول پر بھروسہ نہیں کیا جاسکتا مگر چونکہ جو پیش گوئی کی گئی وہ زمینی حقائق کے بہت قریب ہے اس لئے، اس پر بھروسہ کرنے میں کوئی تامل نہیں ہوسکتا۔
اگر حتمی نتائج سے بھی، جو ۱۱؍ فروری کو منظر عام پر آئینگے، کچھ ایسا ہی منظرنامہ اُبھرتا ہے تو اس سے چند باتیں ایک بار پھر واضح ہوجائینگی۔ پہلی یہ کہ رائے دہندگان چاہیں تو اُن جعلی مسائل (مثلاً بریانی، پاکستان، شاہین باغ) یا اسمبلی الیکشن کے علاقائی موضوعات پر لوک سبھا کے قومی موضوعات کو اہمیت اور ترجیح دینے کے شاطرانہ طرز عمل کومسترد کرسکتے ہیں۔ دوسری یہ کہ اگر دورِ حاضر کے باخبر اور باشعور ووٹرس چاہیں تو نت نئے وعدوں اور اَزخود دکھائی دینے والی کارکردگی کے درمیان فرق کرتے ہوئے آخر الذکر کو اپنے ووٹ کی حقدار بنا سکتے ہیں۔ تیسری یہ بات کہ جب اُن کے سامنے ٹھوس کارکردگی کی تفصیل موجود ہو تو وہ جذباتی نعروں سے بہلنے اور ایسے نعرے لگانے والی پارٹی کی حمایت کے بجائے حقیقی کارکردگی کو فوقیت دے سکتے ہیں، اور، چوتھی بات یہ ہے کہ اگر وہ مطمئن ہیں تو کسی پارٹی کو دوبارہ موقع دینے کی فراخدلی کا مظاہرہ بھی کرسکتے ہیں۔ شاید انہی معیارات پر عام آدمی پارٹی کو پرکھا گیا اور اس کے اُمیدواروں کو کامیاب بنانے کی کوشش کی گئی۔ اگر سنیچر کو ہونے والی پولنگ کا فیصد ۵۔۷؍ فیصد کم نہ رہا ہوتا تو عین ممکن تھا کہ ایگزٹ پولس میں ’’آپ‘‘ کی سیٹوں میں مزید اضافہ ہوتا۔
’’آپ‘‘ کی ممکنہ عظیم الشان کامیابی کیجریوال کی عوام دوست شبیہ اور مفاد عامہ کے کاموں کی انجام دہی کا ثمرہ ہے۔ اُنہوں نے اسکولوں کی بہتری، کفایتی داموں پر بجلی اور پانی کی فراہمی، صحت خدمات کو سنوارنے کی کوشش اور دہلی کو مکمل ریاست کا درجہ دلانے کی جدوجہد کو اپنا شناخت نامہ بنایااور عوام کے دلوں میں جگہ بنائی۔ یہی وجہ ہے کہ زیادہ پولنگ کی اطلاعات ایسے علاقوں سے ملیں جہاں کے عوام یا تو غریب ہیں یا نچلے متوسط طبقے سے تعلق رکھتے ہیں۔ یقینی طور پر یہاں کے ووٹ عام آدمی پارٹی کو ملے ہوں گے۔ اگر یہ اندازہ درست ہے تو اس کا مطلب یہ ہوگا کہ ایک طرف تو عام آدمی پارٹی کی اپنی کارکردگی اُس کی طاقت بنی، دوسری طرف مدمقابل بی جے پی کی مرکزی حکومت کی مختلف محاذوں پر ناکامی سے بھی کافی فرق پڑا ہے۔ ایگزٹ پولس سے پہلے لوک نیتی اور سی ایس ڈی ایس نے ایک سروے کیا تھا جس کی رپورٹ میں کہا گیا تھا کہ دہلی کے ۹۰؍ فیصد عوام مودی پر کیجریوال کو ترجیح دیتے ہیں۔ ان میں بھی ایسے لوگوں کی اکثریت تھی جنہوں نے پورے وثوق سے کہا تھا کہ کیجریوال حکومت نے بڑی حد تک اپنے وعدے پورے کئے ہیں۔
انا ہزارے کی بدعنوانی مخالف تحریک سے جنمی ایک نئی پارٹی (قیام: ۲۰۱۳ء) کا پہلے ہی الیکشن (۲۰۱۳ء) میں ۲۸؍ سیٹیں حاصل کرلینا اور اس کے بعد کے انتخابات (۲۰۱۵ء) میں ۶۷؍ سیٹوں تک پہنچ جانا بہرحال کیجریوال اور اُن کے رفقائے کار کی غیر معمولی کامیابی تھی جس پر سب نے حیرت انگیز خوشی کا اظہار کیا تھا۔ اس کے بعد اب بھی غالب امکان اسی بات کا ہے کہ منگل کے نتائج بھی کیجریوال اینڈ کمپنی کیلئے مژدۂ جانفزا ثابت ہوں۔ ووٹرس کی رائے کیا ہے یہ عقدہ کل دوپہر تک کھل جائیگا اور یہ راز بھی فاش ہوجائیگا کہ ’’آپ‘ ‘کی کامیابی کا گراف اُتنا ہی اونچا ہے جتنا ایگزٹ پولس نے دکھایا، یا، اُس سے بھی زیادہ بلند ہے۔