Inquilab Logo

دہلی فساد چارج شیٹ، انتقامی کارروائی کا نتیجہ

Updated: September 24, 2020, 10:54 AM IST | Khalid Shaikh

خدا کا شکر ہے کہ انصاف کا پرچم بلند کرنے والے منصف آج بھی موجود ہیں۔ تبلیغی جماعت کے ممبران اورڈاکٹر کفیل خان کے حق میں دیئے گئے فیصلے اسی ذیل میں آتے ہیں۔ ہماری دانست میں پر امن مظاہرین کیخلاف چارج شیٹ کا بھی یہی حشر ہوگا۔

Delhi Riots - Pic : PTI
دہلی فساد ۔ تصویر : پی ٹی آئی

 جب آئین کی پاسداری کا حلف لینے والے حکمراں، اس کی خلاف ورزی پر اترآئیں، قانون کے رکھوالے قانون شکن بن جائیں اور عدالیہ مظلومین کی دادرسی کے بجائے سماج کے اجتماعی ضمیر کی تسکین کے بہانے( یہ اصطلاع پہلی بار غالباً پارلیمنٹ پرحملے کے ملزم افضل گرو کو سزادینے کیلئے استعمال کی گئی) اکثریت نواز فیصلے کرنے لگے تو ہر ملک کا وہی حال ہوگا جو گزشتہ چھ برسوں سے ہندوستان میں دیکھنے کو مل رہا ہے۔ امریکہ دنیا کا سب سے قدیم جمہوری ملک ہے لیکن رنگ ونسل کی بنیادپر وہاں آج بھی سیاہ فاموں پر ظلم ڈھایاجاتا ہے جبکہ ہندوستان میں جو دنیا کی سب سے بڑی جمہوریت ہے، یہ کام ہندوتوا وادی طاقتیں مذہب اور ذات کے نام پر اقلیتوں اور دلتوں کے خلاف انجام دے رہی ہیں جن میں اکثریت مسلمانوں کی ہوتی ہے۔ فرق یہ ہے کہ امریکہ میں ایک سیاہ فام کی موت پر پورا ملک سراپا احتجاج بن جاتا ہے، ہندوستان میں بات مظاہروں اور بیان بازیوں سے آگے نہیں بڑھتی ۔
  گزشتہ سال ۱۵؍ دسمبر کو جامعہ ملیہ اسلامیہ کے طلبہ نے ایک نئی تاریخ رقم کی ۔ شہریت بل کے خلاف احتجاج آسام ودیگر شمال مشرق ریاستوں میں پہلے سے چل رہا تھا۔ اسے قانونی شکل دینے کا مقصد این آر سی کے لئے راستہ ہموار کرنا اور مسلمانوں کو  یہ جتانا تھا کہ ہندوستان میں رہنا ہے تو دوسروں کے مقابلے خود کو کمتر سمجھ کر رہنا ہوگا۔ قانون بننے کے بعد جامعہ ملیہ کے طلبہ نے اس کے خلاف مورچہ سنبھالا اور پُرامن مظاہروں کے ذریعے اپنا احتجاج درج کیا۔ بات اس وقت بگڑی جب دہلی پویس نے بزور طاقت مظاہرین کو دبانے کی کوشش کی، کیمپس میں گھس کر طلبہ کی پٹائی کی ، لائبریری میں اسٹڈی میں مصروف طلبہ پرلاٹھیاں برسائیں اور توڑ پھوڑ کی۔ نیوزچینلوں اور سوشل میڈیا پر پولیس زیادتیوں کی خبریں عام ہوتے ہی دوسری یونیورسٹیوں کے طلبہ جامعہ کے طلبہ کی حمایت میں سڑکوں پر اترآئے۔ عجیب بات یہ ہوئی کہ مسلم خواتین خانہ بھی میدان عمل کا حصہ بنیں اور شاہین باغ کے دھرنے کے ذریعے اپنے وجود کا احساس دلایا۔ جلدہی جامعہ اور شاہین باغ کا پُرامن احتجاج ملک گیر تحریک میں بدل گیا جسے بلا تفریق مذہب ہر طبقےکے لوگوں کا تعاون   حاصل تھا۔ مودی حکومت اس کے لئے تیارنہیں تھی ۔ وہ تشدد کا خطرہ مول لینا نہیں چاہتی تھی کہ دہلی الیکشن سرپرتھا اس لئے اس کے لیڈر انتخابی مہم میں اوچھی حرکتوں پر اترآئے۔ دھرنے پر بیٹھی خواتین اور مظاہرین کو ملک دشمن، شہر ی نکسل اور پاکستانی حامی بتایا اور کرنٹ لگانے سے لے کر گولی مارو تک کے نعروں سے مسلمانوںکے خلاف نفرت اور اشتعال انگیزی کی مہم چھیڑ دی۔ انتخابی مہم کے آخری دنوں میں مودی بھی گویا ہوئے کہ شاہین باغ کے پیچھے ایک ایسی سازش ہے جو ملک کے اتحاد اور سالمیت کو پارہ پارہ کردے گی۔
  بہرحال ساری کوششوں کے باوجود بی جے پی لیڈروں کو تیسری بار ’ آپ‘ کے ہاتھوں شرمناک شکست کا سامنا کرنا پڑا جس پر وہ تلملااٹھے۔ غصہ کسی پر تواتارنا تھا اس کیلئے مسلمانوں سے بہتر ہدف کون ہوسکتا تھا چنانچہ فساد کی تیاریاں شروع کی گئیں جس کا ماحول انتخابی مہم کے دوران ہی تیارکرلیا گیا تھا۔ ۲۳؍ فروری کو الیکشن ہارے ہوئے ایک لیڈر کپل مشرا نے جعفر آباد علاقے میں ڈی سی پی کی موجودگی میں الٹی میٹم دیا کہ ہم ٹرمپ کے جانے تک خاموش رہیں گے۔ تین دن کے اندر اگر دھرنے پر بیٹھے لوگوں کو نہیں ہٹایا گیا تویہ کام ہم خود کریں گے اور پولیس کی بھی نہیں سنیں گے۔ فساد اسی رات شروع ہوگیا۔ ٹرمپ آئے اور چلے گئے۔ شمال مشرقی دہلی تین دن تک جلتی رہی لیکن  مرکزی وریاستی دونوں حکومتوں نے اسے روکنے کی کوشش نہیں کی۔  پولیس خاموش تماشائی بنی رہی  یا دنگائیوں کے ساتھ نظر آئی۔ چوتھے دن قومی سلامتی مشیر کے دورے کے بعد حالات میں بہتری آئی لیکن جو تباہی ہونا تھی ہوگئی۔ ۵۳؍ افراد ہلاک ہوئے جن میں اکثریت مسلمانوں کی تھی۔ ہزاروں بے گھر اور نقل مکانی پر مجبور ہوگئے۔کروڑوں کا مالی وکاروباری نقصان ہوا اور مسجدوں پر حملے ہوئے۔ حیرت اس پر ہے کہ ان سب کا نوٹس لیتے ہوئے بھی عدلیہ نے کچھ نہیں کیا۔   سپریم کورٹ نے پولیس کے یکطرفہ رول کی مذمت کی۔ دہلی ہائی کورٹ نے متنبہ کیا کہ ۱۹۸۴ء کی سکھ نسل کشی کو دہرانے کی اجازت نہیں دی جائے گی۔ معاملہ اسی پر ختم ہوگیا۔ دہلی فساد کا تابناک پہلو یہ تھا کہ پرآشوب حالات میں بھی کئی علاقوں میں ہندوبھائیوں نے مسلمانوں کی اور مسلمانوں نے ہندوؤں کی مدد اور حفاظت کرکے انسانیت اوربھائی چارگی کی مثال قائم کی ۔ اس کے بعد گرفتاریوں کا سلسلہ شروع ہوا۔ جن بی جے پی لیڈروں نے مسلمانوں کے خلاف زہر افشانی کی، اشتعال پھیلایا، پولیس نے ان کے خلاف ایف آئی درج نہیں کی بلکہ انہیں کلین چٹ دیدی لیکن مسلمانوں کو چن چن کر پکڑا۔ زخمیوں کے تعلق سے پولیس کی مسلم دشمنی اور سنگدلی کا اظہار اس سے ہوتا ہے کہ دہلی ہائی کورٹ کو آدھی رات کے بعد زخمیوں کو بحفاظت اسپتال پہنچانے کا حکم جاری کرنا پڑا۔کورونا کی مہاماری نے مسلمانوں کے خلاف نفرت کی مہم پر وقتی طورپر روک لگادی لیکن فضا میں تناؤ آج بھی برقرار ہے۔ اپریل میں دہلی پولیس نے سی اے اے مخالف مظاہرین کے خلاف ادھورے کام کو تکمیل تک پہنچانے کا بیڑا اٹھایا جس پر جامعہ اور جے این یو کے طلبہ کی گرفتاری کا سلسلہ شروع ہوا۔ کیس کو مضبوط بنانے کیلئےان پر دہلی فساد کی سازش بھی منڈھ دی گئی اور یواے پی اے جیسا قانون لگادیا۔ یہ سلسلہ آج بھی جاری ہے۔ ۱۳؍ ستمبر کو اس میں جے این یو کے سابق طالب علم عمر خالد کا نام بھی جُڑ گیا۔ عدالت نے انہیں ۲۴؍ ستمبر تک پولیس ریمانڈ میں دیدیا ہے۔ 
 یواے پی اے اوراین ایس اے جیسے سخت قانون غیر معمولی جرائم پر لگائے جاتے ہیں لیکن جب حکومت اور پولیس انتقامی کارروائی پر اترآئے تو جرم اور قانون کی تمیز اٹھ جاتی ہے۔ خدا کا شکر ہے کہ غیر منطقی فیصلوں کے باوجود انصاف کا پرچم بلند کرنے والے منصف آج بھی موجود ہیں۔ تبلیغی جماعت کے ممبران اورڈاکٹر کفیل خان کے حق میں دیئے گئے فیصلے اسی ذیل میں آتے ہیں۔ ہماری دانست میں پر امن مظاہرین کیخلاف چارج شیٹ کا بھی یہی حشر ہوگا۔

متعلقہ خبریں

This website uses cookie or similar technologies, to enhance your browsing experience and provide personalised recommendations. By continuing to use our website, you agree to our Privacy Policy and Cookie Policy. OK