Inquilab Logo

دیدی کے مشیر درست صلاح نہیں دے رہے ہیں

Updated: December 07, 2021, 8:36 AM IST | Hassan Kamal | Mumbai

مغربی بنگال میں بی جے پی کو شکست دے کر دیدی کی مقبولیت میں زبردست اضافہ ہوا۔ ان کی مانگ بھی بڑھنے لگی۔ اپوزیشن پارٹیوں نے بھی ان کے اور ان کی پارٹی کیلئے ہر سطح پر گنجائش پیدا کرنے کی کوشش کی۔

Mamata Banerjee
ممتا بنرجی

مغربی بنگال میں اتنی شاندار فتح کے بعد پڑوسی ریاست تریپورہ کے بلدیاتی انتخابات میں ممتا دیدی کی ٹی ایم سی کا بی جے پی سے مغلوب ہو جانابہت سے لوگوں کے لئے باعث حیرت ہے۔ یقیناً  اس کی ایک وجہ بی جے پی کی طرف سے کی جانے والی زبردست دھاندلی بھی تھی۔ دوسری پارٹیوں کے امیدواروں کو کام نہیں کرنے دیا گیا۔ ووٹروں کو ووٹ نہیں دینے دیا گیا۔ ایسی زور زبردستی کا دور دورہ تھا کہ سپریم کورٹ کو مداخلت کرنا پڑی۔ لیکن ٹی ایم سی کی پسپائی کی یہ واحد وجہ نہیں تھی۔ ایک بڑی وجہ یہ بھی تھی کہ ادھر کچھ عرصہ سے دیدی کی پارٹی نے بی جے پی کی طرف سے توجہ ہٹا لی ہے۔ اب اس کی تمام تر توجہ کانگریس میں توڑ پھوڑ کرنے پر مرکوز نظر آتی ہے۔ پہلے آسام کی ایک اہم کانگریس لیڈر کوتوڑ کر ٹی ایم سی میں لایا گیا۔ پھر میگھالیہ میں کانگریس کے بارہ ممبران اسمبلی کو ٹی ایم سی میں لایا گیا۔ گوا میں بھی ٹی ایم سی کانگریس ہی پر حملہ آور ہے۔ تریپورہ میں بھی ٹی ایم سی بی جے پی کو ہرانے سے زیادہ کانگریس کی راہ روکنے میں مصروف تھی۔ نتیجہ یہ ہوا کہ بی جے پی آگے نکل گئی۔   ممتا دیدی اس وقت اپوزیشن کی سب سے مقبول لیڈر بھی ہیں اور بی جے پی ان سے خوفزدہ بھی ہے۔ لیکن کیا واقعی یہی معاملہ ہے یا کچھ اور معاملہ ہے؟ باخبر سیاسی حلقوں میں یہ افواہ گردش کر رہی ہے کہ اسکے پیچھے دیدی کے سیاسی مشیر پرشانت کشور کے ذاتی عزائم اور خواہشات کار فرما ہیں۔ 
      ہندوستان میں پرشانت کشور کا نام پہلی بار اس وقت سنا گیا جب یہ معلوم ہوا کہ انتخابی دائو پیچ کے ایک امریکہ پلٹ ماہر نے ۲۰۱۴ء کے لوک سبھا الیکشن میں نریندر مودی کے لئے انتخابی مہم کا انتظام کار سنبھال لیا ہے۔ انہوں نے یہ کام اس خوبی سے انجام دیا کہ بی جے پی نے سرکار بھی بنالی، مودی وزیر اعظم بھی بن گئے اور پرشانت کشور کا ڈنکا بھی بج اٹھا۔ لیکن بی جے پی اور پرشانت کشور کی زیادہ گہری نہیں چھن پائی۔ وجہ یہ بتائی جاتی ہے کہ پرشانت کشور اپنی کامیاب محنت کے عوض بی جے پی یا کابینہ میں کوئی عہدہ چاہتے تھے۔ مودی نے صاف انکار کر دیا۔ انہوں نے کہا کہ جو بھی معاوضہ مانگا گیا تھا اس کی پائی پائی چکا دی گئی ہے۔ پرشانت کشور نے اس کے بعد بی جے پی سے ناتہ توڑ لیا۔ لیکن ان کے سیاسی عزائم بہر حال قائم رہے۔ اس کے بعد نتیش کمار نے ان کی خدمات حاصل کیں۔ انہیں جنتا دل (یو) میں عہدہ بھی دیا۔ لیکن پرشانت کشور کے عزائم تو کوئی نیشنل پارٹی ہی پوری کر سکتی تھی اور جنتا دل(یو) بہر حال ایک علاقائی پارٹی تھی۔پھر جب ۲۰۱۹ء میں بی جے پی نے ان سے مدد لئے بغیر ایک زبردست اکثریت حاصل کر لی تو پرشانت کشور سمجھ گئے کہ ا ب ان پر بی جے پی کے دروازے ہمیشہ کیلئے بند ہو چکے ہیں۔ اس کے بعد انہوں نے ایک بار پھر کانگریس پر ڈورے ڈالے۔ پنجاب کے سابق چیف منسٹر کپتان امریندر سنگھ کی مدد سے انہوں نے سونیا، راہل اور پرینکا سے ملاقاتیں کیں۔ ان کی کانگریس میں شامل ہونے کی خبریں گشت کر نے لگیں۔ لیکن کانگریس کے وہ تمام لیڈر جو اب جی ۲۳؍ کہلاتے ہیں، انکے سخت خلاف تھے۔ مبینہ طور پر راہل بھی ان سے کچھ بہت زیادہ متاثر یا مرعوب نہیں تھے۔ اسکے بعد ہی سے پرشانت کشور نے کانگریس اور گاندھیوں کیخلاف بیانات کی جھڑی لگا دی۔ 
       اس دوران مغربی بنگال، آسام اور تمل ناڈو کے اسمبلی انتخابات آگئے۔ ممتا بنرجی اور ان کی پارٹی پر بی جے پی پوری طاقت سے حملہ آور تھی۔ دیدی کو کسی نے مشورہ دیا کہ پرشانت کشور اس وقت ان کے بہت کام آسکتے ہیں۔ دیدی نے مشورے پر عمل کیا۔ پرشانت کشور نے ٹی ایم سی کا انتخابی انتظام کار سنبھال لیا۔ اس کے بعد جو کچھ ہوا،وہ اب تاریخ کا حصہ بن چکا ہے۔  مغربی بنگال میں بی جے پی کو شکست دے کر دیدی کی مقبولیت میں زبردست اضافہ ہوا۔ ان کی مانگ بھی بڑھنے لگی۔ اپوزیشن پارٹیوں نے بھی ان کے اور ان کی پارٹی کے لئے ہر سطح پر گنجائش پیدا کرنے کی کوشش کی۔یہ بھی مان لیا کہ اگر وہ مودی کو شکست دینے کے لئے آگے بڑھیں تو سب ان کے پیچھے کھڑے   رہیں گے۔ پرشانت کشور نے اِس فضا کا فائدہ اٹھانا چاہا۔ انہوں نے طے کیا کہ اگر دو نیشنل پارٹیاں یعنی کانگریس اور بی جے پی میں ان کے لئے کوئی گنجائش نہیں تو پھر وہ ترنمول کانگریس ہی کو نیشنل پارٹی بنا دیں گے۔ ٹی ایم سی کا سائز بڑھانے کے لئے دوسری پارٹیوں خصوصاََ کانگریس میں توڑ پھوڑ ان کی اسی حکمت عملی کا حصہ ہے۔ لیکن ہمارے نزدیک وہ اس سلسلہ میں ہندوستانی سیاست کے چند بنیادی نکات بھول گئے ہیں۔ کسی علاقائی پارٹی کا نیشنل پارٹی میں بدلنا کوئی آسان عمل نہیں ہوتا۔ ایسی پارٹی کو ملک کی ہر ریاست کے عوام کے مسائل اور ان کی خواہشات کا علم ہونا چاہئے۔یہ نہ بھولئے کہ ۹۰؍ کے عشرے میں شرد پوار نے بھی سونیا  سےخفا ہوکر اپنی این سی پی بنائی اور اسے نیشنل پارٹی بنانا چاہا تھا، انہیں شمال مشرقی ریاستوں میں پی ایل سنگما اور بہار میں طارق انور جیسے اتحادی بھی مل گئے تھے۔ چند اور ریاستوں میں اکا دکالوگ بھی کانگریس چھوڑ کر ان سے آملے تھے۔ لیکن یہ سب زیادہ دنوں تک نہیں چل سکا۔ یہ بھی یاد رہے کہ شرد پوار نہایت قدآور اور مقبول لیڈر تھے۔ لیکن پھر کیا ہوا ۔ این سی پی آج بھی ایک بڑی اور مضبوط پارٹی ہے، لیکن وہ ایک بار پھر علاقائی پارٹی بن چکی ہے۔ 
                            ہم ایک اور زمینی حقیقت کا ذکر بھی بہت ضروری سمجھتے ہیں۔ اتفاق یا بد قسمتی سے اس ملک کے نیشنل لیڈر کے لئے ہندی بھاشی ہونا ضروری ہے۔ کچھ لوگ فوراََ کہیں گے کہ نریندر مودی بھی تو ہندی بھاشی نہیں تھے، وہ کیسے وزیر اعظم بن گئے؟اس کی چند تاریخی وجوہات ہیں۔پہلی وجہ یہ ہے کہ ہر چند گجرات مغربی ہندوستان کا حصہ ہے۔ لیکن تاریخ کے ہر دور میں گجرات اور گجراتیوں نے مذہبی، ثقافتی اور سماجی بنیادوں پر خود کو مغربی ہندوستان سے زیادہ شمالی ہندوستان سے قریب تر مانا ہے۔ اس لئے شمالی ہندوستان نے ہندوتوا کے ایجنڈے کے پیش نظر مودی کو ان کی غلط سلط ہندی کے باوجود قبول کر لیا۔ بنگال سے شمالی ہندوستان کی کبھی ویسی قربت نہیں رہی۔ اگر دیدی کے مشیر ان حقائق سے واقف نہیں ہیں تو پھر ان کیلئےراہ بہت دشوار ہے۔ اور اگر واقف ہیں اور اس کے باوجود وہ سب کر رہے ہیں جو سب دیکھ رہے ہیں تو پھر دیدی کے مشیر ان کو درست مشورے نہیں دے رہے ہیں۔ یوں بھی پانچ ریاستوں کے انتخابات کے بعد صورت حال یکسر بدل بھی سکتی ہے۔ یہ تو وثوق سے نہیں کہا جا سکتا کہ کس ریاست میں کس پارٹی کی حکومت بنے گی، لیکن جو کچھ دکھائی دے رہا ہے اس کی بناء پر یہ وثوق سے ضرورکہا جا سکتا ہے کہ بی جے پی شاید ان میں سے کسی ریاست میں بھی سرکار نہ بنا سکے۔ اتنی گئی گزری حالت میں بھی کانگریس دونوں ایوانوں میں سب سے بڑی اپوزیشن پارٹی ہے اور یہ کہا جارہا ہے کہ کم از کم چار ریاستوں میں کانگریس سب سے بڑی پارٹی بن کر سامنے آسکتی ہے۔ پرشانت کشور کو پھر تو بہت کچھ سوچنا پڑے گا۔ n

متعلقہ خبریں

This website uses cookie or similar technologies, to enhance your browsing experience and provide personalised recommendations. By continuing to use our website, you agree to our Privacy Policy and Cookie Policy. OK