Inquilab Logo

جمہوریت میں عدلیہ کا وقار بحال رہنا ضروری ہے

Updated: February 16, 2020, 4:11 PM IST | Dr Mushtaque Ahmed

عدلیہ نے ایک اہم فیصلے میں سیاست کے داغدار چہروں کو روکنے کی کوشش کی ہے اور تمام سیاسی جماعتوں کو تنبیہ کی ہے کہ وہ داغدار لوگوں کو ٹکٹ نہ دیں او راگر ٹکٹ دیتی ہیں تو اس کی وجہ بھی بتائیں ۔ اتنا ہی نہیں عزت مآب جسٹس نریمن اور جسٹس روندر بھٹ کی بنچ نے کہا ہے کہ ۴۸؍ گھنٹے کے اندر سیاسی جماعت اپنے امیدواروں کے کوائف کو عوام الناس کیلئے ویب سائٹ پر جاری کرے۔اس طرح کے عدالتی فیصلوں سے جمہوریت کو استحکام ملتا ہے

سپریم کورٹ آف انڈیا ۔ تصویر : پی ٹی آئی
سپریم کورٹ آف انڈیا ۔ تصویر : پی ٹی آئی

ہمارا ملک ہندوستان دنیا کا سب سے بڑا جمہوری ملک ہے اور یہاں عدلیہ کو غیر معمولی اہمیت حاصل ہے۔اس لئے ملک کے تمام شہری عدلیہ کو نہ صرف عزت واحترام کی نظر سے دیکھتے ہیں بلکہ اس کے فیصلے پر کسی طرح کی چہ می گوئیاں کرنے سے بھی پرہیز کرتے ہیں۔یہی وجہ ہے کہ آج پوری دنیا میں ہندوستان کی عدلیہ کی اپنی ایک الگ شناخت ہےلیکن یہاں اس حقیقت کا اظہار بھی ضروری ہے کہ ہمارا آئین ہر شہری کو یہ آزادی دیتا ہے کہ وہ آئین اور جمہوری اخلاقیات کے دائرے میں رہ کر اپنی بات کہہ سکتا ہے۔اس لئے حالیہ دنوں میں ہماری عدالت عظمیٰ کے کچھ ایسے فیصلے آئے ہیں جس پر پورے ملک میں تبصرے ہور ہے ہیں اور ذرائع ابلاغ میں بھی ان تبصروں کو جگہ مل رہی ہے۔ بالخصوص سوشل میڈیا پر کچھ زیادہ ہی تبصرے ہو رہے ہیں۔
 یہ اچھی بات ہے کہ یہ تبصرے جمہوریت کے استحکام کیلئے فکر مندی پر مبنی ہوتے ہیں لیکن عوام الناس کے ذہن ودل میں یہ وسوسہ ضرور پیدا ہوگیا ہے کہ آخر ہماری عدلیہ کس خطوط پر کام کررہی ہے؟ بالخصوص حالیہ شاہین باغ میں ایک معصوم بچی کی موت پر جس طرح ہماری عدالتِ عظمیٰ نے خود بخود نوٹس لیا ہے اور مرکزی ودہلی حکومت کو وجہ بتائو نوٹس جاری کیا ہے؟ اس سے ایک خاص طبقے کو مایوسی ہوئی ہے کیو ںکہ اس سے پہلے اس ملک میں حالیہ دو مہینے میں جس طرح کے حالات پیدا ہوئے ہیں اور حقوقِ انسانی کی پامالی ہوئی ہے، اس پر ہماری عدلیہ نے کسی طرح کا تبصرہ نہیں کیا ہے۔
 دہلی انتخاب کے وقت جس طرح غیر آئینی حرکتیں کی گئیں اور اشتعال انگیزی کے ذریعہ ایک خاص طبقے کے خلاف فرقہ وارانہ نفرت انگیز بیان بازیاں کی گئیں، اس پر بھی کوئی توجہ نہیں دی گئی۔ کرناٹک کے ایک اسکول میں ایک بچے نے تمثیلی ڈرامہ پیش کرتے ہوئے سی اے اے اور این آر سی کے خلاف اسٹیج سے اپنی بات کہہ دی تو اس پر محض اس لئے نوٹس لے لیا گیا کہ وزیر اعظم کے خلاف آواز اٹھائی گئی تھی۔ اس میں کوئی شک نہیں کہ وزیر اعظم کے ذاتی کردار پر کسی طرح کا تبصرہ نہیں ہونا چاہئے لیکن وہ اب کسی خاص پارٹی یا نظریئے کے پاسدار نہیں ہیں بلکہ ہندوستان کے وزیر اعظم ہیں اور ہمارا آئین ہمیں یہ اجازت دیتا ہے کہ ہم اپنے لیڈران کی کارکردگی پر تبصرہ کر سکتے ہیں۔ البتہ اس بات کا خیال ضرور رکھا جانا چاہئے کہ وہ غیر اخلاقی اور غیر آئینی نہ ہو۔
  اسی طرح اتر پردیش میں سی اے اے اور این آر سی کے خلاف احتجاجی جلوس نکالنے والوں کے خلاف ریاستی حکومت کا جو آمرانہ رویہ رہا جس میں دو درجن سے زیادہ جانیں تلف ہوئی ہیں، اس پر ہماری عدلیہ خاموش رہی۔ لکھنؤ میں گھنٹا گھر پر احتجاجی دھرنے پر بیٹھی عورتوں پر پولیس نے ڈنڈا چلایا اور سرد راتوں میں اس کے کمبل چھین لئے لیکن کہیں کوئی چوں چرا نہیں ہوا۔ عوام اس کے خلاف آواز بلند کرتے رہے مگر کہیں سے کوئی انصاف نہیں ملا۔ اتنا ہی نہیں اتر پردیش حکومت نے جمہوری طریقے سے احتجاج کرنے والوں کے خلاف اس کی ملکیت ضبط کرنے کا نوٹس جاری کیا مگر اس غیر آئینی اور غیر قانونی نوٹس کا ہماری عدلیہ نے کوئی نوٹس نہیں لیا۔ آخر اس ملک کے عوام ان سب چیزوں کو اپنی کھلی آنکھوں سے تو دیکھ ہی رہے ہیں۔ اب آزادی کے ۷۲؍ برسوں بعد سماج کے ہر طبقے میں ایسے افراد ضرور پیدا ہوگئے ہیں جو حق اور نا حق کو خوب سمجھنے لگے ہیں اور سیاست کی شطرنجی چال نے ہمارے جمہوری اور آئینی ستونوں کو کس طرح تہس نہس کیا ہے اور اس کی اہمیت ومعنویت کو ختم کرنے کی کوشش کی ہے، اس سے بھی واقف  ہیں۔ 
 بہر کیف! اب بھی اس ملک کے عوام کو اپنی عدلیہ پر ناز ہے کہ امید کی آخری کرن وہی ہے۔ اس لئے ہماری عدلیہ کو عوام الناس کے جذبات احساسات کا بھی خیال رکھنا ہوگا کہ عوام الناس کے دلوں میں اگر ہمارے آئینی اداروں کے تئیں کسی طرح کے وسوسے پیدا ہوتے ہیں تو وہ نہ صرف استحکامِ جمہوریت کیلئے نقصان دہ ہے بلکہ ملک کی سالمیت کیلئے بھی  بہت بڑا خسارہثابت ہو سکتا ہے ۔ مجھے خوشی ہے کہ گزشتہ کل ہماری عدلیہ نے ایک اہم فیصلے میں سیاست میں داغدار چہروں کو روکنے کی کوشش کی ہے اور تمام سیاسی جماعتوں کو تنبیہ کی ہے کہ وہ داغدار لوگوں کو ٹکٹ نہ دیں او راگر ٹکٹ دیتی ہیں تو اس کی وجہ بھی بتائیں ۔ اتنا ہی نہیں عزت مآب جسٹس نریمن اور جسٹس روندر بھٹ کی بنچ نے کہا ہے کہ ۴۸؍ گھنٹے کے اندر سیاسی جماعت اپنے امیدواروں کے کوائف کو عوام الناس کیلئے ویب سائٹ پر جاری کرے۔ کورٹ نے یہ بھی کہا ہے کہ آخر داغدار لوگوں کو ہی امیدوار بنانے میں ہر ایک سیاسی جماعت ایک دوسرے کو مات دینے میں کیوں لگی رہتی ہے؟ کیا اب اچھے لوگ پارلیمنٹ یا اسمبلی کے انتخاب نہیں جیت سکتے۔
  عدلیہ کے اس فیصلے کی جتنی بھی تعریف کی جائے کم ہوگی کیوں کہ حالیہ دنوں میں ہر ایک سیاسی جماعت نے داغدار چہروں ہی کو  اہمیت دی ہے۔ شاید اس لئے مفاد عامہ کی رِٹ بھی دائر کی گئی تھی کہ اس جمہوریت کو بچانے کیلئے ضروری ہے کہ سماج کے ہر طبقے کے بے داغ اور دانشور طبقے کو ایوانوں میں جانا چاہئے۔واضح ہو کہ این این ووہرا کمیٹی نے ۱۹۹۳ء ہی میں ایک رپورٹ دی تھی اور اس میں یہ فکر مندی ظاہر کی گئی تھی کہ تمام سیاسی جماعتیں داغدار امیدواروں سے پرہیز کریں لیکن ایسا کچھ نہیں ہوا بلکہ اس معاملے میں تمام سیاسی جماعتیں ایک جیسی ثابت ہوئیں کہ وہ داغدار امیدواروں ہی کو فوقیت دینے لگیں کہ اس طرح کے امیدواروں کی کامیابی یقینی سمجھی جاتی ہے۔ حال ہی میں ایک رپورٹ شائع ہوئی ہے جس میں اس حقیقت کا انکشاف کیا گیا ہے کہ ۲۰۰۴ء کے پارلیمانی انتخاب میں ۲۴؍ فیصد ،   ۲۰۰۹کے انتخاب میں ۳۰؍ فیصد ، ۲۰۱۴ء کے انتخاب میں ۳۴؍ فیصد اور ۲۰۱۹ء کے انتخاب میں ۴۳؍ فیصد ایسے امیدوار پارلیمنٹ پہنچے ہیں جن پر درجنوں مقدمے چل رہے ہیں۔ دراصل ہمارے یہاں مقدمے کی سماعت او رکسی معاملے کے فیصلے میں اتنی تاخیر ہوتی ہے کہ اسی کا سہارا لے کر اس طرح کے داغدار امیدوار اسمبلی اور پارلیمنٹ پہنچنے میں کامیاب ہوتے ہیں کہ ان کا موقف ہوتا ہے کہ جب تک عدلیہ نے اسے مجرم ثابت نہیں کیا ہے اس وقت تک وہ اپنے جمہوری حقوق سے دستبردار نہیں ہو سکتا لیکن سچائی یہ ہے کہ جب تک عوام کا ذہن اس طرح کے امیدواروں کو قبول کرتا رہے گا اس وقت تک کوئی قانون کارآمد ثابت نہیں ہو سکتا۔
  اس کے لئے ضروری ہے کہ سماجی سطح پر تحریک چلائی جائے کہ جب تک زمینی سطح پر جمہوریت کے استحکام کے لئے کام نہیں کئے جائیں گے اس وقت تک صرف قانون کے سہارے انقلاب نہیں آسکتا ۔ مثلاً ہمارے ملک میں جہیز کے لین دین پر پابندی ہے اور اسے قانونی جرم قرار دیا گیاہے لیکن سچائی یہ ہے کہ جہاں کہیں بھی سماجی سطح پر کام ہواہے وہاں جہیز جیسی لعنت ختم ہوئی ہے لیکن جہاں سماجی رضا کار تنظیموں نے صرف قانون پر بھروسہ کیا ہے وہاں جہیز کا لین دین اب بھی جاری ہے اور روز جہیز کو لے کر نئی نویلی دلہنوں کی خود سوزی یا پھر اس کو جلانے کی خبریں آتی رہتی ہیں ۔ اس لئے اب جب کہ ہماری عدلیہ نے جمہوریت کے استحکام کے لئے سیاست میں داغدار چہروں کو روکنے کی پہل کی ہے تو عوامی سطح پر بھی اس کے لئے کام کرنے کی ضرورت ہے اور خصوصی طورپر سیاسی جماعتوں کو ایماندارانہ کوشش کرنے کی ضرورت ہے کہ وہ بخوبی جانتے ہیں کہ کون داغدار ہے اور کون صاف ستھرے چہرے کے مالک ہیں ۔مگر لاکھ ٹکے کا سوال تویہ ہے کہ ہماری جمہوریت میں اکثریت کی اہمیت ہے اور ہر سیاسی جماعت یہ چاہتی ہے کہ وہ کسی طرح ایسے امیدواروں کو کھڑا کرے جو اسے اکثریت دلانے میں معاون ہو سکے ۔اور یہی روش  روز بروز سیاست کے چہرے کو بد نما کرتی جا رہی ہے۔یہ ایک لمحۂ فکریہ ہے جس پر سماج کے ہر طبقے کو غوروفکر کرنا ہے کہ  دنیا کی سب سے بڑی جمہوریت کے استحکام کے لئے ایسا کیا جانا ضروری ہے

متعلقہ خبریں

This website uses cookie or similar technologies, to enhance your browsing experience and provide personalised recommendations. By continuing to use our website, you agree to our Privacy Policy and Cookie Policy. OK