Inquilab Logo

اُردو کو میری ضرورت ہے یا مجھے اُردو کی؟

Updated: January 02, 2021, 1:36 PM IST | Shahid Latif

اُردو کو تو ٹیکنالوجی کی رفاقت حاصل ہوگئی ہے۔ وہ اس کے تعاون سے آگے بڑھ رہی ہے۔ نئے حلقوں تک پہنچ رہی ہے۔ اس کی خوب پزیرائی ہورہی ہے۔ اس کے امکانات وسیع ہوئے ہیں۔ ایسے میں یہ نیا سوال پیدا ہوا ہے جو ہر اعتبار سے غور طلب ہے

muslim students
مسلم طلبہ

اقوام متحدہ کے سکریٹری جنرل انتونیو غطریس نے اقوام عالم کو نئے سال کی مبارکباد جن زبانوں میں دی ہے اُن میں پہلی مرتبہ اُردو بھی شامل رہی۔ اہل اُردو کیلئے یہ بڑا اعزاز ہے۔ اس کا معنی یہ ہے کہ اقوام متحدہ اُردو کی اہمیت اور طاقت سے واقف ہے۔
 دو روز قبل ایک سال ہی ختم نہیں ہوا، ایک دہائی بھی اختتام کو پہنچی جس میں اُردوزبان کے امکانات کو غیر معمولی اور غیر متوقع وسعت حاصل ہوئی ہے۔مثال کے طور پر: اسی دہائی میں موبائل ٹیکنالوجی کو تھری جی سے فور جی کی جانب پیش رفت کا موقع ملا جس کی وجہ سے انٹرنیٹ کی سہولت تیز رفتار، عام اور ارزاں ہوئی۔ اس کا فائدہ دیگر زبانوں کے ساتھ اُردو زبان کو بھی ملا۔ اہل اُردو پہلے کے مقابلے میں زیادہ تواتر اور تیزی کے ساتھ موبائل پر ایسا مواد تلاش کرنے لگے جو اُردو میں ہے۔ اسی دہائی میں مصنوعی ذہانت نے پرپُرزے پھیلائے۔ فائدہ یہ ہوا کہ صارفین نے ایک دو مرتبہ شاعری میں دلچسپی دکھائی تو مصنوعی ذہانت شعراء کا کلام ڈھونڈ ڈھونڈ کر صارفین تک پہنچانے لگی۔ ایک بار مشاعرہ دیکھا اور سنا تو مصنوعی ذہانت مشاعروں کے یکے بعد دیگرے  ویڈیوز صارفین کی خدمت میں پیش کرنے لگی۔ اسی دہائی میں اُردو میں ای میل کو ترویج حاصل ہوئی۔ اسی دہائی میں موبائل پر اُردو ٹائپنگ عام ہوئی۔ اسی دہائی میں وہاٹس ایپ نے مقبولیت کا نیا ریکارڈ قائم کیا اور اُردو زبان ٹیکنالوجی کے دوش پر سوار ہوکر روزمرہ کے معمولات کا حصہ بن گئی۔ اسی دہائی میں ’’ریختہ ڈاٹ آرگ‘‘ جاری ہوا جو اُردو زبان سے دلچسپی رکھنے والوں، بالخصوص اُردو ادب اور شاعری کا ذوق رکھنے والوں کی پہلی پسند بن گیا۔ نو ّے ہزار سے زائد کتابیں (بشمول ساڑھے چار ہزار سوانحی کتابیں)، اکتالیس ہزار غزلیں،کم و بیش آٹھ ہزار نظمیں، سات ہزار ویڈیو، دو ہزار سے زائد آڈیو اور ایسا ہی بہت کچھ، کیا یہ کوئی معمولی کارنامہ ہے؟ اسی دہائی میں جب اخبارات کی ویب سائٹس نے اُردو شاعری کی مقبولیت کو سمجھا تو اُردو شعراء کا کلام دیوناگری رسم الخط میں اپنے قارئین تک پہنچانے کا نظم کیا۔ آپ کسی ہندی ویب سائٹ پر اُردو شاعری کے مطالعے میں دلچسپی ظاہر کیجئے پھر دیکھئے کیا ہوتا ہے۔ مصنوعی ذہانت یہاں بھی حرکت میں آتی ہے اور آپ کی خدمت میں روزانہ اُردو شعراء کا کلام پیش کرتی ہے۔ گوگل بھی آپ کے ’دسترخوان ِذوق‘ پر شعراء کا کلام روزانہ بڑے اہتمام سے سجاتا ہے۔ اسی دہائی میں یہ بھی ہوا کہ ٹیکنالوجی کی برکت اور لاک ڈاؤن کی سہولت نے آن لائن مشاعروں کو مقبول عام کیا۔ اس طرح لاک ڈاؤن میں بھی اُردو کاکام نہیں رُکا۔ اسی دہائی میں انٹرنیٹ پر آڈیو اور ویڈیو کے ذریعہ اُردو نظموں اور غزلوں کے ساتھ ساتھ نصیحت آموز تحریریں، اقوال زریں اور دیگر کو عام کرنے کا سلسلہ بھی شروع ہوا۔ ڈیڑھ منٹ کا ویڈیو، دو منٹ کا ویڈیو۔ چلتے پھرتے اُردو سے لوَ لگا رکھنا اور کچھ نہ کچھ سیکھتے رہنا اس طرح بہت آسان ہوگیا ہے۔ 
 یہ اور ایسی دیگر باتوں کو ذہن میں تازہ کیجئے تو احساس ہوگا کہ ۲۰۱۱ء سے شروع ہوکر ۲۰۲۰ء کے آخری دن اختتام کو پہنچنے والی دہائی سیاسی، سماجی، اقتصادی اور ثقافتی اعتبار سے چاہے جیسی رہی ہو، اُردو کی ترویج و ترقی کے اعتبار سے کافی فائدہ مند ثابت ہوئی ہے۔ مگر!
 اس ’’مگر‘‘ کے بعد کی حقیقت کافی دلچسپ ہے۔ نہ تو اقوام متحدہ کے سکریٹری جنرل انتونیو غطریس نے کسی اہل اُردو کے مطالبے یا فرمائش پر نئے سال کا پیغام اُردو میں دیا ہے نہ ہی ٹیکنالوجی کے ذریعہ زبان و ادب کی ترویج و ترقی کے نئے امکانات اہل اُردو کی خواہش اور کوشش کا نتیجہ ہے۔  
  اہل اُردو، جیسے ۲۰۱۱ء سے پہلے تھے، ویسے ہی ۲۰۲۰ء کے اختتام پر ہیں۔ اُن کے طرز عمل میں کوئی فرق نہیں ہے۔ زبان اپنے دم پر فروغ پارہی ہے۔ اس میں دم خم نہ ہوتا تو ٹیکنالوجی اس کی کوئی مدد نہیں کرپاتی۔ خوشی کی بات یہ ہے کہ نہ تو ٹیکنالوجی نے نہ ہی ٹیکنالوجی برتنے والوں نے اُردو کےساتھ سیاستدانوں جیسا سلوک کیا۔ ٹیکنالوجی نے اُردو کا استقبال کیا تو اسے اُردو کے لئے سازگار بنانے والے بھی استقبال کا حصہ بنے۔ اس خوش عملی سے تحریک پاتے ہوئے اُردو کے ایک شیدائی نے نئے سال اور نئی دہائی کیلئےچند اقدامات کی بابت سوچا ہے۔ اُردو کا یہ شیدائی اس مضمون نگار کے تصور میں بسنے والا ایسا شخص ہے جو اُردو کی ہر بستی میں دکھائی دیتا ہے مگر سوچتا ہے کہ مَیں اکیلا کیا کروں۔ اسے ہر اہل اُردو کا تعاون درکار ہے۔ وہ چاہتا ہے کہ اُردو کی ہر بستی کا ہر شخص اُس جیسا ہوجائے۔ اُس کے مجوزہ اقدامات اس طرح ہیں:
 اُس نے سوچا ہے کہ روزانہ اُردو کا ایسا لفظ سیکھوں گا اور دوسروں تک پہنچاؤں گا جو اَب سے پہلے علم یا حافظے میں نہیں تھا۔ مثلاً کل اس نے یہ بات ذہن نشین کی کہ ’’بے نیل و مرام‘‘ غلط ہے، صحیح ’’بے نیل مرام (بغیر واؤ کے ساتھ) ہے۔‘‘ اس نے یہ بھی سوچا کہ جب بھی موقع ملے گا وہ اس کا استعمال کرے گا،ہچکچائے گا نہیں، یہ نہیں سوچے گا کہ ایسے الفاظ اب کوئی نہیں سمجھ پاتا۔ اس کے اقدامات میں یہ بھی ہے کہ ہر اُس شخص کو اُردو کی رغبت دلائے گا جو زبانوں سے تھوڑی بہت بھی دلچسپی رکھتا ہے۔ اس نے سوچا ہے کہ اگر ان میں سے کوئی شخص اُردو سیکھنا چاہے گا تو اُسے آن لائن سیکھنے کا مشورہ دے گا اور اگر آن لائن سیکھنے میں اسے دلچسپی نہ ہوئی تو خود سکھائے گا یا کسی اور کو اس خدمت پر آمادہ کرے گا۔ اس کے اقدامات میں یہ بھی شامل ہے کہ اب ویسی زبان نہیں بولے گا جیسی سب بولتے ہیں بلکہ اس کی زبان میں اُردو کی حقیقی خوشبو رچی بسی ہوگی۔ اُس نے اساتذہ سے خاص طور پر یہ اُمید وابستہ کی ہے کہ جب بھی لب کشائی کریں تو عام سی اُردو نہیں بلکہ ایسی اُردو بولیں کہ مخاطب تو متاثر ہوہی، قریب سے گزرنے والا بھی ایک لمحے کیلئے رُکنے پر مجبور ہوجائے۔ وہ خاص طور پر اساتذہ کو اس جانب متوجہ کرے گا۔ اُس نے یہ بھی سوچا ہے کہ نیوز چینل والے جب جب اُردو الفاظ کا (عادتاً) غلط استعمال کریں گے ، وہ تب تب اُن سے رابطہ کرکے اُنہیں صحیح تلفظ یا صحیح استعمال سے واقف کرائے گا۔ اس سلسلے میں اُس نے ایک مثال پیش کی کہ گزشتہ دنوں ایک ایف ایم چینل کا آر جے امیر خسرو کو عامر خسرو کہہ رہا تھا۔ اُس نے اپنے ایک شناسا آر جے کو ٹیلی فون کیا اور درخواست کی کہ فلاں آر جے سے آداب کہے اور اس کی اصلاح کردے کہ وہ امیر ہے عامر نہیں۔ 
 تصوراتی دُنیا کے اس اُردو کے شیدائی کو سابقہ تجربات کے برخلاف اُمید ہے کہ ۲۰۲۱ء کے نئے سال اور نئی دہائی میں وہ تنہا نہیں رہ جائیگا بلکہ دیگر اہل اُردو بھی اس کے مشن کا حصہ ہونگے! 

متعلقہ خبریں

This website uses cookie or similar technologies, to enhance your browsing experience and provide personalised recommendations. By continuing to use our website, you agree to our Privacy Policy and Cookie Policy. OK